محمد عثمان جامعی
تک رہے ہو کیوں ہم کو
اشک بار آنکھوں سے
سوگوار آنکھوں سے
دل فگار آنکھوں سے
پوچھتے ہو کیا ہم سے
باربار آنکھوں سے
اس طرف نہیں دیکھو
دیکھو یوں نہیں دیکھو
پھٹ نہ جائے یہ سینہ
بہہ نہ جائیں یہ آنکھیں
دیکھو مت، نہیں دیکھو
ہاں ہمارے دامن میں
وعدوں کے کھلونے تھے
وہ جو پورے ہونے تھے
ہاں ہمارے ہاتھوں میں
جھنجھنے تھے دعووں کے
باجے تھے امیدوں کے
ہم تمھیں سناتے تھے
اک کہانی خوابوں کی
جس میں ایک شہزادی
قید میں دیو کی تھی
اور ایک شہزادہ
خوف کا گھنا جنگل
پار کرکے آیا تھا
اور شہزادی کو
قید سے چھڑایا تھا
ہاں ہمارے ہونٹوں پر
نرم نرم لوری تھی
کہ تمھیں سلانے کو
وہ بہت ضروری تھی
کہتے تھے یہ لوری میں
’’جلد دن وہ آئیں گی
دستکوں سے دستے کی
نیند جب نہ ٹوٹے گی
اور تڑتڑاہٹ سے
آنکھ کھلنے کا کھٹکا
پاس بھی نہ آئے گا
میرے لال اب سوجا
خوف ہار جائے گا
دور بیت جائے گا‘‘
سب کھلونے ٹوٹے ہیں
سمجھو چاہے جھوٹے ہیں
جھنجھنے وہ وعدوں کے
باجے وہ امیدوں کے
ہم نے بیچ ڈالے ہیں
جو سنائی تھی تم کو
وہ کہانی جھوٹی تھی
لوری اک بہانہ تھا
بس تمھیں سلانا تھا
دیکھ کر ہمیں تم نے
آنسو کیوں بہائے ہیں
کچھ نہیں نظر آتا
ہم نظر چرائے ہیں