جولائی سے پانی نہیں آرہا۔ ٹینکر پر ٹینکر ڈلوا رہے ہیں۔ واٹر بورڈ والوں کو فون پر فون کررہے ہیں، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ کوئی پرسانِ حال نہیں۔ لوڈشیڈنگ سے نمٹنے کے لیے جنریٹر لگوا لیا۔ پینے کا صاف پانی واٹر فلٹر پلانٹ سے آرہا ہے۔ عام استعمال کے پانی کے لیے ٹینکر ڈلوا رہے ہیں۔ ٹینکر والوں کے نخرے برداشت کررہے ہیں۔ اور پھر ایسا نہیں ہے کہ بل کم آرہا ہو۔ پچھلے برسوں کی نسبت اِس سال دُگنا بل پانی، بجلی اور گیس کی مدوں میں آرہا ہے۔ وہ بھی بھر رہے ہیں۔ سڑکوں پر پانی کی لائنیں پھٹی پڑی ہیں۔ صاف پانی سڑکوں پر بہہ رہا ہے اور اہلِ محلہ پانی سے محروم ہیں۔ لیکن آخر کب تک؟ بالآخر وہی اٹھے جنھوں نے ان خاموش عوام کی مدد کے لیے ہر گروہی، ہر نسلی، علاقائی امتیازات سے پاک ہوکر اپنے اپنے علاقوں میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اس علاقے میں بھی ایسے ہی ایک صاحب نے اپنے نفع نقصان کی سوچ سے بالاتر ہوکر تمام محلے والوں کا بھلا سوچتے ہوئے یہ سارے معاملات خود ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ محلے میں کمیٹی بنائی، خود آگے بڑھے، اپنے خرچے پر تمام افراد سے محضرنامے بنواکر دستخط لیے مبادا شہری حکومت کا کوئی کارندہ اس مقصد کو تہہ تیغ کرنے آئے۔ پانی کی لائنوں کی کھدائی شروع کروائی اور دیکھتے ہی دیکھتے کھدائی کے دوران حیرت انگیز انکشافات ہونا شروع ہوئے۔ پانی کی لائنوں میں کئی کئی فٹ کی موٹی موٹی جڑیں نکل رہی تھیں جو پانی تو کیا، ہوا تک نکلنے کی راہ میں بڑی بری طرح حائل تھیں۔ ان 50 برسوں میں انہوں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ جڑیں اتنی خطرناک حد تک بڑھی ہوں کہ پانی کی موٹی موٹی لائنوں تک کا راستہ روک لیں۔ خیر کئی دن کی محنت رنگ لائی، لائنوں کو ان اژدھے نما خطرناک جڑوں سے پاک کیا، یعنی واٹر بورڈ والوں کا کام بھی اپنی مدد آپ کے تحت کیا۔ اور پھر الحمدللہ وقتِ مقررہ پر پانی کی روانی شروع ہوگئی۔
دنیا میں ایسی سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بظاہر معصوم نظر آنے والے پودے کسی نئے خطے میں منتقل کرنے پر وہاں کے انسانوں اور پودوں کے لیے فساد بن گئے۔ اس کی ایک مثال آسٹریلیا کاLeuca Mela درخت ہے جسے فلوریڈا میں زیر زمین پانی کی سطح کو کم کرنے کے لیے منتقل کیا گیا، لیکن اس نے مقامی پودوں میں گھس کر پانچ لاکھ ایکڑ رقبہ تباہ کردیا۔
پاکستان میں متعدد جگہوں پر ایسے درخت جابجا نظر آتے ہیں جنہیں ماحول اور نوعِ انسانی پر پڑنے والے اثرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہاں لگادیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں غیر ملکی پودوں کا باقاعدہ ریکارڈ دستیاب نہیں، لیکن ایک اندازے کے مطابق یہاں 700 سے زائد بدیسی پودوں کی اقسام موجود ہیں جن میں سے کئی اقسام مقامی پودوں اور جانوروں کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ اسلام آباد کو سرسبز بنانے کی غرض سے اس علاقے میں گل توت لگایا گیا لیکن چند ہی سال میں یہ اپنے تیز تر پھیلائو کے باعث مقامی انواع کے لیے خطرہ بن گیا۔ پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل کے مطابق اس خطے میں الرجی میں مبتلا ہونے والے 45 فیصد افراد گل توت سے ہی متاثر ہوتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ کیکر مقامی درخت نہیں ہے بلکہ اس کا آبائی وطن ویسٹ انڈیز اور میکسیکو ہے۔ پاکستان میں بغیر کسی تحقیق اور منصوبے کے اس کا فضائی چھڑکائو کیا گیا جس کی وجہ سے ببول، شیشم اور کئی مقامی جڑی بوٹیوں کے درخت بری طرح متاثر ہوئے۔ اسی طرح جنوبی امریکا سے درآمد شدہ واٹر فرن اور گل بکائولی اپنے جارحانہ پھیلائو اور منفی خواص کے باعث سندھ کے آبی ایکو سسٹم کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے بہاول پور میں شجر کاری مہم کو فروغ دیا جارہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں لگائے جانے والے درخت کونو کارپس کے ہیں۔
کراچی اس معاملے میں سب سے بدقسمت شہر ہے۔ کروڑوں کی آبادی والے شہر سے سوچے سمجھے سازشی منصوبے کے تحت سفیدے، برگد، نیم اور مقامی پھلوں کے درختوں کو بڑی بڑی مشینوں سے کاٹ کر ان کی جگہ کونو کارپس کا ناکام تجربہ کراچی میں سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں کیا جاچکا ہے، جب 25لاکھ کونو کارپس افریقہ سے درآمد کیے گئے۔ یہ درخت کراچی میں پولن الرجی اور دمہ کا باعث بن رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کونوکارپس ہماری مقامی آب و ہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں۔ کونوکارپس دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائشِ نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں سڑکوں کے کناروں پر اس درخت کو تیزی سے کاشت کیا جارہا ہے جو مستقبل میں ماحولیاتی اور صحت کے مسائل کا باعث بنے گا۔ اس سے پہلے سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر حکومت کی طرف سے یوکلپٹس اور چائنا پاپولر بے دریغ کاشت کیے جاتے تھے جن کے گرے ہوئے پتوں نے مقامی پودوں کی نشوونما کو نابود کردیا۔ ماہرین کے مطابق سفیدے کا درخت چوبیس گھنٹوں میں ساڑھے سترہ لیٹر پانی جذب کرکے فضا میں چھوڑتا ہے جس کی وجہ سے فضا میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔جامعہ کراچی کی طالبہ یمنیٰ جاوید کہتی ہیں کہ دراصل چھوٹے تنے پر مشتمل ایک بڑی جھاڑی ہے، اسے’’ Button wood‘‘بھی کہا جاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ درخت، شمالی کیریبئن کوسٹ(North Caribbean Coast) سے تعلق رکھتا ہے۔ کونوکارپس مٹّی میں موجود زائد نمکیات، گرد و غبار، پانی کی کمی، بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سمیت دوسرے سخت حالات کو، جو شہری زندگی کا خاصہ ہیں، برداشت کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے، اسی بنا پر اسے کئی ممالک نے اپنے بڑے شہروں میں وسیع پیمانے پر لگایا، جن میں خلیجی ممالک سرِفہرست ہیں۔ پاکستان میں اس درخت کو 2008ء میں مصطفیٰ کمال کے دور میں متعارف کروایا گیا۔
اس دوران شہرِ قائد میں 5.4ملین کونوکارپس لگائے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تیزی سے پھیلنے والا یہ درخت کراچی کے کئی رہائشی علاقوں اور شاہ راہوں کے اطراف نظر آنے لگا۔ ڈی ایچ اے، کے ڈی اے اور دوسری ہائوسنگ اتھارٹیز سمیت یونی ورسٹی روڈ اور شارع فیصل پر اسے بڑے پیمانے پر لگایا گیا۔ تاہم، کراچی میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کے ضمن میں اب یہ درخت بھی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ماہرین اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد کونوکارپس کو اس خرابی کا ذمّے دار ٹھیرانے پر مُصر ہے، تو بہت سے لوگ ان باتوں کو مبالغہ آرائی قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس حوالے سے کچھ حقائق پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔کراچی میں 2008ء میں باہر سے لا کر لگائے گئے اس درخت کو پہلے سے موجود اسپیشیز یوکلپٹس (Eucalyptus)کے نعم البدل کے طور پر لگایا گیا تھا، جسے ماہرین نے ماحول کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ دراصل کونوکارپس اپنی پانی کی ضروریات خود ہی اپنے پیچیدہ اور باریک جڑوں کے نظام سے پوری کرلیتا ہے کہ اس کی جڑیں کم جگہ میں بھی زمین کے اندر تیزی سے سرایت کرکے زیرِ زمین پانی جذب کرلیتی ہیں، اور اسی وجہ سے اُن علاقوں میں موجود دیگر اقسام کے درختوں کے لیے پانی کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے اور نتیجتاً کچھ ہی عرصے بعد وہ درخت سوکھ کر رہ جاتے ہیں۔
صرف یہی نہیں، کونوکارپس کی تیزی سے پھیلنے والی جڑوں کے باعث زیرِزمین نالیوں اور پائپس کے بچھے جال کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں عمارتوں کی بنیادیں بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔ نیز، کونوکارپس نومبر اور اپریل میں اپنی ری پروڈکشن (Reproduction) کے لیے پولن گرینز (Pollen grains) کا اخراج کرتے ہیں، جو پولن الرجی کا سبب بنتے ہیں۔
ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ اس درخت کے عام ہوتے ہی یہاں کے مقامی پرندے دوسرے علاقوں کی طرف پرواز کرگئے ہیں، کیوں کہ مقامی درخت نہ ہونے کے باعث عمومی طور پر پرندے کونوکارپس پر بسیرا نہیں کرتے۔ اس درخت سے کچھ زہریلے مادّوں کا بھی اخراج ہوتا ہے، جو پرندوں کے ساتھ انسانوں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔
جامعہ کراچی کے ڈاکٹر ظفر اقبال شمس کی International journal of environmentمیں چھپنے والی ریسرچ رپورٹ کے مطابق کونوکارپس اسپیشیز کے پتّوں کے Extract میں کثیر تعداد میں Phenolic Compoundsپائے جاتے ہیں، جو مکئی اور لوبیا وغیرہ کی پیداوار اور نشوونما کو روکنے کا سبب بنتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ”مقامی درخت نیم، کونوکارپس سے تین گنا زیادہ کاربن جذب کرتا ہے، جس سے واضح طور پر اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مقامی درخت نہ ہونے کے باعث کثیر تعداد میں کونوکارپس کی افزائش جو مطلوبہ مقدار میں کاربن جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، کراچی کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کا سبب ہے۔“یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کونوکارپس مکمل طور پر نقصان دہ نہیں۔ رہائشی علاقوں کے بجائے جنگلات میں افزائش کرکے اس کی لکڑی کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس کی Allelopathic خصوصیات کے باعث اسے مختلف پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کے خلاف مؤثر دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کا فصلوں کے لیے استعمال ہرگز مناسب نہیں، کیوں کہ یہ انھیں نقصان پہنچاتے ہیں۔
کونوکارپس کے فوائد اپنی جگہ، لیکن شہری علاقوں میں اس کے سبب ہونے والے نقصانات کو مدنظر رکھا جائے تو کراچی میں اس کی کاشت کسی صورت مناسب قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہمیں شہر میں نیم، املی، جامن، برگد، اشوکا، کچنار، چمپا، املتاس اور غیر معمولی خوبیوں کے حامل سوہانجنا (Moringa) کے درختوں کی افزائش کو فروغ دینا چاہیے تاکہ کراچی کے ماحول کو شہریوں اور پرندوں کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں عوام کو بھی حکومتی اداروں پر تنقید میں مصروف رہنے کے بجائے خود بھی ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
پودا کونوکارپس کراچی میں بڑے پیمانے پر کاشت ہونے کے باعث افواہوں کی زد میں ہے، ڈاو یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کہتے ہیں کہ یہ اتنا نقصان دہ پودا نہیں بلکہ یہ پودا آکسیجن بھی بناتا ہے۔
ماہرين کہتے ہیں کہ روزانہ ہزاروں نئی گاڑیوں کا سڑکوں پر آنا اور بلند و بالا عمارتیں گرمی کی شدت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں، جب کہ نیشنل فورم فار انوائرنمنٹ اینڈ ہیلتھ کے صدر نعیم قریشی کے مطابق کونوکارپس کے فائدے اور نقصانات دونوں ہیں۔ لیکن یہ بات اب مقامی افراد بھی جان چکے ہیں کہ اس پودے کے نقصانات اس کے فوائد پر حاوی ہیں۔
ماحولیاتی ماہرین نے زور دیا ہے کہ شہر میں مقامی انواع کے درخت لگائے جائیں، کیونکہ یہ شہر کے ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں۔
کراچی کی مقامی انواع میں املی، پیپل، نیم جس کا گھنا سایہ تپتی دوپہر میں فرحت کا احساس دیتا ہے، املتاس پیٹ کے درد کے لیے جس کی پھلی بطور دوا استعمال ہوتی ہے، سوہانجنا جس کی پھلی لوگ دال میں ڈال کر کھاتے ہیں جس کی بہت مزے دار دال بنتی ہے، ہڈیوں کے مریض اس درخت کے پتے ابال کر پیتے ہیں اور شفایاب ہوتے ہیں، چمپا جس میں خوبصورت، خوشبودار پھول ہوتے ہیں جو چہرے کی شادابی بڑھانے کے کام آتے ہیں، برگد کا پُرسکون سایہ، لیگنم، آم جس کا پھل بھی مزا دیتا ہے، امرود مزیدار پھل والا درخت، جنگل جلیبی، مزیدار اور خون بڑھانے والا پھل چیکو، انسانی ہاضمہ مکمل درست کرنے والا پھل پپیتا اور خوبصورت پھولوں والا گل مہر جس کی تینوں اقسام کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ یہ تمام درخت مقامی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی بیماریوں دل، انسانی جسم، اعصابی نظام، نظام تنفس، نظام انہظام، نظامِ خون، کھال و ہڈیوں کی مضبوطی میں بطور دوا بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ پودے مکمل ماحول دوست بھی ہوتے ہیں۔ انسانی جسم اور مقامی چرند پرند پر ان درختوں کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔