بزم نگارِ ادب پاکستان کے افطار ڈنر و مشاعرے

445

نثار احمد نثار
گزشتہ دنوں بزم نگار ادب پاکستان نے سید شائق شہاب کی قیام گاہ پر SOP’s کو ملحوظ رکھتے ہوئے رونق حیات کی صدارت میں محدود شعرا کی ایک شعری نشست کا انعقاد کیا جس میں مہمان خصوصی یاسر سعید صدیقی تھے چونکہ شعرا کی تعداد کم تھی اس لیے شعرا کو دو دو کلام پیش کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ پروگرام 4 بجے شروع کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز نظر فاطمہ کی آواز میں تلاوت کلام پاک سے کیا گیا بعدازاں واحد رازی نے نعت رسولؐ مقبول پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ پروگرام کی نظامت بھی واحد رازی نے کی اس موقع پر صدارتی خطاب میں رونق حیات نے کہا کہ آج کل تمام دنیا کی طرح پاکستان بھی کورونا وائرس کی ناگہانی آفت کی لپیٹ میں ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس آفت سے جلدازجلد نجات عطا فرمائے۔ لیکن ادب سے جڑے ہوئے لوگ اس موقع کو بھی غنیمت جان کر خدمت کر رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ پروگرام تشکیل دے رہے ہیں۔ آج کل آن لائن مشاعروں کابھی رواج چل نکلا ہے اور ملک کی بہت سی ادبی تنظیمیں آن لائن مشاعروں کا انعقاد کر رہی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں سخاوت علی نادر کی ادبی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے وہ اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر ادب کی خدمت میں مصروف عمل ہیں جب کہ دیگرادبی تنظیموں نے کورونا کے باعث ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ سخاوت علی نادر نے کہا کہ بزم نگار ادب پاکستان تمام حفاظتی اقدامات کو برقرار رکھتے ہوئے محدود شعرا کی شعری نشستوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کا شاعر و تخلیق کار بہت حساس ہے شعرا عام لوگوں میں کورونا سے بچائو اور بیداری پیدا کرنے کے لیے اپنے قلم کو بہتر انداز میں استعمال کر رہے ہیں اور اس طح وہ اس کام میں حکومت کے شانہ بشانہ شریک ہیں۔ سخاوت علی نادر نے مزید کہا کہ لوگ گھروں میں رہیں‘ غیر ضروری طور پر باہر نہ جائیں اور ہاتھوں کو بار بار 20 سیکنڈ صابن اور صاف پانی سے دھوئیں۔ ہمیں اس وقت ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور ان شاء اللہ قوم اس میں سرخ رو ہوگی۔ شعری نشست میں جن شعرا نے شرکت کی اس میں رونق حیات‘ یاسر سعید صدیقی‘ سخاوت علی نادر‘ واحد رازی‘ وسیم احسن‘ نظر فاطمی‘ سید شائق شہاب‘ چاند علی‘ وسیم احسن اور مرزا خضر حیات۔ اسی تنظیم کا دوسرا مشاعرہ واحد رازی کی قیام گاہ پر 16 مئی 2020 ہفتے کے دن پانچ بجے شام منعقد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر جاوید منظر نے کی۔ طارق جمیل مہمان خصوصی تھے۔ جمیل ادیب سید نے تلاوتِ کلام کا شرف حاصل کیا جب کہ واحد رازی نے ترنم سے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ آج کی محفل میں بہت عمدہ شاعری سامنے آئی ہے بڑے بڑے مشاعروں میں شاعر حضرات نے اپنا منتخب کلام سنائے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ داد حاصل کرسکیں لیکن اس قسم کی نشستوںمیں ہرشاعر نیا کلام مارکیٹ میں لاتا ہے تاکہ وہ اپنے تازہ کی پزیرائی کا اندازہ کرسکے انہوں نے مزید کہا کہ ایک زمانے میں کراچی کی ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں وقت و حالات کے تناظر میں ادبی فضا بدلتی رہتی ہے اس پوری ادبی منظر نامے میں بزمِ نگار ادب پاکستان نے اپنی پہچان بنائی ہے یہ ایک قابل ستائش بات ہے امید ہے کہ تنظیم سخاوت علی نادر کی سربراہی میں آگے بڑھتی رہے گی۔ مہمان خصوصی طارق جمیل نے کہا کہ اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے شہر میں سناٹا ہے ‘کاروبار زندگی متاثر ہے۔ اس پُر آشوب دور میں بھی نگار ادب اردو زبان و ادب کے لیے سرگرم عمل ہے اس ادارے کے تحت متعدد بڑے پروگرام ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ لاک ڈائون کا سلسلہ طول پکڑے گا کیوں کہ اس وائرس کی ویکسین ابھی تیار نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تاکہ ہم صحت مند رہیں اس موقع پر طارق جمیل نے اعلان کیا کہ وہ عید کے بعد مشاعرہ کرنے جارہے ہیں جس میں تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے گا اس شعری نشست میں صدر محفل ڈاکٹر منظر جاوید‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ جمیل ادیب سید‘ اسحاق خان اسحاق‘ شارق شہاب‘ سخاوت علی نادر‘ واجد رازی اور مرزا حیات نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ واحد رازی نے استقبالیہ کلمات ادا کیے جب کہ شارق شہاب نے نظامت کے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کلمات تشکر بھی ادا کیے۔

اکرم کنجاہی کی کتاب ’’نسائی ادب اور تانیثیت‘‘ شائع ہوگئی

اکرم کنجاہی کثیر الجہتی شخصیت ہیں۔ وہ شاعر‘ صحافی‘ ادیب‘ محقق اور تنقید نگار کے علاوہ بینکار بھی ہیں۔ ’’غنیمت‘‘ رسالے کے اعزازی مدیر اعلیٰ بھی ہیں ان کا سہ ماہی رسالہ ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا چکا ہے اسی ادارے کے تحت اکرم کنجاہی ہر ماہ مشاعرے بھی ترتیب دیتے ہیں ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی نثری کتب بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب نسائی ادب اور تانیثیت 480 صفحات پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے نسائی شاعری‘ نسائی فکشن نگاری پر سیر حاصل بحث کی ہے اس کا انتساب شاہدہ لطیف کے نام ہے جب کہ اس کا پیش لفظ زیب اذکار نے تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ذاتی طور پر نظریاتی طور پر بھی ادب کو خانوں میں بانٹنے کی قائل نہیں ہے کہ خواتین کے ادبی کام کو تفریق کے ساتھ دیکھنے میں تعصب کا گمان گزرتا ہے مگرجس سنجیدگی کے ساتھ نسائی ادب کے تاریخی تناظر میں اکرم کنجاہی نے خواتین کے معاشرتی مسائل‘ سماجی ناانصافیاں‘ رسم و رواج کے نام پر ظلم و زیادتی اور جنسی گھٹن کا جائزہ لیا ہے وہ ایک طرف تو خواتین کی ادبی و عملی جدوجہد کی عکاس ہے تو دوسری طرف اکرم کنجاہی کے وسیع مطالعہ کا ثبوت ہے۔ انہوں نے خواتین کو جس انداز سے سراہا ہے میں اسے Critical Appreciation کہوں گا۔ نسائی شاعری اور فکشن کو عہد بہ عہد جس طرح پرکھا گیا ہے اور معاصر ادبی منظر نامے کی چند نمایاں شاعرات اور فکشن نگار خواتین کے فکر و فن پر جس طرح کے مضامین و مقالے تحریر کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ا س کتاب سے قبل ڈاکٹر سلیم اختر (مرحوم) اور پروفیسر جاذب قریشی نے شاعرات پر کام کیا ہے۔ اس کتاب میں نسائی فکشن بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ راقم الحروف نثار احمد نثار نے بھی اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے‘ یہ کتاب چار ادوار پر مشتمل ہے (1) نسائی شعری کا ارتقا (2) نسائی فکشن کا ارتقا (3) نسائی شاعری پر مقالے اورمضامین (4) نسائی فکشن پر مقالے اور مضامین شامل ہیں ان کا تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے یہ کتاب قارئین کے لیے سود مند ہے اور کئی حوالوں سے یہ تاریخی دستاویز کی شکل اختیار کر گئی ہے اس وقت دبستان کراچی میں تحقیقی اور مطالعاتی کام کی شدید ضرورت ہے کیوں کہ جن شخصیات کے بارے میں کتابوں میں لکھا جاتا ہے وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اکرم کنجاہی نے بڑی دیانت داری کے ساتھ قلم اٹھایا ہے اور جس کا جتنا کام ہے اتنا ہی بیان کیا ہے بلاوجہ کسی کے بارے میں زمین آسمان قلابے نہیں ملائے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب ادب کے سرمائے میں اہم اضافہ ہے۔

زندگی اور ادب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘ رفیع الدین راز

زندگی کو نظر انداز کرکے اچھی تخلیق ممکن نہیں۔ زمینی حقائق سے رو گردانی نہیں کی جاسکتی۔ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اسی لیے کامیاب ہوئی کہ اس نے کہا کہ آپ زندگی نظم کریں۔ گل و بلبل کے افسانوں کا زمانہ چلا گیا اُس وقت غزل میں چند مخصوص عنوانات شامل تھے آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہوگئی ہے‘ نئی نئی سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ شاعر ایک حساس شخصیت ہے لہٰذا وہ اپنے ماحول سے بہت سی چیزیں اخذ کرکے لوگوں تک پہنچاتا ہے یہی شاعری کا بنیادی وصف ہے کہ ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور مظلوموں کی حمایت کریں اپنے زمانے کے سیاسی‘ معاشرتی اور معاشی حالات پر بات کی جائے‘ لوگوں کو بتایا جائے کہ آئندہ کے حالات کیسے ہو سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و ادیب مرزا رفیع الدین بیگ راز نے ایک شعری نشست میں کیا جو کہ سلمان صدیقی کے آفس میں ترتیب پائی۔ کورونا وائرس کے پیش نظر مشاعرے وغیرہ نہیں ہو رہے تاہم سماجی فاصلے کے تحت ماسک پہن کر شعرا حضرات جمع ہو کر ایک دوسرے کو اپنے اشعار سناتے ہیں۔ یہ نشست بھی اسی انداز کی تھی جس میں صرف پانچ شعرا جمع تھے۔ رفیع الدین راز چونکہ سینئر شاعر ہیں اور امریکا میں مقیم ہیں اس لیے ان کے خیالات جاننے کے لیے ان سے گفتگو کی گئی۔ راقم الحروف کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے شعرا کی اکثریت سندھ اور پنجاب میں آباد ہوئی۔ بھارت میں دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ مشہور تھے حکومت شعرا کی سرپرستی کرتی تھی‘ شعرا کی مالی امداد کی جاتی تھی‘ بھارت میں قائم ریاستوں کے نوابین فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کی پزیرائی کرتے تھے۔ پاکستان میں نہ تو ریاستیں ہیں اور نہ مغلیہ حکومت‘ یہاں پر شعرا بہت شمار مسائل کا شکار ہیں حکومت نے ادب کے فروغ کے لیے جو ادارے بنائے ہیں ان کی کارکردگی پر تحفظات ہیں اس وقت یہ صورت حال ہے کہ بہت سی ادبی تنظیمیں اردو زبان و ادب کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہی ہیں جس کے باعث ادبی فضا برقرار ہے اس کے ساتھ کچھ بڑے ادارے مثلاً آرٹس کونسل‘ پریس کلب بھی ادبی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا میں جو شعرا معاشی مجبوریوں کے تحت آباد ہیں وہ مشاعروںکے لیے وقت نکالتے ہیں اور کسی ایک کے گھر میں جمع ہو کے ادبی بیٹھک منعقد کرتے ہیں۔ امریکا‘ کینیڈا‘ عرب امارات اور ہندوستان میں اردو زبان و ادب پر تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے جب کہ پاکستان میں اردو زبان و ادب پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے اس کے ساتھ پاکستان میں نعت نگاری پر بہت تحقیقی کام ہو رہا ہے بہت سے حضرات نے نعتیہ ادب پر پی ایچ ڈی کیا ہے۔ رانا خالد محمود قیصر نے اس موقع پر کہا کہ سندھ میں اردو‘ سندھی مشاعروں کا رواج ہونا چاہیے اردو زبان کا سندھی زبان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ہمیں دونوں زبانوں پر عبور حاصل کرنا چاہیے تاکہ ہم ایک دوسرے کے مسائل میں مددگار و معاون ہو سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری فُل ٹائم جاب ہے اس کے بغیر بات نہیں بن سکتی‘ غزل کہنا بہت مشکل ہے کہ اس کا ہر شعر نئے مضمون کا تقاضا کرتا ہے اس وقت کراچی میں نوجوان شعرا میدان میں آگئے ہیں اور بہت اچھا کہہ رہے ہیں۔ سینئرز شعرا کو چاہیے کہ وہ ان کی سرپرستی فرمائیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ غزل تو کہی جارہی ہے لیکن نظم کہنے والے کم ہوتے جارہے ہیں۔ کراچی میں نظم کے مشاعرے نہ ہونے کے برابر ہیں یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ نظم گو شاعر کو بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ نثری نظم کے حوالے سے سلمان صدیقی نے کہا کہ یہ تجربہ کامیاب تو نہیں ہو سکا تاہم ایک دو شاعر نثری نظم کے حوالے سے اہم قرار پائے ہیں۔ یامین اختر نے کہا اردو زبان و ادب میں غزل سب سے زیادہ کہی جاتی ہے غزل کا کینوس بہت وسیع ہے اس میں زندگی کے تمام شعبوں پر بات کی جاسکتی ہے غزل کے روایتی مضامین میں دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت کورونا وائرس نے تمام ادبی تقریبات پرجھاڑو پھیر دی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس عذاب سے نجات عطا فرمائے۔

کیا اردو زبان و ادب روبہ زوال ہے؟

 اس موضوع پر ہم جسارت سنڈے میگزین میں آپ کی تحریر شائع کریں گے‘ آپ اپنا مضمون 0300-9271778 پر واٹس ایپ کیجیے۔
(انچارج صفحہ جہانِ ادب)

غزل

پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی

جسم کی روح پسِ وہم و گماں ہے شاید
زیست زیر قدمِ کوزہ گراں ہے شاید
ذات کے خول سے باہر کوئی نکلے کیسے
یہ حصارِ خردِ سود و زیاں ہے شاید
عشق مذہب ہے مرا‘ حُسن روایت مری
اک تحیر سفرِ جاں میں نہاں ہے شاید
یہ دریچہ کبھی ہر روز کھلا کرتا تھا
اب کوئی چشم دریدہ نگراں ہے شاید
ہجر آسا ہیں ستم ہائے جنونِ وحشت
اک خلش ہے کہ جو بے نام و نشاں ہے شاید
کوئی پرساں نہیں افلاس زدہ بچوں کا
ان چراغوں کے مقدر میں دھواں ہے شاید
اپنا شادابؔ وہی حال ہے پہلے جیسا
بے زبانی ہی اہم ایسوں کی زباں ہے شاید

حصہ