۔” جو بچے گا وہ قربانی کرے گا “۔

400

۔’’رسید (رشید) عید سر پر آگئی ہے اور تُو نے اب تک چھریاں تیج (تیز) نہیں کیں۔‘‘
’’ابا آج کے دور میں کون چھری تیج کرتا ہے! تُو بے فکر رہ، مسین (مشین) سے تیج کروا لوں گا۔‘‘
’’پاگل ہوگیا ہے، مسین سے بھی کوئی چھری تیج ہوئے! ابے پتھر پہ گھس کے تیج کریو۔‘‘
’’دیکھ رہے ہو خالد میاں، کیسی پاگلوں والی بات کرریا ہے، اوجار (اوزار) اچھی طرح تیج ہوں گے تبھی تو مال کٹے گا، ہم نے ساری زندگی پتھروں پر ہی چھریاں گھسی ہیں، یہ نئی نسل کام چور اور ہڈ حرام ہے، ان سے محنت نہیں ہوتی، اسی لیے اپنی جان چھڑاتی ہے۔ خدا بخسے ابّا کو، ساری ساری رات اوجار گھسوایا کرتے تھے، جب تک چھری بلیڈ کی طرح تیج نہ ہوجاتی تب تک جان نہیں چھوٹتی تھی، اور اِس کو دیکھو ہمیں ہی سکھا ریا ہے! خالد میاں چھری تیج نہ ہو تو جانور کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ صلا ایک ہی ہاتھ میں پھرنا چاہیے، مصنویوں (مصنوعی) کے کام ایسے ہوتے ہیں جو کند چھریوں سے جانور کاٹتے ہیں۔ ہم تو خاندانی قصاب ہیں، تاجا (تازہ) گوش بیچنا اور صاف ستھرا کام کرنا ہی ہمارا پیسہ (پیشہ) ہے۔ یہ بڑی محنت کا کام ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جانور کے ساتھ جانور بننا پڑتا ہے تب جاکر دو پیسے ملتے ہیں۔ عجت (عزت) برسوں میں بنتی ہے، یہ ایک دو دن کی بات نہیں ہوتی۔ تم تو جانتے ہو 40 سال سے دکان کرریا ہوں، بجار(بازار) کا ہر آدمی میری عجت کرتا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ آج کل کے لونڈوں کو کیا پتا کہ عجت کیا ہووے۔‘‘
’’ہاں ہاں شیخ جی تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ ابھی میں جلدی میں ہوں، تمہاری بھابھی گھر میں گوشت کا انتظار کررہی ہے، تم جلدی سے مجھے ایک کلو گوشت دے دو۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی میاں! ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو، اتنے دن بعد آئے ہو، تھوڑی دیر تو رکو، گوش (گوشت) تمہیں وی آئی پی دوں گا۔‘‘
’’شیخ جی واقعی ابھی جلدی میں ہوں، ان شاء اللہ پھر بات ہوگی۔‘‘
’’اچھا میاں تمہاری مرجی، یہ پٹ کا گوش لے جاؤ، دال گوش بنا لینا، انگلیاں چاٹتے رہ جاؤگے۔ اچھا جاتے جاتے یہ تو بتادو اِس مرتبہ قربانی کے لیے کیا لو گے؟ میں پوچھ ریا ہوں بڑے کی کرو گے یا چھوٹے کی؟‘‘
’’شیخ جی ابھی کچھ نہیں سوچا، آخری ہفتے میں فیصلہ کروں گا۔‘‘
’’کیوں میاں یہ کیا بات کردی! تمہارے ہاں تو قربانی کا جانور ہمیشہ عید سے کئی روز پہلے ہی آجاتا ہے، اِس مرتبہ ایسی باتیں کیوں کررہے ہو! کیا جانور لانے کا ارادہ نہیں ہے، یا پھر کنولا(کورونا) سے ڈر گئے ہو؟‘‘
’’شیخ جی ایسی کوئی بات نہیں۔ قربانی تو لازمی کرنی ہے۔ اِس مرتبہ بھی جانور تگڑا لاؤں گا۔ ابھی موسم نے بھی تیور بدلے ہوئے ہیں، اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ابھی تک منڈی لگانے کا بھی فیصلہ نہیں ہوا، روز نئی سے نئی باتیں سننے کو مل رہی ہیں، کوئی کہتا ہے کورونا وائرس کی وجہ سے اِس مرتبہ منڈی نہیں لگے گی، جبکہ انتظامیہ کی جانب سے منڈی کے اطراف واک تھرو گیٹ لگانے، خریداری کے لیے آنے والوں کا ٹمپریچر چیک کرنے، دس سال سے کم عمر کے بچوں جبکہ پچاس سال سے زائد عمر کے افراد پر منڈی میں آنے کی پابندی لگانے جیسے حفاظتی اقدامات کی بات کی جارہی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کیا صورتِ حال بنتی ہے۔ اگر مویشی منڈی نہ لگی تو کسی دوسرے شہر سے جانور لانا پڑے گا۔ باقی اس موضوع پر تفصیل سے ایک دو دن بعد بات کریں گے۔‘‘
………
مویشی منڈی لگے یا نہ لگے مجھے اس سے کیا! اور نہ مجھے کوئی ضروری کام تھا۔ میں تو شیح جی کی دکان سے جلد سے جلد فقط اس لیے اپنے گھر پہنچنا چاہتا تھا کیونکہ اُن کی باتیں مجھے ماضیِ قریب کی اُن یادوں میں دھکیل رہی تھیں جب ہمارے یہاں بھی قربانی ہوا کرتی تھی۔ یہ دُور کی بات نہیں، ایک سال قبل تک میرے مالی حالات خاصے بہتر تھے۔ پچھلے سال سے حالات میں ایسی ابتری آئی کہ پورا بچھڑا قربان کرنا تو دور کی بات، ایک حصہ ڈالنے کی بھی سکت نہ رہی۔ ایسی صورت میں شیخ جی کے سامنے جانور خریدنے کا جھوٹا بہانہ بنانے کے سوا میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ ظاہر ہے ایک سفید پوش آدمی اپنی عزت بنانے کے لیے اور کر بھی کیا سکتا ہے! اور پھر شیخ جی تو اِس عید پر زیادہ سے زیادہ جانور ذبح کرکے اپنا سیزن کمانے کی سوچ رہے تھے، انہیں کسی کے مالی حالات کی کیا خبر! پہلے نہ مجھے معاشی اشاریوں کے اتار چڑھاؤ کے کسی کی مالی حثیت پر اثرانداز ہونے کا یقین تھا، اور نہ ہی میں ان چکروں میں پڑتا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے جس مالی بحران کا شکار ہوا ہوں اُس کو دیکھتے ہوئے ان معاشی اشاریوں پر میرا ایمان پختہ ہوگیا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ ہو یا تجارتی خسارہ، ہر ایک کے بارے میں خاصی معلومات رکھنے لگا ہوں، میں جان چکا ہوں کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی نے عام آدمی کی زندگی بد سے بدتر کردی ہے، موجودہ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی پالیسیوں کے باعث نہ صرف بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ملک کے معاشی حالات بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس حکومت کے 22 ماہ میں ایک طرف اگر لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں تو دوسری جانب مہنگائی کا جن ایسا بے قابو ہوا ہے کہ ایک عام شہری کے گھر فاقوں کی نوبت آگئی ہے، اور متوسط طبقے کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ہم بچپن سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں امیر اور متوسط طبقے کے لوگ موجود تھے، موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے اس متوسط طبقے کی ایسی کمر توڑی کہ آج یہ طبقہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے موجودہ حکمرانوں کی جانب سے مہنگائی کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا رہا، لیکن حکومت ملتے ہی ان کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت 5 کروڑ 87 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ عالمی معیار کے مطابق کسی شخص کی یومیہ آمدن دو ڈالر (تقریباً تین سو تیس روپے) سے زیادہ نہ ہو تو وہ غریب شمار کیا جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے تمام تر خوش کن وعدوں اور دعووں کے باوجود ملک کی ایک تہائی آبادی اس معیار سے حد درجہ نیچے افلاس اور بے بسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ جن لوگوں میں ذرا سی مالی سانس باقی ہے اُن پر بھی ہر آنے والے دن کے ساتھ مہنگائی کا بم گرا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ ایک عام گھرانے کے کچن کا خرچہ پندرہ سے بیس ہزار روپے تک ہے، اور ان کے ناشتے اور دو وقت کے معمولی سادہ کھانے کا حساب لگائیں تو بڑے آرام سے یہ چار پانچ سو روپے بنتا ہے۔ جن لوگوں کی آمدن تیس سے چالیس ہزار ماہانہ ہے ان کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی آمدن کا نصف اسی مد میں خرچ ہوجاتا ہے، اور جن کی آمدن ہی آٹھ سے بارہ ہزار روپے ماہانہ ہو وہ لوگ کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوں گے یہ وہی جانتے ہیں۔ لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ میں ایسے کئی گھرانوں کو جانتا ہوں جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج تھا جو دن بدن ختم ہوتا جارہا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ اضافہ ہی اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں ہوا ہے۔ یعنی غربت کے ہاتھوں مجبور عوام اور روزانہ کما کر کھانے والا طبقہ ہی مہنگائی کی چکی میں سب سے زیادہ پیس رہا ہے۔
مجھے یاد ہے وزیراعظم عمران خان کا وہ دعویٰ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ سال معاشی استحکام کا سال تھا اور ان شاء اللہ موجودہ سال معاشی ترقی کا سال ہوگا، جس میں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مل سکیں گے۔ لیکن حقائق تو کچھ اور ہی بتاتے ہیں، یعنی پاکستان کا گروتھ ریٹ صرف 2.8 فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش کا 8 فیصد، بھارت کا 7.2 فیصد اور نیپال کا 6.7 فیصد ہے۔ جون 2018ء اور جون 2019ء کا معاشی موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورت حال حال پریشان کن ہے۔ جون 2018ء میں افراطِ زر 5.20 فیصد، جون 2019ء میں 8.90 فیصد، اور فروری 2020ء میں 12.4 فیصد ہے۔ جون 2018ء میں کُل قرضے 29.8 کھرب تھے، جو جون 2019ء میں 40.2 کھرب تک پہنچ گئے، اور جنوری 2020ء میں 40.9 کھرب ہوچکے ہیں۔ ڈالر 2018ء میں 122 روپے کا تھا اور آج 166 روپے کا ہے۔ سود کی شرح 2018ء میں 6.33 فیصد تھی اور آج 13.25فیصد ہے۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہورہی اور پیداوار میں بھی اضافہ نہیں ہورہا۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ جب ملک پر ایسے حکمران مسلط ہوجائیں جن کی بنائی ہوئی پالیسیاں غریبوں کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتی ہوں تو سوچیے ایسے حالات میں کون قربانی کرسکتا ہے! میرے نزدیک جو بچے گا وہی قربانی کرے گا۔

حصہ