لاش پر بیٹھے کشمیری بچے سے

281

محمد عثمان جامعی

تک رہے ہو کیوں ہم کو
اشک بار آنکھوں سے
سوگوار آنکھوں سے
دل فگار آنکھوں سے
پوچھتے ہو کیا ہم سے
باربار آنکھوں سے
اس طرف نہیں دیکھو
دیکھو یوں نہیں دیکھو
پھٹ نہ جائے یہ سینہ
بہہ نہ جائیں یہ آنکھیں
دیکھو مت، نہیں دیکھو
ہاں ہمارے دامن میں
وعدوں کے کھلونے تھے
وہ جو پورے ہونے تھے
ہاں ہمارے ہاتھوں میں
جھنجھنے تھے دعووں کے
باجے تھے امیدوں کے
ہم تمھیں سناتے تھے
اک کہانی خوابوں کی
جس میں ایک شہزادی
قید میں دیو کی تھی
اور ایک شہزادہ
خوف کا گھنا جنگل
پار کرکے آیا تھا
اور شہزادی کو
قید سے چھڑایا تھا
ہاں ہمارے ہونٹوں پر
نرم نرم لوری تھی
کہ تمھیں سلانے کو
وہ بہت ضروری تھی
کہتے تھے یہ لوری میں
’’جلد دن وہ آئیں گی
دستکوں سے دستے کی
نیند جب نہ ٹوٹے گی
اور تڑتڑاہٹ سے
آنکھ کھلنے کا کھٹکا
پاس بھی نہ آئے گا
میرے لال اب سوجا
خوف ہار جائے گا
دور بیت جائے گا‘‘
سب کھلونے ٹوٹے ہیں
سمجھو چاہے جھوٹے ہیں
جھنجھنے وہ وعدوں کے
باجے وہ امیدوں کے
ہم نے بیچ ڈالے ہیں
جو سنائی تھی تم کو
وہ کہانی جھوٹی تھی
لوری اک بہانہ تھا
بس تمھیں سلانا تھا
دیکھ کر ہمیں تم نے
آنسو کیوں بہائے ہیں
کچھ نہیں نظر آتا
ہم نظر چرائے ہیں

حصہ