قربانیوں کی داستاں اور عید قرباں

396

اقبال النساء
صبح سے موسم خوبصورت۔۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی۔۔ ہوا بھی ٹھنڈی ٹھنڈی۔ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے معطر فضا۔۔ آنے والا مہینہ بھی تو اگست کا تھا۔ میرے اپنے ملک پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا مہینہ۔۔ اسلام کے نام پر ایک خطۂ زمین حاصل کیے جانے کا مہینہ۔۔ مسلمانوں کے نظریات کو پروان چڑھانے کا مہینہ۔۔ مسلمانوں کو اپنے حقوق اور فرائض سمجھانے کا مہینہ۔۔ پوری مخالف دنیا کے سامنے اپنے حق کی آواز بلند کرنے کا مہینہ۔۔ دو قومی نظریہ منوا کر اپنا حق حاصل کرنے کا مہینہ۔۔ اپنی جائدادوں، اپنے سرمایے، اپنے کھیتوں کھلیانوں کو چھوڑ کر صرف مسلم ہونے کے ناتے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا مہینہ۔۔ بڑی بڑی طاقتوں کے سامنے کم مائیگی کے باوجود ڈٹ کر کھڑے ہوجانے کا مہینہ۔۔ جسم چاہے بیمار ہو، کمزور ہو، لاغر ہو اپنی بات کو بہ بانگِ دہل کہہ جانے کا مہینہ۔ یہ ساری باتیں تو قربانیاں چاہتی ہیں۔۔۔ جانوں کی قربانیاں، مالوں کی قربانیاں، احساسات و جذبات کی قربانیاں، رشتوں ناتوں کی قربانیاں، کھیتوں کھلیانوں کی قربانیاں، اپنی جائدادوں کی قربانیاں، عہدوں اور عزتوں کی قربانیاں، شہرت و ناموس کی قربانیاں، دنیا کی زندگی پر آخرت کو فوقیت دینے کی قربانیاں، اپنے لعل و گوہر اس مٹی پر لٹا دینے کی قربانیاں، اپنے اصل کو چھوڑ کر صرف کلمے پر اکٹھا ہونے کی قربانیاں، اپنے کل کے لیے اپنے آج کی قربانیاں۔۔۔ صرف ایک دو نہیں، سینکڑوں ہزاروں افراد اس قربانی کی نذر ہوگئے۔ اور دیکھیں پھر ماہ اگست اور ذی الحج ایک ہی ساتھ آگئے۔ قربانیاں صرف اس وطن کو پیش نہیں کی گئیں، بلکہ ہر چیز ہی قربانیاں مانگتی ہے۔ یہ قربانی ہی وہ جذبہ ہے جو انسان سے بہت کچھ کروا لیتا ہے۔ یہ انسان کو نہتا ہوکر بھی فرعونِ وقت نمرود کی آگ میں بے خطر کودنے پر مجبور کردیتاہے۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

 یہی سوچتے سوچتے جب گاڑی سے باہر نظر پڑی، روڈ پر دور دور تاحد نگاہ اسٹال ہی اسٹال نظر آرہے تھے۔ مختلف سائز کے سبز پرچموں سے بھرے ہوئے اسٹال۔۔۔ نہ صرف پرچم، جھنڈیاں بلکہ جیولری، پرچم کی گھڑیاں، ہاتھوں میں باندھنے والے بینڈ، بریسلٹ، بُندے، سر میں لگانے والے ہیر بینڈ، انگوٹھیاں، ٹوپیاں، مفلر، دوپٹّے، اسکارف، سوٹ، جرسیاں۔۔۔ غرض یہ کہ جس چیز کا تصور کرو وہ سبز ہلالی پرچم میں موجود ہے۔ کیا یہ ملک صرف سبز ہلالی پرچم اوڑھنے، لپیٹنے، لہرانے کے لیے حاصل کیا گیا تھا؟ یا اس کو حاصل کرنے کا مقصد کچھ اور بھی تھا؟ کیا ایک دن شور شرابہ کرلینے سے مقصد پورا ہورہا ہے؟ کیا باجے بجانے، گانے سننے، ترانے گنگنا لینے سے پاکستان بنائے جانے کا مقصد پورا ہورہا ہے؟  قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا خواب و کوششیں دو قومی نظریے کے لیے تھیں۔ مسلمان ایک الگ قوم، ہندو ایک الگ قوم۔۔۔ ان دونوں کے عقائد، نظریات، رہن سہن، مذہب، شادی بیاہ ہر چیز کا طریقہ الگ۔۔۔ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ الگ خطہ زمین حاصل کیا جائے جس میں نظامِ تعلیم، سیاست، نظامِ معیشت، معاشرت، رہن سہن، دین و مذہب، رسوم و رواج سب الگ ہوں۔ جس جگہ اسلام کا نظام نافذ ہو ہر مسلمان کو مسلمان رہنے دیا جائے اور اسلامی طرز پر زندگی گزارنا آسان ہوجائے، جہاں مسلم حکمران کی حکومت ہو۔ جہاں کی عدلیہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرتی ہو۔ جہاں چوروں، ڈاکوؤں کو آزادی نہ ہو، جہاں غریب غریب سے غریب تر اور امیر اپنے محلوں میں سونے کے بستروں پہ سونے والے نہ ہوں۔ جہاں امیر اور غریب کے لیے ایک ہی قانون ہو، جہاں چودھری، وڈیرے اور ہاریوں کے لیے یکساں حقوق ہوں۔ جہاں ڈاکٹر، وکیل، قانون دان، انصاف دینے والے، چودھری، زمیندار، کسان، مزدور، چوکیدار، سرحدوں کے محافظ، پروفیسر، ذرائع ابلاغ کے رہنماء، استاد اور طالب علم سب اپنے اپنے فرائض سے آگاہ ہوں اور ان پر سختی سے عمل پیرا ہوں۔ جہاں اسلام کا قانون نافذ ہو تو پہاڑ، دریا، درخت، کھیت کھلیان، باغات، ندی نالے، آسمان، زمین سب خزانے اگلنے لگیں۔ یہ خطہ زمین جو جنت نظیر ہے، جہاں پہاڑوں کی بلندی، دریا کی روانی، میدانوں کی وسعت، سمندر کا جوش، باران کا حسن، جنگلات کا گھناپن، جہاں زمینوں کی زرخیزی، معدنیات گیس، ہوا، میٹھا و شولہ پانی۔۔۔ سب ہی کچھ موجود ہے۔ اللہ کی دی ہوئی اس نعمت میں چاروں موسم بھی موجود۔۔۔ شمالی علاقہ جات میں برفانی پہاڑ، ٹھنڈ، گرمی کا موسم، برسات کا موسم، گرمی کی شدت، بہار کی رونقیں، خزاں۔۔۔ ہر طرح کا موسم اس خطہ زمین میں موجود ہے۔ میرا پیارا وطن دشمنوں کے ہر طرح کے خدشات میں گھرا ہوا۔ اندرونی دشمن، بیرونی دشمن، سرحدوں پہ گھات لگائے دشمن۔۔۔ میرے پیارے ہم وطنوں کی میرا رب حفاظت فرمائے۔ اس مملکتِ خداداد کے بیرونی دشمن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جب تک کہ اندرونی دشمن طاقتور نہ ہو۔ اندرونی دشمن کبھی قومیت کے نام پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے، کبھی لسانی فسادات، کبھی گروہی جھگڑے، کبھی مذہبی فسادات، کبھی فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر لوگوں کی املاک کا نقصان، کبھی صوبائی عصبیت کے نام پر لوگوں میں تفریق، کبھی مسلک کے نام پر لوگوں کے جذبات کی توہین کرتے ہیں، تو کبھی مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ میرے ملک کو اندرونی دشمنوں نے مایوسیوں میں گھیرا ہوا ہے۔ کہیں یہ اس ملک کو لوڈشیڈنگ سے تنگ کرتے ہیں، کبھی بے روزگاری سے، کبھی پانی کی تنگی سے، تو کبھی کوڑے کا ڈھیر لگاکر۔ کہیں بھکاریوں کے ٹولے ہیں، کہیں روڈ ٹوٹے ہوئے ہیں، کہیں سڑکوں پر ٹریفک کا سیلاب ہے، کہیں پارک اجڑے ہوئے ہیں۔ کہیں پارک اور اسپتالوں کی زمین پر بنے ہوئے فلیٹ ہیں، تو کہیں اقرباء پروری، رشوت ستانی، نفسانفسی، بے راہ روی، لاقانونیت اور ظلم ہے۔۔۔ تو کیا یہ سب کچھ دیکھ کر ہم مایوس ہوجائیں؟ نہیں ہرگز نہیں! کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ سب مل کر اس کو لوٹیں؟ کوئی بینک بیلنس بڑھائے، کوئی جائدادوں میں اضافہ کرے، کوئی بیرونِ ملک اپنے اثاثوں میں اضافہ کرے، کوئی غریب کا خون پسینہ نچوڑ کر اپنی اولادوں کی شادیوں میں لگادے، کوئی کروڑوں کی گاڑیاں خریدے اور اثاثے ظاہر کرتے وقت لاکھ دو لاکھ کی ظاہر کرے، کوئی بیوی بچوں کے نام پورا علاقہ لکھ دے، کوئی پورا ملک غیروں کے پاس گروی رکھوا دے۔ آج بھی کوئی تو ہوگا جو محمد علی جناح جیسے قائد کی طرح اٹھے۔ جو ایک چائے کی پیالی بھی سرکاری خزانے سے نہ پیے۔ کوئی تو ہوگا جو لیاقت علی خان جیسا نواب ہوگا جو اپنا گھر بھی سفارت خانے کے حوالے کردے اور پھٹی ہوئی بنیان پہن کر بھی قوم کا قائد ہو۔ کوئی تو ہوگا جو اس ملک کے بچوں کو اپنے بچے سمجھے گا، کوئی ایسا بھی تو ہوگا کہ اپنی قوم کی لوٹی ہوئی دولت و جائدادیں بیرونِ ملک، ملک دشمنوں کے حلق سے نکلوا لے گا-

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

عیدِ قرباں ہے۔ عشق قربانی مانگتا ہے۔ عیدِ قرباں دراصل ہم سنت ِ ابراہیمی کی یاد میں مناتے ہیں۔ اور جماعت اسلامی نے اپنے ہیرے، اپنے لعل، اپنی صلاحیتیں،  اپنے علماء ومشايخ، اپنے سب سے بہترین لوگ ہر دور میں اپنے رب کی راه میں قربان کرکے سنتِ ابراہیمی کو ہر دور میں زندہ رکها  ہے اور اِن شاء اللہ تاحیات زندہ رکھے گا۔ جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جو عافیہ صدیقی جیسی بے گناہ کو واپس پاکستان لا سکتی ہے۔ جماعت اسلامی ہی میں اسلام کی بدولت وہ قوت موجود ہے جو وقت کے فرعون کے آگے کھڑی ہوکر کلمہ حق بلند کرسکے۔ جماعت اسلامی ہی وہ واحد حل ہے جو نمرودِ وقت کی آگ میں کود کر دنیا کو آگ کے گل و گلزار ہونے کا منظر دکھا سکے۔

آگ  ہے   اولادِ  ابراہیم   ہے  نمرود   ہے
کیا کسی کو پهر کسی کا امتحاں مقصود ہے
کودے گا جو اس آگ میں وہ کامران ہو جائے گا
اسلام غالب آئے گا، اسلام غالب آئے گا

آپ یقین جانیے جماعت اسلامی ہی واحد حل ہے۔ یہی وہ جماعت ہے کہ جس نے نعمت اللہ خان اور منور حسن جیسے لعل و گوہر پیدا کیے جنہوں نے بڑے عہدوں پر پہنچ کر بھی عوام کے ٹیکسوں سے اپنا جائز حق لینا بھی گوارا نہ کیا۔ یہ جماعت اسلامی ہی ہے جس نے سراج الحق جیسا بےباک اور مخلص لیڈر ہمیں عطا کیا جو سرحد کا وزیر خزانہ ہوتے ہوئے بھی اپنے دو کمروں کے گھر سے آگے نہ بڑھ سکا۔۔۔ کیونکہ یہ خدا خوفی، یہ آخرت کی جواب طلبی، یہ لوگوں سے محبت، یہ اسلام پسندی، یہ بھائی چارہ، یہ عالمگیریت صرف جماعت اسلامی کا ہی خاصہ ہے۔ کیونکہ جماعت اسلامی اسلام کے منشور کو لے کر اٹھی ہے، اور یہ دیس اسلام کے نام پر حاصل ہوا ہے۔ اسلام ہی کی کرنوں سے اس دیس کو روشنی ملے گی۔ اسلام کی طاقت سے یہ دیس جگمگائے گا۔ اسلام ہی کی طاقت سے اس دیس کے رستے زخم بھرجائیں گے۔ اسلام ہی کی طاقت سے اس دیس میں لاقانونیت کا خاتمہ ہوگا۔ اسلام کی طاقت سے اس دیس کا غریب بچہ بھی اسکول جائے گا۔ اسلام کی قوت سے اس ملک سے اقرباء پروری کو ختم کیا جائے گا۔ اسلام کی طاقت سے اس ملک میں دولت کی فراوانی ہوگی۔ اسلام کی قوت سے اس ملک کے عوام سکون کا سانس لے سکیں گے۔

میرے وطن یہ عقیدتیں اور پیارتجھ پہ نثار کردوں
محبتوں کے یہ سلسلے بےشمارتجھ پہ نثار کردوں

حصہ