( شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی)
طاقت انسان کو مغرور بنا دیتی ہے، اس کی سوچ اور زاویہ نگاہ کو یکسر تبدیل کر دیتی ہے۔ اس کی سوچ و فکر طاقت کی سوچ و فکر بن کر رہ جا تی ہے۔ اس کی زندگی طاقت کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے۔ وہ طاقت کے نشے میں چور ہوتا ہے۔ انسان کو اپنے غلط کام بھی درست لگتے ہیں اور دوسروں کے درست کام بھی غلط نظر آنے لگتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست بھی با لکل اسی طرح ہے۔ جس ریاست کے پاس معاشی، سیاسی اور عسکری طاقت ہوتی ہے وہی غلبہ پاتی ہے، دوسری ساری ریاستیں اس کے زیر اثر رہتی ہے اسی کا غلبہ رہتا ہے۔
بین الاقوامی سیاست میں طاقت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے دو نظریا ت کا سمجھنا بہت ضروری ہیں اور ان دونوں نظریات کو بین الاقوامی سیاست میں بڑی اہمیت حا صل ہیں ایک حقیقت پسندی اور دوسرا مثالیت پسندی آج جس کی جگہ لبرل ازم نے لی ہے۔ حقیقت پسندوں کا دعویٰ ہے بین الاقوامی سیاست طاقت کے گرد گھومتی ہے۔ جس کے پاس طاقت ہے وہی lead کرسکتا ہے اور اسی کا غلبہ رہے گا۔ حقیقت پسند مفکرین حال کے مطالعہ پر زور دیتے ہے اور ہر رونما ہونے والے واقعہ کو حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور سیاست کو struggle for powerکہتے ہیں۔ ایک اور مفکر میکا ولی جس نے Real politics کے تصور کو پیش کیا وہ لکھتے ہیں ’’طاقت کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال ضروری ہے جیسے سرمایہ کی حصول کے لیے سرمایہ کا استعمال ضروری ہے۔‘‘
دوسری طرف librels اور مثالیت پسند طبقہ کیا ہونا چاییے اور چاہیے کے تصور کی بنیاد پر بنیاد اخلاقی اقدار پر کھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ امن و آ شتی ,بین الاقوامی قانون, اقدار اور بین الاقوامی ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں ۔ ان دونوں نظریات کو مد نظر رکھ کر اگر ہم بین الاقوامی سیاست کو دیکھیں تو ہمیشہ power politcs کا غلبہ رہا ہے۔
آج اگر ہمیں امریکا کا غلبہ ہر جگہ نظر آتا ہے اس کی بنیادی وجہ طاقت ہے، اگر ہم اٹھارہویں اور انیس ویں صدی کے امریکا کو دیکھیں تو اس سے بڑھ کر امن کا پیکر کوئی ملک نہیں تھا دنیا کے ایک گوشے میں واقع یہ ملک نہ کسی کے معاملات میں دخل اندازی کرتا تھا نہ کسی کو اپنے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت دیتا تھا مکمل طور پر تنہائی(isolation ) اختیا ر کر چکا تھا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جب طاقت ور ممالک کمزور ہوگئے تو ایک نئی طاقت بن کر سویت یونین کے مد مقابل کھڑا ہوگیا اور بالخصوص سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جب سپر پاور کر دنیا کے سامنے آیا تو ظلم کی جو داستان عظیم شروع کی‘ طاقت کے بل بوتے پر سرمایہ دارانہ نظام کی جو اجارہ داری قائم کی وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس لیے امریکا کے مایہ ناز محقق نوم چامسکی امریکا کو بد معاش ریاست قرار دیتے ہیں اور اس کے برعکس دوسری طرف جاپان سے بڑھ کر پُر امن ملک دنیا میں نظر نہیں آتا ہے لیکن جنگ عظیم دوم سے پہلے جاپان سے بڑھ کر بد معاش ریاست کوئی نہیں تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کا بڑا کر دار تھا ،چین کے علاقے مینچوریا پر قبضہ جمایا, امریکہ کے فوجی اڈے پرل ہاربر پر حملہ کیا‘ جو امریکا کی دوسری جنگ عظیم میں شرکت کرنے کی وجہ بنی امریکا نے اس کے بدلے میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا جس نے جاپان کو مکمل طور پر تباہ کر دیا بالآخر مجبور ہوکر جنگ سے withdraw کی آج امریکا کی dictation پر جاپان کی حکومت چلتی ہے اور وہی چین ہے جس کے بڑے حصے پر جاپان قابض ہوا تھا آج بحر جنوبی چین میں جاپان کے کئی جزیروں پر قابض ہے۔ یہ ایک لمبی بحث ہوجائے گی اگر ہم ماضی قریب اور بعید میں ریاستوں کا جائزہ لے اور موازنہ کریں اس وقت جب طاقت ور تھیں کس طرح سیاست کیا کرتی تھی اور آج کس طرح ہیں۔
بین الاقوامی سیا ست طاقت کا کھیل ہے۔ پوری سیاست طاقت کے گرد طواف کرتی ہے۔ طاقتور جسے دہشت گرد کہے وہ دہشت گرد طاقتور جسے امن کا پیکر کہے وہ امن کا پیکر ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ باقی ریاستیں آمناً و صدقناً کہہ کر احکامات بجا لاتے ہیں۔