برائے فروخت

382

کشادہ سڑکیں، سرسبز و شاداب میدان، پختہ گلیاں، ایک ترتیب سے بنے خوبصورت مکانات، بجلی، گیس اور پینے کے صاف پانی کی نان اسٹاپ سپلائی، بہترین سیکورٹی سسٹم، ریسٹورنٹ، رہائشی ہوٹل، مارکیٹیں، اسکول، کالج اور پارکس… دیکھنے والے کو دنیا ہی کچھ اور لگے۔ کراچی شہر کا ایک ایسا علاقہ جسے دیکھ کر دل باغ باغ ہوجائے۔ جہاں شام ڈھلتے ہی لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر سڑکوں کے ساتھ بنی فٹ پاتھوں پر بلاخوف و خطر بیٹھے رات گئے تک گپ شپ کرتے دکھائی دیں۔ ایسا رہائشی علاقہ جہاں ہرطرف ہریالی ہی ہریالی نظر آئے، جہاں ایک قطار میں لگے بلبوں کی روشنی سے جگمگاتی سڑکیں رات میں دن کا منظر پیش کریں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر کراچی شہر میں ایسا کون سا علاقہ ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی سے نبرد آزما ہوتے درختوں سمیت زندگی کی تمام سہولیات موجود ہیں… جہاں نہ لوڈشیڈنگ کا عذاب ہے اور نہ ہی پانی جیسی نعمت کی کمی… چوری چکاری ہے اور نہ ہی راہزنی… تو جناب زیادہ نہ سوچیے، میں خود ہی آپ کو بتادیتا ہوں کہ یہ کس حسین بستی کا ذکر ہے۔ یہ ذکر ہے اسٹیل مل کے ملازمین کو دوران سروس دیے گئے اس رہائشی علاقے کا، جسے اسٹیل ٹاؤن کہا جاتا ہے۔ میرے ماموں چونکہ اسٹیل ٹاؤن کے رہائشی ہیں، اس لیے میرا وہاں اکثر آنا جانا رہتا ہے۔ میں جب وہاں گیا، واپس آنے کا دل نہیں چاہا۔ ظاہر ہے ایک ایسا رہائشی علاقہ جہاں تمام سہولیاتِ زندگی میسر ہوں، کس طرح چھوڑا جا سکتا ہے! یہی وجہ ہے کہ میں اکثر و بیشتر وہاں جانے کا پروگرام بناتا رہتا ہوں۔ میں جب بھی اپنے ماموں کے گھرگیا، کئی کئی دن گزارکر آیا۔ اسٹیل ٹاؤن کی جانب میرے سفر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں بسنے والوں کی ایک بڑی تعداد سے میرا دوستی کا رشتہ ہے۔ میں جتنی مرتبہ بھی ان سے ملا، وہ ہمیشہ خلوص اور محبت سے ملے۔ لیکن اِس مرتبہ اُن کے رویّے میں کچھ تبدیلی دکھائی دی جو میرے لیے نہ صرف حیران کن بلکہ پریشانی کا باعث بھی تھی۔ میں نے ان کے بدلے ہوئے رویّے کے پیچھے چھپے راز کو جاننے کے لیے اپنے ماموں کے بیٹے کا سہارا لیا، جس نے بتایا کہ اس بدلے ہوئے رویّے کی وجہ حکومت کی جانب سے کیا جانے والا وہ اعلان ہے جس کے تحت اسٹیل مل کو نجی شعبے کی تحویل میں دیا جارہا ہے، جس سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے، جس دن سے حکومت نے اپنی پالیسی واضح کی ہے، اُسی روز سے یہاں ہر شخص پریشان ہے، لوگ ساری ساری رات اسی موضوع پر گفتگو کرتے رہتے ہیں، چند لوگ حکومت کی اس پالیسی کے حامی ہیں جبکہ اکثریت اس کی مخالف ہے۔ نجکاری کی حمایت کرنے والے زیادہ تر لوگ ملازم نہیں، وہ موجودہ حکمران جماعت سے سیاسی وابستگی رکھنے کے باعث اس اعلان کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ تمام مزدور یونینیں اس اقدام کے خلاف ہیں۔
اپنے ماموں زاد بھائی کی باتیں سن کر میں نے بھی اس محفل میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا جہاں اس مسئلے پر گرما گرم بحث ہوتی ہے۔ رات گہری ہوتے ہی ہم دونوں اس مقام پر جا پہنچے جہاں ایک درجن سے زائد لوگ موجود تھے۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں تکرار جاری تھی، راشد حکومتی مؤقف کی، جبکہ جیلانی صاحب مزدوروں کی حمایت کررہے تھے۔
راشد اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا:۔
’’جیلانی صاحب اسٹیل مل میں 2015ء سے پیداوار مکمل طور پر بند ہے، جب کہ خراب معاشی صورتِ حال کے باعث 2013ء سے گھر بیٹھے ملازمین کو حکومت کی جانب سے تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں اب تک 55 ارب روپے سے زائد کی رقم ادا کی جا چکی ہے، میں مانتا ہوں ایک زمانے میں یعنی 2008ء تک اسٹیل مل آپریشنل منافع میں تھی، لیکن اب خسارہ 300 ارب روپے تک جا پہنچا ہے، اس کے علاوہ مل کے ذمے 230 ارب روپے کے قرضے بھی الگ سے واجب الادا ہیں، جبکہ ڈیلرز، ریٹیلرز اور ملازمین کے واجبات بھی 85 ارب روپے سے زائد ہوچکے ہیں،آپ ہی بتائیں کہ مزید کتنا بوجھ برداشت کیا جائے! اسٹیل مل ایک ایسی گائے ہے جو چارہ تو کھاتی ہے مگر دودھ نہیں دیتی۔ اس بدترین صورتِ حال میں حکومت کے پاس نجکاری کے سوا کون سا راستہ بچتا ہے؟‘‘
راشد کی باتوں کو جیلانی صاحب نے نہ صرف بڑے تحمل سے سنا بلکہ اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا: ۔
’’میں نے تمہاری ایک ایک بات بڑے تحمل سے سنی ہے، تم بھی میری باتوں کے درمیان نہ بولنا۔ سنو، معاشی حالات جتنے بھی خراب ہوں، یا کوئی ادارہ منافع بخش نہ رہے، اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہوتا کہ بند کمروں میں بیٹھ کر ایسے فیصلے کرلیے جائیں جن کے تحت مختلف قومی اداروں یا اسٹیل مل میں کام کرنے والے تمام ملازمین کو فارغ کردیا جائے، ایسے اقدامات محنت کشوں کو بھوکا مارنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ اس حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں، حکمران لوگوں کو بے روزگار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نئی بات نہیں، ماضی میں بھی متعدد مرتبہ اسٹیل مل کو بیچنے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔ جب یہ لوگ اپوزیشن میں ہوں تو مزدوروں کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن حکومت ملتے ہی شب خون مارنے کی سازش میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے عناصر کو پہلے بھی منہ کی کھانی پڑی تھی، یہ اب بھی اپنی سازشوں میں ناکام ہوں گے۔ دنیا میں ایک بھی ایسا ملک ہے جس کے معاشی حالات خراب ہوئے ہوں اور اس ملک کا سودا کردیا گیا ہو؟ تاریخ میں ایسا کچھ نہیں ملے گا۔ ایسے حالات میں خرید و فروخت نہیں کی جاتی بلکہ معاشی بدحالی کا علاج کیا جاتا ہے۔ ہمارے حکمران جب جب ادارے چلانے میں ناکام ہوئے، ان کے سروں پر پرائیویٹائزیشن کا بھوت سوار ہوجاتا ہے، یعنی ناچ نہ آئے آنگن ٹیڑھا۔ ماضی گواہ ہے کہ پاکستان میں سرکاری اداروں کی نجکاری کا تجربہ اچھا ثابت نہیں ہوا، 1990ء کی دہائی میں پاکستان میں کئی سرکاری اداروں کی نجکاری کی گئی، ان میں سے اکثر بند ہوگئے جس سے ملک میں صنعتیں کم ہوئیں۔ اُس وقت جن اداروں کی نجکاری کی گئی ان کی زمینیں فروخت کرکے وہاں ہاؤسنگ اسکیمیں بنائی گئیں۔ آج بھی اسی ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے۔ تمہارے علم میں بھی ہوگا کہ نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے کے ساتھ مختلف رہائشی ٹاؤن بنائے جارہے ہیں، یعنی شہر سے باہر ایک نیا شہر بسایا جارہا ہے جہاں پلاٹوں اور تیار شدہ مکانات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں، اسی لیے بہت سے لوگوں کی نظریں اب پاکستان اسٹیل مل کی قیمتی زمین پر ہیں جو وہ کوڑیوں کے دام خرید کر اسے بھی ہاؤسنگ اسکیم میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت بڑی سازش ہے جس کے پیچھے پورا بلڈرز مافیا کھڑا ہے۔ مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی نجکاری کی ماضی میں ہونے والی ناکام کوششوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا! میرا دعویٰ ہے کہ اسٹیل مل نجکاری کے بغیر بھی چلائی جاسکتی ہے، میرے نزدیک اسٹیل مل میں خدمات انجام دینے والے ہزاروں ملازمین کو بے روزگار کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے، اگر حکومت کچھ کرنا ہی چاہتی ہے، یعنی اگر نجکاری کا اتنا ہی شوق ہے تو مل کے اثاثے فروخت کرنے کے بجائے صرف انتظامی کنٹرول نجی شعبے کے حوالے کردے، اور اہل افراد کو تعینات کرکے ایسی پالیسیاں بنائے جن کے تحت اسٹیل مل کو اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑا کیا جاسکے، اور سب سے بڑھ کر جن لوگوں نے اسٹیل مل میں لوٹ مار اور بدعنوانی کا بازار گرم کیے رکھا، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، تاکہ ملازمین کے روزگار کا تحفظ ہوسکے۔‘‘
اب راشد کی باری تھی جس کی باتوں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ سیاسی وابستگی ضرور رنگ دکھاتی ہے۔ اس نے کہا:
’’حکمرانوں نے تو ہمیشہ ادارے چلانے کی کوشش کی ہے، جتنی مالی مدد کی جانی چاہیے تھی وہ کی گئی، 2008ء سے مختلف حکومتوں نے اسٹیل مل کو 90 ارب روپے کے بیل آئوٹ پیکیج اور دیگر سپورٹ بھی فراہم کی، لیکن اب ادارے کا خسارہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ سود کی مد میں اضافی اخراجات بڑھ رہے ہیں، اس طرح حکومت کو تنخواہوں اور سود کی مد میں ماہانہ 70 کروڑ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اسٹیل مل کے ملازمین گزشتہ کئی سال سے کام نہیں کررہے، اس کے باوجود انہیں باعزت طور پر 23 لاکھ روپے فی کس کا پیکیج دینے کے بعد فارغ کیا جارہا ہے۔ اس میں پریشان ہونے، احتجاج کرنے اور حقوق کے نام پر سیاسی دکان چمکانے کی کیا ضرورت ہے! اگر غیر جانب داری سے سوچا جائے تو گھر بیٹھے اتنی بڑی رقم کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ جہاں تک بدعنوانی کا تعلق ہے تو کون نہیں جانتا کہ اس بدعنوانی کے پیچھے ایک بڑی تعداد مزدوروں کی ہے۔ مجھے یاد ہے اسٹیل مل کی طرف سے مزدوروں کو دی جانے والی مختلف مراعات ناجائز طور پر استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ اگر صحت کے حوالے سے دی جانے والی سہولیات کو ہی دیکھا جائے تو ہر دوسرا مزدور ڈاکٹر کی جانب سے لکھی گئی ادویہ کی جگہ میڈیکل اسٹور سے پیسے وصول کرتا رہا ہے، بعض تو ان دوائیوں کے بدلے شیمپو، صابن اور آئل وغیرہ لے لیا کرتے تھے، یہ ایسی کرپشن تھی جس میں مزدور سے لے کر انتظامیہ کے افسران تک شامل تھے۔ اسٹیل مل میں تعینات افسران کے گھروں میں ادارے کی گاڑیاں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس ادارے کو بے دردی کے ساتھ نہ لوٹا جاتا تو یہ ایک منافع بخش ادارہ ہوتا۔ اور جہاں تک مل کی زمین ہاؤسنگ اسکیم بناکر فروخت کرنے کا تعلق ہے تو یہ آپ کا مسئلہ نہیں۔ ظاہر ہے جب مزدوروں کو اُن کے واجبات ادا کردیے جائیں گے تو حکومت اس زمین پر ٹاؤن بنائے یا اسے بنجر چھوڑ دے، کسی کو کیا اعتراض!‘‘۔
اس مرتبہ سوال کرپشن تھا، یعنی راشد اسٹیل مل میں ہونے والی بدعنوانیوں کا ذکر کررہا تھا۔ ایسی باتیں سن کر ایک مزدور رہنما بھلا .کس طرح خاموش رہ سکتا تھا! اپنے لہجے میں سختی لاتے ہوئے جیلانی صاحب کچھ یوں گویا ہوئے:۔
’’تم نے جتنے بھی سوالات اٹھائے ہیں یہ محض الزامات ہی ہیں، کسی مزدور نے کوئی کرپشن نہیں کی، اور نہ ہی طبی سہولت کے نام پر اس طرح کا کوئی واقعہ ہوا جس کا ذکر تم کررہے ہو۔ ہاں کچھ لوگ اس سہولت کا ناجائز استعمال کیا کرتے تھے۔ اس طریقۂ واردات کا بھی سدباب کردیا گیا تھا۔ معاشرے میں چند لوگ ضرور منفی رجحانات رکھتے ہیں، لیکن اکثریت اچھے لوگوں کی ہوتی ہے، اور میں ایسے ہی لوگوں کی وکالت کررہا ہوں۔ تم نے یہ بھی کہا کہ اسٹیل مل میں خسارے کے باوجود حکومت گھر بیٹھے مزدوروں کونہ صرف ماہانہ تنخواہیں ادا کررہی ہے بلکہ بنائی جانے والی پالیسی کے مطابق فارغ کیے جانے والے ملازمین کو فی کس 23 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اس نجکاری کے خلاف ہیں، اس لیے 23 لاکھ روپے کی بات کرنا اور سننا فضول ہے، اور جہاں تک ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگیوں کا معاملہ ہے تو اس بات سے کون واقف نہیں کہ اس ادارے کے مزدوروں کو اپنا حق لینے کے لیے مہینوں در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں، اور چھ مہینے سے رکی تنخواہوں کے بدلے صرف ایک ماہ کی تنخواہ دے کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے۔ ارے حاضر ڈیوٹی مزدوروں کی بات تو چھوڑو، 2013ء میں ریٹائر ہونے والے 4 ہزار ملازمین اپنے جائز واجبات اور پنشن کے حصول کے لیے اب تک دربدر ہوتے پھر رہے ہیں، جبکہ ان میں سے 650 مزدور تو اپنی پنشن کا انتظار کرتے اس دنیا سے کوچ کرگئے ہیں، کئی ملازمین کے گھروں میں تو فاقے تک ہونے لگے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی کب تک مالی مدد کرے گا، اور دکان دار بھی آخر کب تک اشیائے خورونوش ادھار دیتا رہے گا! میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اسٹیل مل کی نجکاری کے خواب دیکھنا چھوڑ دے اور پریشان حال مزدوروں کے لیے مالی پیکیج کا اعلان کرے۔‘‘
میں خاصی دیر تک ان کی باتیں سنتا رہا۔ محفل اب گرم ہوتی جا رہی تھی اور رات کا دوسرا پہر بھی ہوچکا تھا۔ میرے لیے اب وہاں رکنا ممکن نہ تھا۔ وہاں رہ کر میں نے جو کچھ بھی سنا، تحریر کردیا۔ اس ساری بحث کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یعنی حکومت اسٹیل مل کی نجکاری میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ میں تو اتنا ہی کہوں گا کہ حکومت جو بھی قدم اٹھائے وہ ملک و قوم اورملازمین کے حق میں ہو، اور اٹھارہ ہزار چھ سو ساٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلی اس صنعت کی بے توقیری نہ ہو۔

حصہ