تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی، جہاں بھی، ظلم نے سر اٹھایا تو بظاہر چند فتوحات کے بعد اسے دبنا پڑا، جھکنا پڑا، مٹنا پڑا۔ ماضی میں بہت سے ظالم و جابر حکمران گزرے مگر آج ان کا نام و نشان یتک موجود نہیں، اگر چند ظالم حکمرانوں کو آج یاد بھی کیا جاتا ہے تو وہ بھی اچھے القابات کے ساتھ نہیں بلکہ برے القابات کے ساتھ۔ بیشتر قوموں کے حکمران آج بھی ظلم کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں اور انہیں اپنے منصب کے آگے اور اپنی طاقت کے گھمنڈ کے آگے ماضی میں ہونے والے ظالم حکمرانوں کے انجام نظر ہی نہیں آتے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اسی طرح طاقتور رہیں گے اور مظلوموں کو اپنی جوتی کے نیچے ہمیشہ اسی طرح روندتے رہیں گے۔
آج بھی دنیا میں جگہ جگہ وحشیانہ مظالم کے بازار گرم ہیں۔ ہر جگہ کسی نہ کسی کو ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کسی کو ترقی دشمن کہہ کر تو کسی کو سماج دشمن کہہ کر، کسی کو اقلیت میں دیکھ کر تو کسی کو اپنے سے الگ دیکھ کر ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جاتی، اسی طرح ظلم و جبر کی داستان فلسطین اور شام میں بھی رقم ہو رہی ہیں بلکہ وہاں اس قدر ظلم ہو رہا ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ فلسطین کو اسرائیل کی ریاست میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور شام میں رہنے والوں کو بیدردی کے ساتھ اپنے پیارے وطن سے جدا کیا جا رہا ہے۔ اس قدر ظلم کہ وہ مرنے کی خواہش کرتے ہیں تو بھی انہیں موت نہیں دی جاتی۔
فلسطین میں کسی ماں کی لاش کو جانورں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے تو شام میں رہنے والے معصوم بچے کو سمندر میں مچھلیوں کا چارہ بنانے کے لیے پھینک دیا جاتا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں کا نور چھین لیا جاتا ہے تو برما میں بچوں، بزرگوں اور خواتیں کے جسموں کو چیر کر جانوروں کا چارہ بنادیا جاتا ہے۔ عراق، بوسنیا، روہنگیا، افغانستان، چین، بھارت، فلسطین اور شام جیسے کتنے ممالک کا ذکر کروں، کتنے ظلم قلم بند کروں کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ قلم خشک ہو سکتے ہیں مگر آج کے ظالم حکمرانوں کی خونی پیاس نہیں بجھ سکتی۔ اگر ظالم حکمرانوں کے ظلم کو چھوڑ دیں اور صرف مظلوموں کی مظلومیت کو لکھنا شروع کیا جائے تو بھی ہم آٹے میں نمک کے برابر ان کی تکلیفوں کو اپنے اپنے الفاظوں میں قلم بند نہیں کر سکتے۔
ارے ہم تو شام کے اس بچے کے وہ الفاظ جو اس نے روتے ہوئے انٹرویو میں کہے تھے کہ ’’میں مرنے کے بعد اپنے رب کوجا کر سب بتاؤں گا۔‘‘ اس جملے کی تشریح کرنا شروع کر دیں تو بھی ہم اس کا حق ادا کرنے میں بالکل ناکام رہیں گے اگر الفاظ کا حق ادا کوئی کر سکتا ہے تو وہ صرف میرا رب ہے جس نے یہ واضح کر کے پوری دنیا کو دکھا دیا کہ میں کیا کر سکتا ہوں اور کتنی آسانی سے کر سکتا ہوں۔
اللہ رب العزت نے اس دنیا میں صرف ایک انتہائی چھوٹا سا وائرس پھیلا کر ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اگر تم معصوم جانو کے سر سے چھت چھینوں گے تو میں تمہاری چھت کو تمہارے لئے زندان بنا دوں گا۔ اگر تم مظلوموں کے نوالے چھینو گے تو میں تمہارے کاروبار تمہارے ہاتھوں سے بند کروا دوں گا۔ اگر تم معصوموں کو ان کے پیاروں سے جدا کرو گے تو پھر میں تمہیں ایسی حالت میں مبتلا کر دوں گا کہ تم چاہتے ہوئے بھی اپنے پیاروں کے پاس نہیں جاپاؤ گے۔
آج ہمیں اس خوف کی فضا میں جیتے ہوئے نصف سال ہو چکا ہے۔ ہم اپنے کاروبار کو ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے گھروں کو زندان محسوس کر رہے ہیں۔ اپنے پیاروں سے نہ چاہتے ہوئے بھی دوری اختیار کر رہے ہیں۔ مانو کہ دنیا پر تنہائی اور مایوسی کے بادل چھا گئے ہیں زندگی مفلوج ہوگئی ہے ہر شخص نفسا نفسی کے عالم میں مبتلا ہے اور ہر شخص دوسرے شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ہم اس بات کو مانیں یا نہ مانیں اس معصوم کی آہ کو دنیا نے اہمیت نہ دی۔
یقیناً اللہ پاک سب کچھ دیکھ رہے ہیں شاید وہ ابھی مزید ڈھیل دے رہے ہوں لیکن اس معصوم کی شکایت و آہ و بکا، رنج و الم، ظلم کی داستان پر اللہ عظیم الشان سورج چاند ستاروں کا رب زمین و آسمان کا مالک وہ صرف رحمن اور رحیم ہی نہیں بلکہ اس کی اور دیگر صفات بھی ہیں بس پھر کیا تھا اس معصوم کی شکایت رنگ لے آئی۔
کہاں ہیں تمہاری ویکسین، کہاں ہیں وہ بنکر جہاں جاکر تم اپنے آپ کو محفوظ بنا سکتے ہو کہاں ہے تمہاری دولت اور طاقت جس سے تم سب کچھ چھین سکتے ہو۔ تمہاری ایٹمی طاقت، ہائیڈروجن بم کچھ کام نہ کر سکیں گے کیونکہ ’’ظلم‘‘ اس وقت تک ہی ظلم رہتا ہے جب تک مظلوم کی آہ سسکیوں سے ہوتی ہوئی عرش الٰہی تک نہ پہنچ پائے ۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
آخر کوئی تو ہے جس کی سسکیوں میں دم تھا اور اس نے عرش الٰہی تک کو ہلا کر رکھ دیا سپر طاقت کا دعویٰ کرنے والی قومیں کہاں ہیں کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ پاک نے پہلے بھی ایسی بہت سی قوموں کو برباد کر دیا جو زمین پر فساد پھیلاتے تھے ۔اللہ پاک قرآن پاک میں جگہ جگہ نصیحتیں فرماتے ہیں کہ ’’جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘، (سورت بقرہ آیت نمبر 11)۔
’’لوگوں نے خود کفر کی راہ اختیار کی اور دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے اس فساد کے بدلے میں جو وہ دنیا میں برپا کرتے رہے۔‘‘، (سورت نحل آیت نمبر88)۔
’’خبردار حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں‘‘ (سورت بقرہ آیت نمبر12)کیا اللہ پاک نے ہمیں قرآن پاک میں جگہ جگہ یہ نصیحت نہیں فرمائیں لیکن آج بھی زمین میں یہ فسادی موجود ہیں جو دنیا میں ولڈ آرڈر چلاتے ہیں وہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ خشکی اور پانیوں پر ہماری حکومت ہے۔ ہم جس ملک میں چاہیں گے اپنے من پسند حکمران لائیں گے اور ان سے اپنے مطابق فیصلے کرائیں گے۔ صرف ہمارا ہی ورلڈ آرڈر چلے گا۔ زمین پر کوئی اور انہیں روکنے والا نہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کارب آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ پھر کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا نے اثر نہیں دکھایا کہ ’’ابابیل سے ابراہ کے لشکر کو بھوسے میںبدل دیا گیا‘‘۔
اب اسہی رب نے ورلڈ آڈر چلانے والوں اور ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے دنیا میں کرونا نازل کردیا گیا۔ ہم مظلوموں کو پہنچانے والی تکلیفوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور ہم اس میں بری طرح پھنس چکے ہیں اب ہمارے پاس اللہ سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کے پاس ہر تکلیف کا علاج ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اس کی معافی مانگیںکیونکہ اللہ بڑا غفور و رحیم اور ہر تکلیف سے نجات بخشنے والا ہے۔