۔14 اگست قریب آتے ہی دلوں میں جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے اور ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ جیسے متحرک کردینے والے نعرے لگانے کو جی چاہتا ہے۔
14 اگست کے نام کے ساتھ ہی ہری جھنڈیاں اور لہراتے سبز ہلالی پرچم کے علاوہ تحریکِ پاکستان اور بانیِ پاکستان کی ولولہ انگیز تقریریں بھی دماغ کی اسکرین پر چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
تحریکِ پاکستان سے دو چیزیں خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں کو میسر آئیں، آج بھی یہی دو چیزیں دوبارہ ہمارے اندر آجائیں تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس میں پہلے نمبر پر علیحدہ ملک کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا رنگ، نسل اور علاقے سے بالاتر ہوکر اتحاد کا مظاہرہ ہے۔
میرے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ تحریک کے متوالوں نے علاقے کا نام لے کر تعصب کا مظاہرہ کیا ہو۔ ’’اتفاق میں برکت ہے‘‘ کا یقینِ کامل ہوگیا، ایک اکیلے تنکے اور جھاڑو کا فرق معلوم ہوا۔ دوسرا یہ کہ صالح، بے لوث قیادت کا اقتدار، مال و دولت کی پیشکش کو ٹھکرانا معمولی بات نہیں۔ اس کے لیے جگرا چاہیے۔ گھر آئی لکشمی کسے بری لگتی ہے! تھالی میں رکھا عہدہ تو ایک حسین خواب ہے، جو ہر سیاسی کارکن دیکھ سکتا ہے۔ اسے بے نیازی سے پرے دھکیل دینا اور اصولوں پر چلنا بہت بڑی بات ہے۔ صداقت، ایمان داری اور دیانت داری کے اعلیٰ اوصاف کے حامل قائداعظم محمد علی جناح نے کسی قسم کی بھی بددیانتی کو برداشت کیا نہ کرنے دیا۔ 23 مارچ 1940ء کی قراردادِ پاکستان سے برصغیر کے مسلمانوں کی انگلی پکڑ کر منزل کے حصول کے لیے جو سفر شروع کیا توکسی بیماری، ذاتی مصروفیات، مجبوریوں کا رونا رویا، نہ ہی پیچھے مڑ کے نہ دیکھا۔ جو ساتھ نہ نبھا سکے، راستہ چھوڑ بیٹھے انہیں مجبور نہ کیا، اور جو ساتھ چلتے رہے انہیں دل و جان سے قبول کیا۔ ان ہی دو چیزوں پر اسلام اور قرآن بھی زور دیتا ہے۔ صالح قیادت اور اتحادکا مظاہرہ جہاں بھی ہو، آزادی قدموں کو چھو لیتی ہے۔
سوال بس یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی آزادی ہے جس کے لیے قائد نے اتحاد، تنظیم اور یقینِ محکم کا نعرہ لگایا تھا؟ اپنی ذات اور خواہشات سے بے نیاز ہوگئے تھے؟ پاکستان کے حصول کو مقصد نہیں نصب العین بنالیا تھا، اور نصب العین کبھی بھی بغیر جنون اور عشق کے حاصل نہیں ہوتا۔ اُس وقت بچوں، بوڑھوں، جوانوں کا ہی نہیں، عورتوں کا بھی ولولہ دیکھنے کے قابل تھا۔
ہم تحریکِ پاکستان کے وقت متحد تھے، اور اتحاد میں برکت کا سیدھا سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دشمن کی بری نظر کا بھی پتا چل جاتا ہے۔
آج ہم متحد نہیں ہیں۔ ہم بلوچی، سندھی، سرائیکی، پختون، پنجابی، مہاجر ہیں۔ اندر سے ہم سب دل سے ایک ہیں لیکن متحد نہ ہونے کا وبال یہ پڑا کہ ہم دشمن کی چال میں آگئے۔ جو ولولہ تحریکِ پاکستان میں علیحدہ مملکت کے حصول کے لیے تھا وہ ولولہ اب ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے میں استعمال ہورہا ہے۔ جو محبت، ایثار، نرمی کے فطری جذبات اپنے ہم وطنوں کے لیے ہونے چاہیے تھے وہ اب دشمنوں کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ جن سے الگ ہوئے تھے انہی کا کلچر، انہی کے رسم و رواج اور طریقے اچھے لگنے لگے ہیں۔
آج ہماری مثال اُس شخص کی ہے جو آزاد ہوکے بھی ذہنی طور پر غلام ہے۔ کچھ لوگ آہنی زنجیروں میں جکڑ کے بھی آزاد ہوتے ہیں کہ ان کی بلند خیالی انہیں دار و رسن میں بھی آزادی کی جھنکار سنوا دیتی ہے، اور کچھ آزاد ہوکے بھی یورپین برانڈز، فرنچ پرفیومز، اٹالین جوتوں، انڈین رسم و رواج میں جکڑے قیدی ہوتے ہیں۔
یہی ننگِ دین، ننگِ ملّت ہوتے ہیں۔ یہی دھرتی کا بوجھ ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو تاریخ میں کوئی نام مل سکا نہ مقام۔
تو آیئے اس مرتبہ تجدیدِ عہد کرلیں، اتحاد کی اہمیت کو جان لیں، اخوت کا سبق پڑھ لیں۔ پچھلی کمی کوتاہیوں کو سامنے رکھ کر حال کی اصلاح کریں تاکہ مستقبل جان دار ہو، اور ہم ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا سکیں۔