صبح ہوگئی تھی، میری آنکھ آج پھر چاچا کِرکِری کی زوردار آواز سے کھلی۔ آج خاکروب کی شامت آئی ہوئی تھی، جو تھا تو سرکاری ملازم، مگر ہر گھر سے 300 روپے لیتا، اور جس گھر سے ماہانہ پیسے لیتا صرف انہی کے ہاں سے کچرا اٹھاتا۔ گلی کی صفائی مسلسل نظرانداز ہورہی تھی۔ ’’ارے ہمارے زمانے میں تو سپروائزر ہوتے تھے جو سائیکل پر گھومتے، دیکھتے کہ کہاں صفائی ہوئی، کہاں نہیں ہوئی، سارے خاکروب ایمان داری سے کام کرتے تھے، تم لوگ تو تنخواہ حلال کرنا جانتے ہی نہیں۔‘‘ چاچا کرکری نے زوردار آواز میں ڈپٹا۔
’’ارے چاچا! ہم سپروائزر کو ’ہفتی‘ دے دیتے ہیں، وہ بھلا ہمیں کیوں تنگ کرے گا! بس آپ ہی ہو جس نے سب کا جینا حرام کررکھا ہے۔‘‘ خاکروب نے خفگی سے کہا۔
اب بحث کہاں رکنی تھی! اس لیے بستر چھوڑ دینا ہی بہتر تھا۔ ارے میں آپ کو بتانا بھول گیا، میرا نام جواد صدیقی ہے، میں کراچی کے ایک محلے کا رہائشی ہوں، یہاں بھی وہ تمام مسائل ہیں جو کراچی کے ہر محلے میں ہیں، مگر ہر محلے میں چاچا کرکری نہیں ہیں جو ہمارے محلے میں تھے۔ ریٹائرڈ بزرگ تھے، ان کا کام ہی محلے کے ہر کام کی نگرانی کرنا تھا، یہ ذمہ داری انہوں نے ازخود ہی اپنے اوپر لاگو کرلی تھی۔
چلیے، چاچاکرکری کا مختصر تعارف بھی کرا دوں۔ ان کا اصل نام محمد شفیع الدین ہے، ماشاء اللہ گریڈ 17 کے سرکاری افسر تھے۔ تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ سب رفتہ رفتہ دیارِ غیر میں جا بسے، مگر چاچا ہرگز پاکستان چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ کہتے تھے کہ ہم نے اس پاکستان کو بنانے میں اپنے خاندان برباد کیے، کاروبار چھوڑے، ہجرت کی، اور سب کچھ اللہ کی محبت میں کیا، اب ہم کیا پیسے کے پیچھے دیس بدیس خوار ہوتے پھریں! ملکی حالات پر بھی بہت کڑھتے تھے۔ ایک دفعہ تو الیکشن میں بھی کھڑے ہوگئے، مگر ایسے مخلص لوگ کہاں الیکشن جیتتے ہیں! بہرحال چونکہ بیٹے باہر سے خوب پیسہ بھیجتے تھے اس لیے چاچا یہ پیسہ محلے کے کاموں پر کھلے دل سے خرچ کرتے۔ مسجد کی خدمت تو ان کا معمول تھا۔ اس کے علاوہ گٹروں کے ڈھکن لگواتے، فٹ پاتھوں کی مرمت کراتے، جمعہ کی نماز کے بعد غریب لوگوں کا لنگر مسجد میں ہی رکھتے۔ اہلِ محلہ میں سے جو تکلیف میں ہوتا یا مدد کی ضرورت ہوتی وہ چاچا کرکری سے ہی رجوع کرتا۔ چاچا کی بیگم چاچی رضیہ بھی نیک خاتون تھیں مگر چاچا کی ہر وقت کی چخ چخ سے وہ بھی تنگ رہتیں۔ پھر بھی محلے میں اتنی عزت تھی کہ محلے کے کسی بھی فرد کو چاچا کرکری اپنا کوئی کام کہتے تو وہ انکار نہ کرتا۔ چاچا نے کبھی نوکر نہ رکھا۔ محلے کی بچیاں اُن کے گھر کے سارے کام کر جاتیں، لڑکے سودا سلف لا دیتے، بل جمع کرا دیتے۔ کبھی اسپتال وغیرہ آنا جانا ہو تو ساتھ چلے جاتے۔ یعنی محلہ ہی ان کا گھر تھا، اور محلے والے، گھر والے۔
محرم کا مہینہ تھا، محلے کے کچھ لوگوں نے حلیم بنانے کا ارادہ کیا۔ آپس میں ہی سب نے چندہ کیا۔ چاچا کرکری سے چندہ مانگنا مناسب نہ سمجھا گیا کہ وہ تو ہر جمعہ لنگر کرتے ہی ہیں، ان سے کیا پیسے لینا! اب جس رات محلے میں دیگیں اتریں، لکڑیاں سلگنے لگیں، چاچا کرکری اچانک وارد ہوگئے۔ اعتراض یہ تھا کہ لکڑیاں جلیں گی تو سڑک ٹوٹ جائے گی۔ یہ سراسر پاکستان کا عوامی نقصان قرار پایا، اور چاچا کسی صورت محلے کے لڑکوں کو حلیم بنانے کی اجازت دینے پر تیار نہیں تھے۔ اب لڑکے جو خاصا خرچا کرچکے تھے، التجا کرتے رہے کہ آج حلیم بنانے دو، آئندہ نہیں بنائیںگے۔ مگر جو مان جائیں وہ چاچا کرکری کہاں! خوب ہنگامہ ہوا، پھر سارا سامان لدوا کر ایک خالی میدان میں لے جایا گیا اور وہاں حلیم تیار ہوئی۔ جی ہاں، وہ بھی چاچا کرکری کی نگرانی میں اور ان کی ترکیب سے۔
محلے میں ایک نور بدر صاحب رہتے ہیں، ان کی ماشاء اللہ 8 بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا۔ بیٹیوں کو تو چھوٹی چھوٹی عمروں میں بیاہ کر وہ فارغ ہوگئے۔ بس جو پہلا رشتہ آتا، بیاہ دیتے، چاہے مستری ہو یا ردّی پیپر والا۔ ایک بیٹی تو عقد ثانی میں دے دی کہ بس جیتے جی بیٹیاں اپنے گھر کی ہوجائیں۔ بس ایک بستر، چار جوڑے، چند برتن دے کر رخصت کردیتے۔ اب مرحلہ تھا بیٹے کی شادی کا۔ بیٹیوں کی شادی پر تو کبھی پچاس سے زائد مہمان نہ بلائے، مگر بیٹے کی شادی پر خوب ارمان نکالنا چاہتے تھے۔ کہتے تھے کہ ایسی شادی کروں گا کہ محلے میں کبھی ایسی شادی نہ ہوئی ہوگی۔ ہر گھر میں ولیمے کا کارڈ پہنچایا۔ چاچاکرکری بھی مدعو تھے، لیکن جونہی قناتیں تاننے کے لیے سڑک میں پہلا سُوا گاڑا گیا، چاچا بلبلا کر باہر نکل آئے۔ خوشی کا موقع تھا، غصہ تو نہیں کرسکتے تھے، مگر ہاتھ جوڑ کر کہتے رہے کہ یوں سڑک برباد نہ کرو، رحم کرو۔ مگر نوربدر صاحب نے یہی درخواست کی کہ گھر کی آخری شادی ہے، آئندہ ایسا نہ کریں گے۔ آخرکار شامیانہ کھڑا ہوگیا، کرسیاں لگ گئیں، ڈیک بھی لگ گئے، اور شام پانچ بجے سے اونچی آواز میں ہندوستانی گانے بجنے شروع ہوگئے۔ ایک توگانے، اوپر سے ہندوستانی۔ چاچا کرکری توآج تک خود کو جنگِ آزادی 1947ء کا مجاہد سمجھتے ہیں، وہ بھلا کیسے خاموش رہتے! اب انہوں نے ہر لحاظ، مروت کو کنارے رکھ کر ڈیک پر حملہ کردیا، تار اکھاڑ کر پھینک دیے۔ محلے کے بڑے لاکھ سمجھاتے رہے، مگر وہ نہ مانے۔ آخر یہ طے ہوا کہ رات کو دس سے گیارہ بجے تک، جب محفل پورے جوبن پر ہوگی تو گانے بجائے جائیں گے اور وہ بھی صرف پاکستانی گانے۔
چاچا کرکری کی یہ کرکری لوگوں کو مہینوں یاد رہی۔ اس کے بعد بھی وہ سڑک پر شامیانہ لگا کر تقریبات یا محافل کرنے کے مخالف ہی رہے کہ آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے، سڑک خراب ہوتی ہے، کنڈے سے لائٹ لی جاتی ہے جو کہ جرم ہے… وغیرہ وغیرہ۔
ایک دفعہ شدید بارش ہوئی۔ اس قدر گٹر ابلے، ایسی کیچڑ اور گندگی کہ خدا کی پناہ۔ حالانکہ بارش گھنٹہ بھر بھی نہ ہوئی، مگر پورا علاقہ سیلاب کا منظر پیش کرنے لگا۔ اب ایسی صورتِ حال میں چاچا کرکری جیسے نفیس انسان کا دل تو دُکھنا ہی تھا۔ سو بڑے افسردہ سے مسجد میں سر جھکائے بیٹھے تھے۔
میں نماز سے فارغ ہوکر ان کے پاس چلا گیا۔ ’’خیریت تو ہے ناں بڑے صاحب! رنجیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ کسی قابل سمجھیں تو ہم سے اپنا دکھ کہہ ڈالیے، کچھ نہیں تو اشک شوئی تو کرلیں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا۔
وہ دکھ بھرے انداز میں میری طرف متوجہ ہوئے ’’میاں صاحب ہم اپنے کراچی کے اِس علاقے میں آن بسے تھے، یہ ایک بہت بڑا میدان تھا، اکثر ہمیں زمین سے سیپیاں ملتی تھیں، ہمارے دادا نے یہاں تین جھونپڑے بنائے… ایک اپنا، ایک ہمارا، ایک پھوپھی کا۔ ہمارے خاندان کے 14 افراد نے انڈیا سے پاکستان کی طرف اللہ کے نام پر ہجرت کی تھی۔ میرے دو بھائی اور والد مارے گئے، پھوپھی کی تین بیٹیاں شہید ہوئیں، یعنی بچ بچاکر کُل آٹھ افراد پاکستان پہنچے۔ میں 13 سال کا رہا ہوں گا۔ ہمارے پھوپھا اور دادا تینوں جھونپڑیوں کا خرچ اٹھاتے رہے۔ بہت لمبی کہانی ہے بیٹا، آخر میں بس مَیں اور رضیہ بچ گئے۔ رضیہ میری پھوپھی کی بیٹی ہیں۔ ان تین جھونپڑوں کی جگہ پر میرا گھر تعمیر ہوا۔ بہت خوش حالی بھی تھی، مگر یہ علاقہ نہ چھوڑا، جب پاکستان کے پاس کچھ نہ تھا، ابتدائی دن تھے، اس وقت بھی یہ علاقہ کبھی اتنا گندا نہیں ہوا‘ جتنا اب ہے۔ بہت تکلیف ہوتی ہے دل کو بیٹا۔‘‘ چاچا نے رنجیدگی سے کہا۔
’’وقت بھی تو بہت گزر گیا ناں چاچا۔ پاکستان کے ہر کونے سے لوگ یہاں آکر بس گئے ہیں۔ اب جو گٹر اور پانی کی لائنیں بیس لاکھ کی آبادی کے لیے تخلیق کی گئی تھی، کروڑوں کی آبادی کا بوجھ اٹھا رہی ہیں، غصے سے پھٹ پڑتی ہیں۔ بے حس لوگوںکو کراچی کا حکمران بنا دیا گیا ہے، جنہیں کراچی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘
چاچا کرکری نے ٹھنڈی آہ بھری۔
’’چھوڑیں چاچا! کیوں دل خراب کرتے ہیں، بس اپنے وطن کے لیے اپنے رب سے رحم طلب کیجیے۔‘‘ میں نے بات ختم کی۔
ایک روز شام کو اپنے گھر میں چائے پی رہا تھا، بیگم نے ساتھ پاپڑ تل دیے تھے۔ لطف آگیا۔ اچانک ہی گلی سے چاچا کرکری کی زوردار آواز آئی۔ کھڑکی سے جھانکا تو ساری بات سمجھ میں آگئی۔ ہمارے ایک محلے دار ہیں عبدالشکور رئیس صاحب، انہوں نے ایک ہفتے قبل اپنے گھر کی مرمت کا کام شروع کیا تھا، اوپر کی منزلوں کے چھجے تو آگے بڑھائے ہی تھے، گیٹ کے آگے آدھی گلی تک گاڑی اتارنے چڑھانے کی ڈھلوان بھی بنا لی، یعنی اُن کے گھر کے سامنے سے جو بھی گاڑی گلی سے گزرتی، وہ ٹیڑھی ہوکر گزرتی۔ اب چاچا کرکری کا مؤقف یہ تھا کہ اس طرح گلی میں ڈھلوان بڑھانا غیر قانونی ہے، محلے والوں کو بھی مشکل ہورہی ہے، گلی تنگ ہورہی ہے اور وہ اپنی خریدی ہوئی زمین سے تجاوز کررہے ہیں۔ عبدالشکور صاحب اپنے کئی رشتے داروں کا حوالہ دے رہے تھے کہ انہوں نے بھی چبوترے بڑھائے ہوئے ہیں۔ اس بات پر چاچا کرکری نے عبدالشکور صاحب کے رشتے داروں پر الزام دھر دیا کہ کے ایم سی کو رشوت دے کر بڑھائے ہوں گے۔ بس جناب پھر تو وہ جھگڑا شروع ہوا کہ اللہ کی پناہ۔ چاچی رضیہ اور محلے کی ایک دو بزرگ خواتین نے بیچ میں پڑ کر معاملہ ٹھنڈا کیا۔
عبدالشکور صاحب نے تو اپنا ڈھلوان نہ توڑا، البتہ پھر کسی اور کو ایسی ڈھلوان بنانے کی ہمت نہ ہوئی کہ کہیں چاچا کرکری فساد نہ کھڑا کردیں۔ پیٹھ پیچھے لوگ چاچا کرکری کو حق پر بھی کہتے تھے، مگر کسی جھگڑے کے دوران کوئی اُن کا ساتھ نہ دیتا۔ اس بات سے چاچا کرکری رنجیدہ ہوتے تھے۔
وقت گزرتا گیا، چاچا کرکری بہت بوڑھے ہوگئے تھے، چاچی رضیہ فالج کی مریضہ ہوکر بستر کی ہی ہوگئیں۔ ان کا بڑا بیٹا آیا، سب محلے والے سمجھے اب یہ والدین کو ساتھ لے جائے گا، مگر وہ دو نرسیں اور تین مزید ملازم خدمت کے لیے رکھ کر چلا گیا۔ محلے کی خواتین باری باری خبر گیری کے لیے دن بھر چکر لگاتی رہتیں، نہیں تو بچوں کو خیریت معلوم کرنے کے لیے بھیج دیتیں۔ محلے کی رونق بہرحال ختم ہوگئی تھی، محلے کی مسجد بھی لاوارث ہوگئی تھی، اب ہر کام کے لیے چندہ مانگا جاتا تھا، پہلے یہی کام چاچا کرکری کرا دیا کرتے تھے۔ پھر چاچی کا انتقال ہوگیا، چاچا کے بچوں میں جائداد کا جھگڑا پڑ گیا۔ پھر چاچا کا بڑا بیٹا آیا، چاچا کو ایک اولڈ ہوم میں منتقل کیا، گھر بیچا، حصے بخرے کیے اور چلا گیا۔ اولڈ ہوم ڈیفنس میں تھا، شروع میں تو محلے والے کبھی کبھی چاچا سے مل آتے۔ پھر فاصلے تھکانے لگے۔ اور ایک روز خبر آئی کہ چاچا کرکری کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔
آج ہم بھی پوتے پوتیوں والے ہوگئے ہیں، چاچا کرکری ایک بیتا ہوا قصہ ہیں، مگر نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ ہر محلے میں ایک چاچا کرکری ہونا چاہیے جو محلے کو اپنا گھر سمجھے، محلے اور محلے والوں کا خیال رکھے، جائز اور ناجائز کا فرق سمجھائے، جس کی لوگ عزت کریں اور بات مانیں، جو مسجد کو مرکز بنا کر سنتِ نبویؐ کو زندہ کرے، جس کے پاس جھگڑا کرنے کے علاوہ بھی کوئی اختیار ہو، جو وہ لوگوں کی بھلائی میں استعمال کرے۔ مگر نہیں… ہمارا تو یہ حال ہے کہ دوسرے شہر میں کوئی بم دھماکہ ہوجاتا تھا تو ہم کہتے تھے کہ چلو ہمارے ہاں تو نہیں ہوا، سمجھو خیر ہی خیر ہے۔ ہم بحیثیت امت بھی اتنے ہی خودغرض ہیں، اگر ایک مسلم آبادی پر ظلم ہورہا ہو تو ہم کہتے ہیں کہ ہم پر تو نہیں ہوا، بس خیر ہی خیر ہے۔ ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ کس طرح شیطانی پنجے آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم امریکا، اسرائیل کا مقابلہ تو نہیں کرسکتے، کم از کم اپنے محلے کے چاچا کرکری کا ساتھ تو دے سکتے ہیں، اس کی آواز میں آواز تو ملا سکتے ہیں، ناجائز کام کے خلاف دو لفظ تو بول سکتے ہیں۔ یہ بھی جہاد ہے۔ ہمارے بس میں جو جہاد ہے وہ تو کریں۔