زینب (فون سیل پر دیور سے، جو نیویارک میں رہتے ہیں): اوہو یہ تو بہت بری خبر ہے … لیکن یہ سب ہوا کیسے… میرا مطلب ہے کہ کیا تم نے دونوں کا ٹیسٹ کروایا؟
ریحان: ہاں آپ کو تو پتا ہی ہے اس وبا نے کیا تباہی مچائی ہوئی ہے، ویسے تو تمام دنیا میں ہی اس کے اثرات نظر آرہے ہیں لیکن نیویارک میں… اللہ معاف کرے۔
زینب (بے چینی سے): تو کیا اب انعم اور راشدہ دونوں ہی اسپتال میں ہیں؟
ریحان: نہیں نہیں بھابھی… اسپتال جانا تو اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے برابر ہے، میں نے اپنے تمام خاص ڈاکٹر دوستوں سے رابطہ کیا، ٹیسٹ جب مثبت آیا تو انہی مخلص دوستوں نے سختی سے تاکید کی کہ کچھ احتیاط اور کچھ اینٹی بایوٹک دوائیوں کا استعمال کروائیں اور قرنطینہ گھر میں ہی کرائیں، اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ بیٹی (جواں سال) اور بیوی کا خیال رکھیں۔ آج چھٹا یا ساتواں دن ہے، الحمدللہ کافی بہتری آئی ہے ان دونوں میں۔
زینب: الحمدللہ بھائی…! ہم تو پریشان ہوگئے ہیں۔ آپ اپنا بھی خاص خیال رکھیں، کیوں کہ یہ پھیلنے والی بیماری ہے، ہم یہاں اٹلانٹا میں ہیں ورنہ ہم ضرور آپ کی مدد کرتے۔
ریحان: شکریہ بھابھی۔ آپ سب بھی اپنا بہت خیال رکھیں، لوگوں سے میل جول کم ہی رکھیے گا۔
…٭…
زینب (شوہر سے): میں تو ریحان بھائی اور ان کی فیملی کے لیے بہت پریشان ہوں۔ پردیس، پھر بیماری۔ بیوی اور بیٹی دونوں ایک ساتھ ہی بیماری میں مبتلا ہوئی ہیں۔ مجھے تو ریحان بھائی کی بڑی فکر ہے، تمام ذمہ داری گھر کی، کھانا بنانا، دونوں ماں بیٹی کا خیال رکھنا… یہ سب اکیلے وہ کیسے کریں گے! اگر ہم ہی نزدیک ہوتے تو کچھ نہ کچھ مدد ضرور کرتے۔ اللہ تعالیٰ تُو ان کی فیملی اور ان پر رحم فرما۔
…٭…
دوسری طرف ریحان بڑی دل جمعی اور احتیاط کے ساتھ تمام ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ ان کی اپنی بیوی اور بیٹی سے محبت ہی تھی کہ آخر یہ کڑا وقت گزر گیا۔ دونوں ماں بیٹی کی منفی رپورٹ نے ریحان کی تمام تھکن اور تکلیف کا ازالہ کردیا جس سے وہ گزشتہ بیس دنوں سے گزر رہے تھے۔ بیوی اور بیٹی نے بھی شکر ادا کیا کہ ان کے نزدیک ایک شفیق باپ اور محبت کرنے والے وفادار شوہر تھے جن کی بدولت اللہ نے انہیں مشکل گھڑی سے بحفاظت باہر نکالا، ورنہ نہ جانے اسپتال میں ان کے ساتھ کیا ہوتا۔
…٭…
درج بالا واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے کہ اپنوں کے لیے کسی نے اتنی جفاکشی کی ہو… آئے دن ہم ایسے واقعات سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں، خصوصاً آج کل کے حالات میں جب نفسا نفسی کا عالم ہے، ہر ایک اپنی صحت کی طرف سے پریشانی میں مبتلا ہے، ایسی بیماری کہ مریض کے قریب جانے سے بھی لوگ ڈرتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اسپتال سے زیادہ ایسی بیماری میں مبتلا مریض گھروں میں صحت یاب ہورہے ہیں۔ اگر گھر والوں کی مکمل توجہ، محبت اور دیکھ بھال انہیں نصیب ہو، اور جس کی مثالیں ہمیں اپنے چاروں طرف نظر بھی آرہی ہیں کہ کہیں بیوی اپنے شوہر کے لیے مسیحا بن گئی، تو کہیں ماں اپنی اولاد کے لیے، کہیں شوہر نے اپنا آرام و سکون بالائے طاق رکھ کر بیوی اور بچوں کی خدمت کی۔ بے شک اس سے انکار نہیں کہ اسپتالوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی اپنا فرض بڑی ایمان داری سے ادا کررہے ہیں، لیکن یہ افواہ عام ہے کہ ان مریضوں کا اسپتالوں میں نہ جانے کیا انجام ہو…! میں یہاں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہ رہی، میری اس تحریر کا مقصد اپنے گرد ان رشتوں کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو بڑے خوب صورت اور معتبر رشتوں کے حصار میں دیا ہے جو اس کی زندگی کو خوب صورت بنا دیتے ہیں۔ یہ انمول رشتے صرف عام حالات میں ہی نہیں بلکہ کڑے اور مشکل حالات میں بھی ایک دوسرے کا سہارا اور باعثِ تقویت ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان رشتوں کی افادیت اور وقار دوچند ہوجاتا ہے۔ اگرچہ رب العزت نے ہر انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ ’’انسانیت‘‘ کے رشتے میں پرویا ہوا ہے، لیکن یہ مخصوص رشتے ایسے ہیں جن کا نعم البدل کوئی اور نہیں۔ جی ہاں یہ رشتے ہیں: ماں باپ کا اولاد کے ساتھ، اولاد کا والدین کے ساتھ، شوہر کا بیوی کے ساتھ، بیوی کا شوہر کے ساتھ، اور بہن بھائیوں کا بہن بھائیوں کے ساتھ بغیر غرض و لالچ کے ایک دوسرے سے جڑے رہنا۔ شاید آپ میں سے چند ایک میرے ان خیالات سے اختلاف کریں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر جگہ یہ رشتے اس قدر اعلیٰ، اعتماد والے اور وفا کے مظاہر نظر نہیں آتے، لیکن ہم چند ایک کی وجہ سے سب کو ایک ہی کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔
آج زندگی مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ خطرناک وبا، لاک ڈائون، معاشی مسائل، ذہنی اور نفسیاتی مسائل وغیرہ… لیکن ایسے حالات نے ان رشتوں کی قدر و منزلت کو مزید اجاگر کردیا ہے۔ میرے آس پاس کئی ایسے ہی واقعات اور حالات نظر آرہے ہیں جہاں ان معتبر رشتوں نے اپنے آپ کو تکلیف میں رکھ کر اپنوںکو بچانے کی کوشش کی اور رب نے انہیں مایوس نہیں کیا، سبحان اللہ۔
ان رشتوں کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ آپ کو مشکل میں تنہا نہیں چھوڑتے، بلکہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہم آپ کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں، ہم اس مشکل وقت میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔ دیکھا جائے تو ایسے ہی انمول رشتوں کی بدولت بندے کو تقویت ملتی اور قوتِ مدافعت پیدا ہوتی ہے، اور وہ بڑی سے بڑی بیماری کا بھی سامنا کرسکتا ہے۔ میری ایک دوست نے بتایا کہ ایک خاتون جو کینسر کی مریضہ ہے، اس کی بوڑھی ماں، جو خود بھی سخت بیمار ہے، اس وقت دونوں رب العزت کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے سہارا اور ڈھارس ہیں، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محبت دیکھ کر اپنی اپنی بیماری کو بھول جاتی ہیں اور ایک دوسرے کا دل بہلاتی ہیں، اور ایک دوسرے کے لیے جی رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں انسانوں کے اوپر بہت سی نعمتوں اور رحمتوں کی بارش کی ہے وہیں ان رشتوں کے توسط سے بھی انہیں تقویت دی ہے۔ اس لیے رب کی طرف سے دیے ہوئے ان رشتوں کی قدر کرنی چاہیے، بلکہ ان کی اہمیت کو سمجھنا بھی چاہیے، اور ان رشتوں کو اپنے چاروں طرف دیکھ کر رب کریم کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ اللہ رب العزت سب کو اپنے پیاروں کے ساتھ سلامت رکھے، اور وقت پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔