ٹیلی ویژن کا کردار کبھی اردو زبان و ادب کے لیے مناسب نہیں رہا

1995

معروف شاعر، ادیب، صحافی، نقاد اور بینکار اکرم کنجاہی کی جسارت میگزین سے گفتگو

اکرم کنجاہی کے قلمی نام سے ادبی دنیا میں مشہور ہونے والے شاعر‘ ادیب‘ صحافی‘ نقاد‘ محقق اور بینک کار کا پیدائشی نام محمد اکرم بٹ ہے۔ ان کی پیدائش گجرات (پنجاب پاکستان) کے مضافاتی علاقے کنجاہ میں ہوئی اسی نسبت سے وہ ’’کنجاہی‘‘ ہیں۔ وہ طویل مدت سے کراچی میں آباد ہیں انہوںنے نے MBA, MEL, DAIBP کی ڈگریاں پنجاب یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز سے حاصل کیں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازم ہوئے لیکن جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑ کر دوسرا بینک جوائن کرلیا۔ وہ آج کل سندھ اور بلوچستان میں اس بینک کے چیف آڈیٹر ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ گجرات اور کراچی سے شائع ہونے والے ادبی پرچے ’’غنیمت‘‘ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے مذاکرے اور مشاعرے بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ انہوں نے پنجابی ٹی وی چینل ’’اپنا‘‘ پر 2006 سے 2008ء تک ’’پنجاب رنگ‘‘ کے نام سے ادبی پروگرام پیش کیے۔ انہوں نے متعدد اعزازات حاصل کیے‘ وہ اس حوالے سے بھی ممتاز ہیں کہ ان کا لہجہ جدید ہے اور شاعری عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ گزشتہ ہفتے راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے ان سے مکالمہ کیا جس کی تفصیل قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
جسارت میگزین: اپنی تصانیف و تالیفات کی تفصیلات بیان کیجیے۔
اکرم کنجاہی: میرا زیادہ کام تحقیق و تنقید کا ہے‘ اس حوالے سے میری پہلی کتاب ’’راغب مراد آبادی‘ چند جہتیں‘‘ شائع ہوئی تھی۔ اس سال جو کتابیں صاحبانِ نظر سے داد پا چکی ہیں ان میں ’’نسائی ادب اور تانیثیت‘‘، لفظ‘ زبان اور ادب‘‘ اور ’’غزل کہانی‘‘ ہیں۔ چند اور تنقیدی کتب جو مکمل کر چکاہوں اور آئندہ تین چار مہینوں میں اشاعت پذیر ہونے والی ہیں‘ ان میں ’’معاصر متغزلین‘‘، محاسن فکر و فن‘‘ اور ’’لہجے اور اسلوب‘‘ ہیں اس کے علاوہ میری ادارت میں شائع ہونے والے سہ ماہی ادبی مجلے’’غنیمت‘‘ میں بھی ایک سو سے زیادہ کتابوں پر تبصرے کر چکا ہوں۔ نثر میں کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے لیے‘ تقریر کے فن پر برسوں پہلے میری دو کتب ’’فن کتابت‘‘ اور ’’اصولِ تقریر‘‘ لاہور سے شائع ہوئی تھیں۔ ان کتب کے درجن سے زیادہ ایڈیشنز چھپ چکے ہیں۔ میرے چار شعری مجموعے ہجر کی چتا‘ بگولے رقص کرتے ہیں‘ محبت زمانہ ساز نہیں اور دامنِ صد چاک منظر عام پر آچکے ہیں۔ دو کتابیں ترتیب و تدوین کے حوالے سے منظر عام پر آچکی ہیں۔ ایک نظموں کا انتخاب ہے ’’امن و امان اور قومی یک جہتی‘‘ اور ’’رضیہ احمد کی افسانوں کا تجزیاتی جائزہ‘‘ میری ایک پیشہ ورانہ کتاب ’’انٹرنل آڈٹ ان بینکس‘‘ شائع ہو چکی ہے جو پاکستان میں اس موضوع پرکسی بھی بینک کار کی واحد کاوش ہے جب کہ بینک کاری کے حوالے سے ایک اور کتاب اشاعت کی منتظر ہے۔
جسارت میگزین: شاعری میں علم عروض کی اہمیت پر روشنی ڈالیے۔
اکرم کنجاہی: مجھے اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ہم یہ بحث کرتے ہیںکہ شاعری کے لیے علمِ عروض ضروری ہے یا نہیں‘ تو دوسری طرف ہم نے نثری نظم کو مکمل طور پر قبول کرنا تو درکنار نظم و غزل میں ہئیت کی تجربوںکو بھی پزیرائی نہیں بخشی۔ 1874ء میں جب انجمن پنجاب کے زیر اہتمام غیر مقفیٰ نظموں کا تجربہ ہوا تو وہ بھی غیر عروضی نہیں تھا‘ بعدازاں 1920ء کی دہائی میں تصدق حسین خالد نے پہلی آزاد نظم لکھی تو وہ بھی غیر عروضی بہرحال نہیں تھی۔ بحر کے ارکان کم یا زیادہ کیے گئے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد مظہر امام اور علیم صبا نویدی نے آزاد غزل کا تجربہ کیا اور پاکستان میںفارغ بخاری‘ قتیل شفائی اور ظفر اقبال وغیرہ نے بھی آزاد غزلیں کہیں تو وہ بھی غیر عروضی حتیٰ کہ بشیر بدر نے جو چند نثری غزلیں کہی تھیں وہ بھی غیر عروضی نہیںتھیں۔ اس کے باوجود کہ یہ تمام تجربات غیر عروضی نہیں تھے‘ کوئی تجربہ کبھی مقبول نہیں ہوا تو پھر علم عروض کی ضرورت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔ آپ کسی موچی کے پاس چلے جائیں تو وہ آپ کے پائوں کی پیمائش لیے بغیر جوتا نہیں بنائے گا‘ درزی کے پاس جائیں تو وہ اپنے میٹر سے آپ کی لمبائی چوڑائی حتیٰ کہ گردن اور بازوئوں کی پیمائش لے کر آپ کا لباس تیار کرے گا۔ کیا ایک معمار کسی پیمائش کے بغیر عمارت تعمیر کرنے کا سوچ سکتا ہے؟ دنیا میں ہر کھیل کے میدان کی طے شدہ لمبائی چوڑائی یا گولائی ہوتی ہے۔ دیسی کبڈی ہی کو لیجیے آپ دائرے سے باہر ہو جائیں تو پوائنٹ مخالف ٹیم کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم نے تو پڑھا ہے کہ جملہ بناتے وقت ’’دوناٹ‘‘ اور ڈِڈناٹ‘‘ بھی سوچ سمجھ کر لگاتے ہیں۔ بھائی جی! شاعری پر ہی ستم کیوں؟ یہ مناسب نہیںکہ جو چاہے اصول اور ضابطے سیکھے بغیر اس میدان کا کھلاڑی بن جائے۔ اقبال نامہ جلد اوّل میں حضرت علامہ کے نظریۂ شعر پر بہت عمدہ باتیں ملتی ہیں۔ اقبال کی رائے ہے۔ ’’نظم کی تقسیم جو قدیم سے ہے‘ ہمیشہ رہے گی‘ اگر ہم نے پابندیٔ عروض کی خلاف ورزی کی تو شاعری کا قلعہ ہی منہدم ہو جائے گا اور اس نقطۂ خیال سے کہنا پڑے گا اور یہ کہنا درست ہے کہ موجودہ شعرا کا کام تعمیری ہونا چاہیے نہ کہ تخریبی۔‘‘ ہم جب کہتے ہیں کہ فلاں شخص موزوں طبع ہے یا یہ کہ شاعری کے لیے موزونی طبع ضروری ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ موزونیٔ طبع کیا بلا ہے؟ یہی کہ کسی شخص میں تخیل کو تجسیم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ کسی بحر میں شعر موزوں کرنے کی قدرتی صلاحیت کا حامل ہے۔ کیا ایک شخص بہترین تخیل کے ساتھ‘ دل کے نازک جذبات و احساسات کو بیان کر دے تو وہ شاعری ہو جائے گی؟
جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کتنے اہم ہیں؟ کیا موجودہ زمانے میں یہ دونوں اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں؟
اکرم کنجاہی: واضح طور پر اس ایک سوال کے اندر دو سوال ہیں۔ اہمیت اور موجودہ کردار۔ کوئی بھی صاحبِ عقل و شعور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کرسکتا۔ غور کیجیے تو جسے ہم سوشل میڈیا کہتے ہیں‘ وہ بھی دراصل الیکٹرانک میڈیا ہی تو ہے۔ تخلیق کار اپنے ادبی کام کو انہی کے ذریعے اپنے قاری تک پہنچاتا ہے۔ اودھ پنچ سے لے کر امروز تک اخبارات و رسائل کی ایک تاریخ ہے کہ انہوں نے ادب کی کتنی خدمت کی ہے۔ بعدازاں کچھ دوسرے اخبارات نے بھی ادبی صفحات کا اجرا کر دیا جو آج بھی جاری تو ہے مگر اس کے معیار پر بات ہو سکتی ہے۔ ادبی پرچوں میں ایک سو بیس سال پہلے جب مخزن نے اپنی اشاعت کا آغاز کیا تو ادبی دنیا میں انقلاب برپا ہوا بعدازاں کئی اور ادبی پرچے ادبی دنیا‘ نقوش‘ فنون‘ اوراق‘ افکار‘ شاعر‘ ادبِ لطیف‘ نیرنگِ خیال‘ تخلیق‘ صریر‘ غنیمت لاہور اور اسی طرح لاتعداد پرچوں نے تاریخ رقم کی۔ ریڈیو کی دنیا جب فعال تھی تو ہر عہد میں ادبی مشاہیر اس ادارے سے منسلک رہے اگر نام لکھنا شروع کروں گا تو صفحہ طوالت کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ چند پروگراموں اور تہواروں پر گنے چنے شاعروں کو لے کر مشاعرہ منعقد کرنے کی استثنائی صورت کے ساتھ‘ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ٹیلی ویژن کا کردار کبھی بھی اردو زبان و ادب کے لیے مناسب نہیں رہا اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ کچھ ٹیلی ویژن چینل باقاعدہ ادبی مشاہیر کی ڈمیاں بنا کر ان کی تضحیک کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک چینل نے مجید امجد کے حوالے سے انتہائی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح لودھی نام کے ایک اینکر نے اپنے پروگرام میں کراچی کے ادبی مشاہیر کی عمر رسیدگی اور شعر خوانی سے متعلق لطیفے بازی کی۔ البتہ ایک دو چینلزپر شعرا و ادبا کے ساتھ ہفتہ وار گفتگو کا سلسلہ قابلِ تعریف ہے۔ میں باقاعدگی سے تو نہیں دیکھ پاتا لیکن ’’چائے خانہ‘‘ ایک اچھا پروگرام ہے‘ کبھی اتفاق سے آن ایئر ہو اور نظر پڑ جائے تو مکمل دیکھتا ہوں۔ کچھ پروگراموں سے متعلق یہ بھی شنیدہے کہ اس کے اینکر/پروڈیوسر انٹرویو ریکارڈ کرنے کے بعد روکے رکھتے ہیں جب تک مہمان شہرت کی ہوس میں ان کی تنگ دستی دور نہ کر دے۔ یہی حال پرنٹ میڈیا کے چند صحافیوں کا بھی ہے جو ایک طرف تو جینوئن تخلیق کاروں کی عزت نفس مجروح کرتے ہیں تو دوسری طرف اپنی تمام برادری کو بدنام کرتے ہیں۔ فی زمانہ رابطے اور تشہیر کے لیے فیس بک کی اہمیت سے چنداں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جو شاعر ادیب تقریباتی نہیں ہیں‘ وہ اسے مؤثر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔
جسارت میگزین: کراچی میں ہونے والے مشاعروں اور تنقیدی نشستوں کی صورتِ حال پر تبصرہ کیجیے۔
اکرم کنجاہی: دبستانِ کراچی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ادبی تقریبات کا شہر ہے۔ ہر روز متعدد مقامات پر مشاعرے‘ کتب کی تقاریبِ رونمائی اور تنقیدی و تفہیمی نشستیں منعقد ہو تی ہیں۔ بہت سی تنظیمیں بے لوث ادب کی خدمت کر رہی ہیں مگر ایک مخصوص طبقہ ہے جس نے مشاعروں اور ادبی تقاریب کو مالی منفعت کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ ایسے افراد میرے پاس بھی آتے رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ان کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ ایک جینوئین تخلیق کار اپنے اوپر اسپانسر کا ٹیگ کیوں لگوانا چاہے گا‘ اُسے فن کے سہارے زندہ رہنا چاہیے اگر وہ صدر یا مہمان خصوصی بننے کے لیے پیسے دے گا تو ادبی دنیا ایک ناقد‘ ادیب اور شاعر کے طور پر اس کی عزت نہیںکرے گی۔ مشاعروںٍ کی نسبت تنقیدی نشستوں کا رواج کم ہے مگر ان کی بھی اپنی ایک مکمل تاریخ ہے۔ ابتدا میں مجھے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تنقیدی نشستوں میں شرکت کا موقع ملا۔ نقاش کاظمی اور علی عرفان عابدی ایک‘ ایک تخلیق کار کو رفون کرکے یاد دہانی کروایا کرتے تھے‘ کامیابی کے پیچھے ان کی محنت کار فرما تھی۔ اب آرٹس کونسل میں حلقۂ اربابِ ذوق کی تنقیدی نشستیں قابل تعریف تسلسل کے ساتھ منعقد ہوتی ہیں۔ میں نے گزشتہ دو برس میں کئی جلسوں کی صدارت بھی کی ہیٌ‘ ان کی کامیابی کا سبب زیب اذکار حسین کی کوششوں کا ثمر ہے۔ انہیں تنقید کے شعبے سے خصوصی رغبت ہے جس کے سبب حلقے اور پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام گزشتہ کئی برسوں سے کامیاب تنقیدی نشستوں اور شخصیات و کتب کی تقاریب پذیرائی کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں اس حوالے سے ایک بات قابل توجہ ہے کہ مشاعرے اور تنقیدی نشست کی صدارت میں واضح فرق ہے۔ ضروری نہیں کہ ایک بڑا شاعر تنقیدی نشست کی صدارت کا بھی اہل ہو‘ اس لیے کہ مشاعرے میں صدر تقریب نے ایک فقرہ ’’صاحبِ صدر کی اجازت سے‘‘ سن کر سر کو ہلکی سی جنبش دینا ہوتی ہے اور آخر پر ایک دو اضافی صدارتی غزلیں پیش کرنا ہوتی ہیں جب کہ تنقیدی نشست میں پورے تاریخی اور معاصر ادبی نامے کے پس منظر میں مختلف اصناف ادب پر فی البدیہ گفتگو کرنا ہوتی ہے‘ ہر شخص اس کا اہل نہیں ہوتا اور کم علم فوراً ایکسپوز ہوجاتا ہے۔
جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
اکرم کنجاہی: ترقی پسند تحریک کو ایک طرح سے آپ سرسید اور حالیؔ کی تحریک اصلاح کی توسیع بھی کہہ سکتے ہیں مگر دو حوالوں سے واضح فرق تھا ایک تو ترقی پسندوں کے دینی نقطۂ نظر سے متعلق ادب کا ہر قاری جانتا ہے۔ 1945ء حیدرآباد میں منعقد ہونے والی ترقی پسند کانفرنس میں جب ڈاکٹر عبدالعلیم نے ایک قرارداد پیش کرنا چاہی جس میں کہا گیا تھا ’’یہ کانفرنس اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ ترقی پسند تحریک ادب میں فحش نگاری کے خلاف ہے اور اسے براسمجھتی ہے۔‘‘ تو مولانا حسرت موہانی کا اصرار تھا کہ قرارداد میں اس فقرے کا اضافہ کیا جائے ’’لیکن وہ لطیف ہوس ناکی کے اظہار میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔‘‘ لہٰذآ قرارداد پیش نہ ہو سکی۔ دوسرا فرق اسلوبِ بیان کا بھی تھا کہ انہیں حالیؔ کی نیچرل شاعری سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ ان کی اپنی ڈکشن‘ علامتیں اور استعارے تھے۔ ہاں دونوں میں ہم آہنگی یہ تھی کہ غمِ جاناں سے بوجھل اور گراں بار شاعری کو سماجی اور معاشرتی حقیقت نگاری کی طرف لے کر آئے۔ ترقی پسند عملی سیاست کے ذریعے بھی تبدیلی کے خواہاں تھے۔
جسارت میگزین: اردو ادب میں نثری نظم کی کیا حیثیت ہے؟
اکرم کنجاہی: اُردو میں سب سے پہلے علامہ نیاز فتح پوری نے 1914ء میں نثری نظم کو ’’گیتان جلی‘‘ کا ترجمہ کرکے متعارف کروایا تھا‘ پہلی ضخیم کتاب’’پنکھڑیاں‘‘ کے نام سے حکیم یوسف حسن نے 1929ء میں مرتب کی تھی یوںاس صنفِ ادب کی عمر سو سال سے کچھ اوپر ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے جب ن۔ م۔ راشد سے نثری نظم کے حوالے سے سوال کیا تھا تو انہوں نے خوب صورت جواب دیا کہ جب آزاد نظم سامنے آئی تو لوگ اس سے متعلق بھی یہی باتیں کرتے تھے۔ دراصل نثر نظم کو ان متشاعروں نے بدنام کیا ہے جن کو کسی ڈکشن کا شعور ہے اور نہ ہی جذبہ و تخیل سے ان کا کوئی واسطہ ہے۔ نثری نظم کا مواد اتنا توانا ہو کہ وہ کسی خارجی آہنگ کی محتاج نہ رہے اور الفاظ مواد کی پیش کش میں کمک کی طرح موجود ہوں۔ اسے چند اچھے شعرا ضرور ملے ہیں اور اس صنف میں کچھ اچھے مجموعے بھی سامنے ضرور آئے ہیں مگر ابھی اس نے اپنا عروج نہیں دیکھا۔
جسارت میگزین: رواں سال کراچی کی کئی نامور ادبی شخصیات کا انتقال ہوا اس سے کراچی کا ادبی منظر نامہ کتنا متاثر ہوگا؟
اکرم کنجاہی: حال میں کراچی کے جو اہل قلم ہم سے جدا ہوئے وہ ایک دوسرے اپنی شخصیت ہی نہیں کام کے اعتبار سے بھی مختلف تھے۔ منظر ایوبی سے میرا دیرینہ تعلق تھا۔ سرور جاید صاحب سے منظر ایوبی جیسی قربت تو نہ تھی مگر ان سے بھی دیرینہ ادبی تعلق تھا۔ میں جدید اردو نظم کے حوالے سے ان کے مربوط اور مبسوط تحقیقی و تنقیدی کا کام معترف ہوں۔ ’’متاع نظر‘‘ میں ان کی شخصی مضامین بھی اہم ہیں مگر کہیں کہیں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ بہرحال سرور جاوید صاحب کا تنقیدی کام یاد رکھا جائے گا‘ وہ اچھے شاعر اور عمدہ تنقید نگار تھے۔ آصف فرخی صاحب کی کئی تخلیقی جہات تھیں بطور افسانہ نگار‘ تنقید نگار‘ مترجم ان کا کام وقیع ہے مگر افسوس آٹھ کے قریب افسانوی مجموعوں کے باوجود ناقدین اور تذکرہ نگاروں نے ان سے انصاف نہیں کیا۔
جسارت میگزین: کورونا نے ادبی سرگرمیوں پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
اکرم کنجاہی: کوروناسے جہاں زندگی کی روانی و جاودانی متاثر ہوئی وہیں اس وبا نے انسان کو دنیا اور زندگی کی بے ثباتی کا احساس دلایا۔ شعرا و ادبا نے آن لائن مشاعروں اور ادبی تقریبات کا انعقاد کیا‘ ان لوگوں کو بھی عالمی مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا جن کو کوئی مقامی مشاعروں میں بھی دعوت نہیں دیتا۔ ایک دوسرے سے دور بستیوں میں بسنے والے تخلیق کار ایک دوسرے کے قریب آئے۔

حصہ