سوشل میڈیا کے جدید دور میں باکردار صحافت کا روشن ستارہ

611

اطہر علی ہاشمی

’’میاں ،سنڈے میگزین اب تومیں صرف تمہارے کالم کے لیے پڑھتا ہوں، باقی کچھ پڑھوں نا پڑھوں تمہارے مضمون کو ضرور پڑھتا ہوں۔بہت اچھا لکھ رہے ہو۔جاری رکھو۔۔‘‘
استاذ الاساتذہ محترم و مکرم اطہر علی ہاشمی کے یہ الفاظ میرے لیے توکسی عالمی ایوارڈ سے بھی بڑھ کر رہیں گے۔ اپنے استاد سے یہ جملہ سننے کے بعد میں نے کبھی کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔
ہاں اَپنی تحریر پر مزید توجہ ضرور دی کہ اَب تو وہ بھی اُس کو دیکھیں گے۔ ہاشمی صاحب ،سے کئی حوالوں سے تعلق تھا جس میں سب سے زیادہ تو بطور استاد اورمربی کا تھا۔ ہمیشہ اُن سے رہنمائی و سرپرستی کی درخواست کرتا کہ مجھے اپنی تحریر میں سے قابل اِصلاح مواد پر ضرور متوجہ کیجیے گا۔صحیح بات یہ ہے کہ ’اُستاد ‘تو ایسا ہی ہوتا ہے۔انکی یہ محبت و شفقت میرے نہیں سب کے ساتھ یکساں تھی، اُن سے تعلق رکھنے ،ملنے والا، ساتھ کام کرنے والاہر شخص یہی سمجھتا کہ وہ مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔یہ ایسا با کمال وصف ہے جو میں نے اب تک براہ راست کسی اور میں نہیں دیکھا۔ اِس بات کی تصدیق تو 6 اگست کی صبح سے فیس بک، واٹس ایپ پر دوست احباب کی جانب سے از خود ہونا شروع ہو گئی تھی کہکم از کم تین رشتہ استاد، باپ، دوست ،بھائی، عزیز تو ہر فرد اُن سیتعلق کے لکھ رہا تھا۔
جسارت کے سابق چیف ایگزیکٹیو سید شاہد ہاشمی بتاتے ہیں کہ جب اطہر ہاشمی جسارت سے جدہ نیوز منتقل ہو رہے تھے تو جسارت نے اُن کے حسابات کی ادائیگی کے لیے بلایا تو انہوں نے مزید کچھ ہزار روپے کاٹنے کا کہا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کس مد میں کاٹے جائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ اسٹیشنری کی مد میں کاٹے جائیں کہ ِاس دوران انہوں نے دفتر کی کچھ اسٹیشنری کاغذ، پینسل و دیگر کچھ ذاتی کاموں میں استعمال کیا تھا جس کی ادائیگی وہ ادارہ کو اس صورت کرنا چاہتے ہیں۔ ادارہ کے چیف ایگزیکٹیو نے انہیں منع کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں،آپ نے بتا دیا کافی ہے لیکن ہاشمی صاحب بضد رہے اورہم سے رقم کٹوا کر ہی بقایا وصول کیے۔ایسے تھے اطہر ہاشمی۔اب آپ اس ایک واقعہ سے اندازہ کریں اُن صفات کا جس کا لوگ سوشل میڈیا پر ذکر کر رہے ہیں۔
۔6 اگست 2020کا سورج طلوع ہونے کے کچھ ہی دیر بعدمیرے فون کی گھنٹی بجی۔جسارت کے چیف آپریشنل آفیسر سید طاہر اکبر نے یہ افسوس ناک اطلاع دیتے ہوئے سخی حسن قبرستان میں قبر کے فوری انتظام کے لیے کہا۔اطلاع سُن کر زبان سے دْعائے مغفرت جاری ہوئی اور آنکھیں نم ہو گئیں۔قبرستان تک جاتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھیہ 2020 کا سال ہمارے کئی پیارے احباب کی جدائی کی خبر ساتھ لارہا تھا۔سید منور حسن، عظیم بلوچ، نعمت اللہ خان، مولانا عبد الرؤف، ڈاکٹر عبد القادر سومرو، انوار احمدزئی، نسیم صدیقی، مفتی نعیم، اسلام الدین ظفر، منظر ایوبی، شبیر قریشی، طارق عزیز، آیت اللہ درانی،اظہار احمد، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی، آصف فرخی، اطہر شاہ خان جیدی، امان اللہ، ڈاکٹر مبشر حسن، احفاظ الرحمٰن، میر جاوید رحمان، فخر الدین ابراہیم، اقبال حیدر، زاہد بخاری اور اب اطہر ہاشمی سمیت کئی احباب۔ان میںکچھ تو کورونا کی نظر ہوئے اور کچھ نے عمر رفتہ کا باب مکمل کیا۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمان مرد و خواتین کی مغفرت فرمائے۔
اطہر ہاشمی 18 اگست 1947ء کو بہاول پور میں پیدا ہوئے،۸بھائی اور ایک بہن میں دوسرے نمبر پر تھے۔ والد کاتعلق سہارن پور (یو پی) سے تھا اور وہ ’وزارت صنعت‘ سے وابستہ تھے۔ والدہ کا انتقال بچپن میں ہوگیا، پھر خالہ کے ہاں تعلیم وتربیت پائی، کہتے ہیں کہ خالو علی گڑھ کے تعلیم یافتہ اور بہاول پور میں ایس ٹی کالج کے پروفیسر تھے انہیں بہاول پور کا سرسید بھی لکھا گیا۔ خالہ کے گھر میں بہت اچھی لائبریری تھی، لیکن غیر نصابی کتابوں کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہ تھی، مگر چھپ چھپا کر نسیم حجازی سے عصمت چغتائی تک بے شمار کتابیں پڑھ لیں۔ پانچویں جماعت میں لاہور آگئے اور پھر گریجویشن تک لاہور میں پڑھے۔ تاریخ میں ’ایم اے‘ کا مرحلہ جامعہ کراچی میں طے ہوا اس کے بعد قائداعظم یونیورسٹی سے ’علاؤ الدین خلجی کے معاشی نظام‘ پر ایم فل کر رہے تھے، جو بوجوہ ادھورا رہ گیا۔جسارت کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’1977ء میں بھٹو صاحب کے آخری زمانے میں جامعہ بند ہوئی، تو کراچی چلے آئے، یہاں ایک ساتھی ’جسارت‘ لے آئے۔ ایک سینئر نے کہا بھی تھا کہ خبر بنانا آتی نہیں، پتا نہیں کہاں سے اٹھ کر آجاتے ہیں، بات ان کی غلط نہیں تھی، میں نے کبھی کسی اخبار کے دفتر میں قدم نہیں رکھا تھا، زاہد بخاری نے ترجمے کا ایک ٹیسٹ لیا، پھر ڈیسک پر بٹھا دیا، تین مہینے کا پروبیشن پیریڈ گزارا، جس میں 450 روپے ملے۔آہستہ آہستہ سارا کام سیکھا اور ترقی کرتے ہوئے 1984ء تک جسارت میںصلاح الدین صاحب کے زمانے میں ہی شفٹ انچارج بن گئے، پھر ’نیوز ایڈیٹر‘ اور ’میگزین ایڈیٹر‘ اور ’ایڈیٹر‘بھی رہے۔
اب ’ چیف ایڈیٹر‘ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔اردو زبان کے الفاظ کی غلط العام الفاظ کو درست کرنے کے لیے روزنامہ جسارت میں’ بین السطور‘ ، ہفت روزہ فرائڈے اسپیشل میں ’خبر لیجیے زباں بگڑی ‘ اور سنڈے میگزین میں ایک قلمی نام سے مسلسل کالم لکھا کرتے تھے۔اُن کی تحریریں قارئین میں بہت مقبول تھیں۔سوشل میڈیا کی بدولت اردو کی درستگی کے حوالے سے فراٗیڈے اسپیشل میں اُن کا مستقل سلسلہ خاصا مقبول تھا ۔اب سوچتا ہوں کہ اس خلاء کو واقعی کوئی دوسرا پُر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔مزاح کی حس اُن میں اتنی شائستہ و برجستہ تھی کہ کوئی محفل ہو ، کوئی سوال ہو ، کوئی بات ہو اُن کے پاس سے آنے والا جواب مسکراہٹیں بکھیر دیتا۔اطہر ہاشمی کے چھوٹے بھائی راحت علی ہاشمی دارالعلوم کراچی کے استاد ہیں۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی راحت علی ہاشمی صاحب کا ذکر بھی بھرپور محبت و شفقت سے کیا کرتے تھے۔ 1977ء میں شادی ہوئی، تین بیٹے ہیں، جس میں صرف بڑے صاحب زادے کوچہ صحافت کے راہی ہوئے، ایک نجی چینل سے منسلک رہے۔
روزنامہ ایکسپریس کیلیے رضوان طاہر مبین کے ایک انٹرویو میںدعویٰ کیا کہ ’جسارت‘ میں ’جماعت‘ کی طرف سے کوئی قدغن نہیں اور یہ آزادی صرف یہاں حاصل ہے، کیوں کہ اِس کا کوئی مالک نہیں، یہ خوبی بھی ہے اور خامی بھی، خامی اِن معنوں میں کہ مالک کو نفع نقصان کی پروا ہوتی ہے، جب کہ یہاں جیسے چل رہا ہے، چل رہا ہے۔ ہماری پالیسی یہ ہے کہ کوئی چیز اسلام، پاکستان اور ’جماعت اسلامی‘ کے خلاف نہ ہو۔ ویسے ہم ’جماعت‘ کے خلاف آنے والے بیانات بھی لگا دیتے ہیں۔ ’ایک مرتبہ ’سن ڈے میگزین‘ کے سرورق پر اْس وقت کے آرمی چیف کی امریکی حکام کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوئے تصویر لگا دی تھی، جس پر ’آئی بی‘ وغیرہ کی طرف سے دو کرنل آگئے، میں نے کہا ’بس یہ بتا دو کہ وہاں سگریٹ ملے گا یا نہیں، تو وہ ہنس پڑے، میں نے کہا ’’بھئی اگر ملے گا، تو پھر لے چلو مجھے۔
آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے عہدیداران سیدہارون شاہ، شہاب زبیری، قاضی اسد عابد، فیصل زاہد، سرمد علی، منیر جیلانی، حمید ہارون سمیت کئی صحافتی، سماجی،سیاسی تنظیموں کے ساتھ علم و ادب سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات نے مرحوم کی خدمات کوخراج تحسین تعزیت و دعائے مغفرت کی۔اس کے علاو ہ سوشل میڈیا پر ہر طرف سے مستقل تعزیتی پیغامات و دعاؤں کا سلسلہ جاری رہا۔اسلام آباد سے جمال عبداللہ عثمان لکھتے ہیں کہ،’استاذ محترم اطہر علی ہاشمی کے انتقال کا سن کر یوں لگا جیسے بہت ہی قریبی عزیز بچھڑگیا ہو۔ یقین نہیں آرہا وہ اس طرح چھوڑکر چلے جائیں گے۔ 44 سال تک صحافت کے ساتھ وابستہ رہے۔ جسارت کے چیف ایڈیٹر تھے۔ اردو نیوز جدہ کے بانیان میں سے تھے۔ اردو زبان وبیان اور درستگی کے ماہر تھے۔جسارت میں جب میں نے لکھنا شروع کیا تو ایک شفیق استاذ کی طرح راہنمائی فرماتے رہے۔ 2سال بعد خود ہی مجھے روزنامہ امت میں کالم لکھنے کے لیے بھیج دیا۔ سجاد عباسی صاحب کو کال کرکے بتایا کہ یہ اب آپ کے ہاں لکھا کرے گا۔‘
جسارت سے وابستہ اُن کے دیرینہ رپورٹر ساتھی محمد انور لکھتے ہیںکہ،’پیارے اطہر ہاشمی صاحب آپ مجھے ہی کیا بہت سارے دوستوں کو بہت یاد آئیں گے بلکہ شاید میں آپ کو کبھی بھی بھلا نہ سکوں ، اس لیے کہ آپ میری خبروں پر حوصلہ افزائی کرنے ، خبروں کی اہمیت کو سمجھنے والے اور خبروں پر تبصرہ کرنے والے بھی واحد تھے۔ ہاشمی صاحب آپ کے بناء اس بیماری کے باوجود میں کس طرح اپنی صحافت جاری رکھ سکوں گا اور سچ تو یہ ہے کہ اب میرا مزید جینا مشکل نظر آتا ہے۔ ابھی چند روز قبل تو آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ ” ذکر مت کرنا میں تمہارے لیے بہت دعائیں کرتا ہوں “میرے لیے دعائیں کرنے والے ہاشمی صاحب آپ چلے گئے اور میں اپنی بیماری کی وجہ سے آپ کو کاندھا تک نہیں دے سکا ، مجھے معاف کردیجیے گا۔ ہاشمی صاحب ہم سب کو روتا چھوڑ کر رخصت ہوگئے ، آپ 74 سال کے تھے لیکن کئی صدیوں کا سبق ہمہیں پڑھا گئے۔‘
سلیم مغل لکھتے ہیں کہ’چلتا پھرتا مکتب، اپنی ذات میں مکمل ادارہ ، کیسے بذلہ سنج ،کیسے ہنس مکھ، زبان و بیان پہ کیسی قدرت ، فن ابلاغ پہ کیسا عبور ، صحافت کا کیسا معتبر نام ، میرے دوست، محسن ، مربّی ، استاد ، روزنامہ جسارت کے مدیر اعلیٰ اطہر ہاشمی بھی داغ مفارقت دے گئے۔‘
ڈاکٹر فیاض عالم نے اپنے احساسات یوں قلم بندکیے ،’اطہر ہاشمی صاحب کے انتقال پرملال کی خبر ملی۔دل نے کہا ” آسمان صحافت کا سورج غروب ہوگیا”۔زندگی میں ان سے چند ملاقاتیں رہیں اور چند ایک بار ہی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی۔وہ زیادہ بڑے صحافی تھے یا زیادہ بڑے انسان؟یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ ان جیسے لوگ معاشروں کو انسانوں کا معاشرہ بناتے ہیں۔جاتے ہیں تو ہزار ہا معتقدین اور شاگرد چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ مہذب، مستند، معتبر اور متوازن صحافت کے علمبردار تھے اور قلم کی حرمت کے نگہباں!اطہر ہاشمی صاحب کا خلاء کبھی پورا نہیں ہوپائے گا، کیونکہ اس سطح کے درویش صفت ایڈیٹر پاکستان کی تاریخ میں کم ہی پیدا ہوئے ہیں۔راقم نے 2005 سے 2009 تک جسارت میں کالم لکھے۔کچھ ہی کالموں کے بعد ہاشمی صاحب کا فون آیا کہ میاں! پکا لکھتے ہو، مستقل لکھو اور کراچی کے مسائل خاص طور پر نعمت اللہ صاحب کے کاموں پر بھی ضرور لکھو۔درجنوں کالموں میں سے ایک کالم کو روکا اور فون کرکے کہا کہ ” ہلکا تھا، رکوادیا ہے”۔کچھ کالموں پر داد دی اور فرمایا کہ ” اچھا لکھا ہے، اور محنت کرو”۔ان کی شفقت آمیز سرپرستی کی کی وجہ سے راقم کئی سال تک کالم لکھتا رہا ۔ زید حامد اور جاوید غامدی صاحب کی فکر کے خلاف جسارت میں سب سے پہلے کالم لکھنے کا اعزاز راقم کو حاصل ہوا۔ زید حامد کے متاثرین میں بہت لوگ تھے۔ الحمدللہ جسارت نے زید حامد کے غبارے سے ہوا نکال دی اور نوجوانوں کو ایک عجیب و غریب فتنے سے بچالیا۔ہاشمی صاحب ہر اعتبار سے متاثر کن شخصیت تھے۔جماعت اسلامی سے ان کا تنظیمی تعلق کس نوعیت کا تھا اور کتنا تھا؟ مجھے معلوم نہیں ہے۔تحریک اسلامی کے بہرحال وہ صف اول کے مربیین میں شامل تھے۔لوگ کہتے ہیں کہ بڑے درخت کے نیچے بڑے درخت نہیں اگا کرتے، درست کہتے ہیں لیکن اساتذہ کا معاملہ مختلف ہوتا ہے، ہاشمی صاحب نے ہاتھ لگا کر بہت لوگوں کو کندن بنادیا اور درجنوں نوآموز شاگردوں کو مشہور و معروف صحافی بنادیا۔ وہ چاہتے تو کسی بھی ” بڑے” میڈیا گروپ سے وابستہ ہوجاتے اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس لاکھوں روپے تنخواہوں اور پرکشش مراعات سے بھرپور پیشکشوں کی کبھی کمی نہیں رہی لیکن درویش نے اپنی خانقاہ یعنی جسارت کو نہیں چھوڑا اور تادم آخر اس گھر کو آباد رکھا۔ہاشمی صاحب کو تادیر یاد رکھا جائے گا ۔ان کی تحریر میں مولانا مودودی کی انشاء پردازی کی جھلک نظر آتی تھی!‘
اسلام آباد سے سینئر صحافی مہتاب عزیز لکھتے ہیں کہ،’صحافت کا ایک عظیم باب ختم ہوا۔ مولانا محمد علی جوہر، ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے قبیلے کا آخری فرد بھی چل بسا۔پاکستان کے مایہ ناز صحافی، ممتاز مزاح نگار، پاکستان میں اردو صحافت کے روشن مینار، مشرق وسطی میں اردو صحافت کے بانی تھے۔اطہر علی ہاشمی صاحب بلامبالغہ ہزاروں صحافیوں کے استاد ہیں۔ جرات، بے باکی اور سلیقے کے ساتھ ابلاغ میں اْن کا ثانی اردو صحافت میں ملنا مشکل ہے۔ اردو زبان و بیان پر انتہائی گہری گرفت حاصل تھی۔ان کا مشہور کالم ’خبر لیجیے زباں بگڑی‘ اردو دانی کے لحاظ سے سند کی حیثیت رکھتا ہے جس میں وہ اردو زبان کی بول چال میں رائج غلطیوں کی نشاندہی اور ان کی تصحیح کرتے تھے۔‘
احسان کوہاٹی لکھتے ہیںکہ ’ہاشمی صاحب بڑے صحافی ہی نہیں بڑے آدمی بھی تھے وہ نیوز چینلز کی چکا چوند سے دور بھاگتے تھے نظریاتی انسان تھے انکے پائے کا ماہر لسانیات اب اردو صحافت میں شائد نہیں ۔اصولی دیانت دار کھرے آدمی تھے صحافت کو 44 برس دینے کے بعد بھی بیٹے کی ایک نیوز چینل سے ملازمت نہ بچا سکے کسی کو ایک کال تک نہ کی وہ فون کرلیتے تو کون بدبخت انکار کرتا۔ جسارت کے ایڈیٹر تھے جب ایک رپورٹر انکے پاس خبر لایا کسی کالج کے حوالے سے خبر تھی ،ہاشمی صاحب نے خبر پر نظر ڈالی اور پوچھا “پکی خبر ہے ناں ” رپورٹر نے اثبات میں جواب دیا تو کہا نیوز ایڈیٹر کو دے دو دوسرے روز وہ خبر جسارت کے بیک پیج پر شائع ہوگئی اس خبر کے کچھ دن بعد اس رپورٹر کا کسی کام سے ہاشمی صاحب کے گھر جانا ہوا تو اسے مہمان خانے میں بٹھاتے ہوئے اہلیہ کو چائے بنانے کے لئے آواز دی اور ساتھ ہی کہا بھئی! وہی رپورٹر صاحب آئے ہیں جنہوں نے آپکے کالج کے خلاف خبر لگائی تھی” یہ سن کر رپورٹر حیران ہو گیا اسے علم نہیں تھا کہ وہ جس کالج کے خلاف خبر دے رہا ہے اسکی پرنسپل ایڈیٹر صاحب کی اہلیہ ہیں۔ ایسے بااصول صحافی اب کب رہے ہیں وہ تو صحافت کا نمک تھے۔ 44 برس خاموشی سے گزار دیئے ڈیفنس میں بنگلہ نہ ڈی ایچ اے میں گھر۔سچ کہوں آج اردو صحافت بھی روئی ہوگی کہ کسے مٹی تلے دینے چلے ہو؟‘
سینئر صحافی رہنما اے ایچ خانزادہ نے ہاشمی صاحب کو خراج تحسین اس انداز سے پیش کیا

یہاں ہر اک سمجھتا تھا کہ بس اس کا ہی ہے جگری
پریشانی میں بھی جس کا لب و لہجہ تھا بے فکری
بہت بے باک لکھتا تھا تھی اس کی گفت گو مصری
صحافت بال کھولے ہے قلم کی زلف ہیں بکھری
وہ اطہر ہاشمی یعنی کہہ اسم با مسمیٰ ہی
قلم کاروں سے کہتا تھا خبر لیجئے زباں بگڑی

حصہ