شب قدر کی عظمت اور تقاضے

553

سید قطب شہیدؒ
سورۃ القدر میں اْس موعود رات کا تذکرہ ہے جس کا پوری کائنات نے فرحت و انبساط اور دعا و ابتہال کے ساتھ استقبال اور ریکارڈ کیا۔ یہ ملاء ِ اعلیٰ اور زمین کے مابین ربط و اتصال کی رات تھی۔ یہ جناب محمدؐ کے قلب پر نزولِ قرآن کے آغاز کی رات تھی۔ یہ اْس عظیم واقعے کی رات تھی، جس کی طرح کا کوئی واقعہ عظمت واہمیت، حقائق کی طرف رہنمائی اور حیاتِ انسانی پر اپنے اثرات کے لحاظ سے زمین نے مشاہدہ نہ کیا تھا۔ ایسا واقعہ جس کی عظمت کو انسانی ادراک پوری طرح پا نہیں سکتا!
قرآنی آیات، جو اس واقعے کو بیان کرتی ہیں، گویا نور سے جگمگ جگمگ کر رہی ہیں! وہ اللہ کے نور کو جو پْرسکون، خوش منظر، محبت سے بھرپور اور کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو قرآن میں پھیلا ہوا ہے، ہر سْو بکھیر رہی ہیں! ’’بے شک ہم نے اْسے ’شبِ قدر‘ میں نازل کیا ہے!‘‘
اللہ کے نور کے ساتھ فرشتوں اور روح الامین کے نور اور پوری رات زمین اور ملاء ِ اعلیٰ کے مابین اْن کی آمد ورفت سے بھی یہ آیات معمور ہیں:۔
’’فرشتے اور روح الامین اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم کو لے کر اْترتے ہیں‘‘۔ (4:97) ۔
اسی کے ساتھ یہ آیات صبح کے نور کو، جو نورِ وحی اور نورِ ملائکہ سے ہم آہنگ ہے اور سلامتی کی روح کو جو پوری کائنات کی ارواح میں جاری و ساری ہے، پیش کرتی ہیں:۔
سراسر امن وسلامتی (کی رات!) یہ صبح کے طلوع ہونے تک۔ (5:97)۔
جس رات کا اِس سورت میں ذکر ہے، یہ وہی رات ہے جس کا ذکر سورہ دخان میں اِس طرح ہے:۔
’’بے شک ہم نے اِس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں اْتارا ہے۔ یقیناً ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ بے شک ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں۔ یہ تمھارے رب کی رحمت کے باعث ہے۔ یقیناً وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے‘‘۔ (الدخان 44 :6۔3)۔
رمضان المبارک کی اِس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اْس کی تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں۔ یہ رات کون سی ہے! اس سلسلے میں بہت سی روایات ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی 27 ویں شب ہے۔ کچھ اور روایات سے 21 ویں شب۔ بعض دوسری روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات ہے اور کچھ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی کوئی ایک رات ہے… بہرحال زیادہ راجح بات یہ ہے کہ شبِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے۔
’شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘ قرآن مجید میں اس طرح کے مواقع پر عدد سے کوئی مخصوص تعداد مراد نہیں ہوتی! اس سے صرف کثرت کا اظہار مقصود ہوتا ہے، یعنی یہ رات نوعِ انسانی کی زندگی کی ہزارہا راتوں سے بہتر ہے! ہزاروں مہینے اور ہزارہا سال گزر جاتے ہیں اور حیاتِ انسانی پر اْن کے اثرات اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں پڑتے جتنے اِس مبارک اور سعید رات نے انسانی زندگی پر ڈالے۔
اِس رات کی عظمت کی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ ’’اور تم کیا جانو! شبِ قدر کیا ہے‘‘۔ اس رات کے سلسلے میں جو افسانوی داستانیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں، اس کی عظمت کا اْن سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس لیے عظیم ہے کہ اسے قرآن کے (جس میں عقیدہ، فکر، قانون اور زندگی کے وہ تمام اصول و آداب ہیں جن سے زمین اور انسانی ضمیر کی سلامتی وابستہ ہے) نزول کے آغاز کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ اس لیے بھی عظیم ہے کہ اس میں ملائکہ بالخصوص جبرئیل علیہ السلام اپنے رب کے اِذن کے ساتھ قرآن لے کر زمین پر نازل ہوئے۔ اور پھر یہ فرشتے کائنات کے اس جشنِ نوروز کے موقع پر زمین وآسمان کے مابین پھیل گئے۔ یہ سورت اِن امور کی عجیب و غریب انداز میں تصویر کشی کرتی ہے۔
آج جب ہم ان طویل صدیوں کے پیچھے سے اِس بزرگ اور سعید رات کی طرف دیکھتے ہیں اور اس عجیب جشنِ نوروز کا تصور کرتے ہیں جس کا مشاہدہ اْس رات زمین نے کیا اور اْس رات میں جس امر کی تکمیل ہوئی، اس کی حقیقت پر غور کرتے ہیں اور زمانے کے مختلف مراحل، زمین کے واقعات اور قلوب و اذہان کے تصورات و افکار پر اس کے دور رس اثرات کو دیکھتے ہیں تو ہم واقعتا ایک عظیم امر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور قرآن مجید نے ’’اور تم کیا جانو! شبِ قدر کیا ہے!‘‘ کہہ کر اْس رات کی عظمت کی طرف جو اشارہ کیا ہے، اْسے ہم تھوڑا سا سمجھ پاتے ہیں۔
حسین و جمیل نور، جو انسانیت کی روح میں ایک بار چمکا تھا، بجھ چکا ہے۔ ملاء ِ اعلیٰ سے ربط وتعلق کی فرحت وانبساط کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ارواح و قلوب پر سلامتی کا جو فیضان تھا، وہ مفقود ہوچکا ہے۔ روح کی اِس مسرت، آسمان کے اس نور اور ملاء ِ اعلیٰ سے ربط و تعلق کی مسرت کا کوئی بدل اسے نہیں مل سکا ہے!
ہم اہلِ ایمان مامور ہیں کہ اِس یادگار واقعے کو فراموش نہ کریں، نہ اْس سے غافل ہوں۔ ہمارے نبیؐ نے ہماری ارواح میں اس یاد کو تازہ رکھنے کا بہت آسان طریقہ مقرر فرما دیا تاکہ ہماری ارواح اْس رات سے اور جو کائناتی واقعہ ’ وحیِ آسمانی‘ اس میں رونما ہوا، اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں۔ آپ نے ہمیں اس بات پر اْبھارا کہ شبِ قدر کو ہم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں ڈھونڈیں اور اس رات میں جاگ کر اللہ کی عبادت کریں۔ بخاری اور مسلم میں ہے: ’’شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ اور صحیحین ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس کسی نے شبِ قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی، اْس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔
اسلام ظاہری شکلوں اور رسموں کا نام نہیں ہے۔ اسی واسطے رسول اللہؐ نے ’شبِ قدر‘ کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ وہ ’ایمان‘ اور ’اِحتساب‘ کی حالت میں ہو۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ شبِ قدر جن عظیم مطالب و معانی سے وابستہ ہے (دین، وحی، رسالت اور قرآن) انھیں ہم ذہن میں تازہ کریں، اور ’احتساب‘ کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ اسی صورت میں قلب کے اندر اْس عبادت کی متعینہ حقیقت زندہ و بیدار ہوسکتی ہے اور قرآن جس تعلیم کو لے کر آیا ہے، اس سے ربط و تعلق قائم ہوسکتا ہے۔
شبِ قدر کی یاد اور اس میں ایمان و احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت، اِس کامیاب اور بہترین اسلامی نظامِ تربیت کا ایک جزو ہے۔ (فی ظلال القرآن)۔

حصہ