ہمارے ملک کے سیاست دان بھی خوب ہیں، اِس وقت جب دنیا بھر کے ممالک کی حکومتیں کورونا وائرس کی وبا سے لڑنے میں مصروف ہیں، ہمارے یہاں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ امیروں کے کہنے پر غریبوں پر لاک ڈائون مسلط کیا گیا۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ امیروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی۔ یعنی دونوں صورتوں میں بات امیروں کی ہی ہوئی۔ یوں ایک جانب اگر لاک ڈاؤن لگوانے والی اشرافیہ ہے، تو دوسری طرف لاک ڈاؤن میں نرمی سے فائدہ اٹھانے والے بھی امیر ہی ٹھیرے۔ ان دونوں رہنماؤں کی جانب سے دیئے جانے والے بیانات میں عوام کی پریشانیاں دور کرنے کے لیے کچھ ہویا نہ ہو، لیکن یہ راز ضرور افشا ہوگیا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان بنی گالہ محل کی ملکیت رکھنے اور اپوزیشن رہنما بلاول بھٹو زرداری پاکستان، لندن اور دبئی میں جائدادیں رکھنے کے باوجود اشرافیہ نہیں ہیں، ان دونوں رہنماؤں کا تعلق نہ صرف متوسط طبقے سے ہے بلکہ ان کا شمار بھی غریبوں میں ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جس اشرافیہ نے لاک ڈاؤن لگوایا وہ خان صاحب کے بقول امیر ہے، اور جن طاقتوں کے اشارے پر لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی وہ بلاول بھٹو زرداری سے کہیں زیادہ اثاثوں کی مالک ہوں گی، تبھی تو ہمارے یہ دونوں رہنما اس اشرافیہ کے سامنے بے بس اور غریب دکھائی دے رہے ہیں… اتنے بے بس کہ ان کا نام لینے کے بجائے انہیں اشرافیہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے، میں تو آج تک ان دونوں رہنماؤں کو امیر ہی سمجھتا رہا ہوں، مجھے کیا خبر تھی کہ یہ دونوں رہنما ایسے بیانات دے کر اپنے دل کی بھڑاس تو نکال لیں گے لیکن میرے لیے ایک ایسا نیا مسئلہ کھڑا کردیں گے جو میرے ذہن میں الجھن پیدا کردے گا، یعنی مجھے ایک ایسی سوچ میں مبتلا کردے گا کہ میں ان چہروں کو تلاش کروں جنہیں ہمارے ملک کے محلوں میں رہنے والے حکمران بھی اشرافیہ کہہ کر پکارنے پر مجبور ہیں۔
ایسے میں نگاہ رائے ونڈ محل میں رہنے والوں کی جانب اٹھتی ہے اور میں سوچتا ہوں شاید یہ وہی اشرافیہ ہے جس کا ذکر عمران خان اور بلاول بھٹو نے کیا، یہی وہ امیر ہیں جو اپنے پیسے کے بل بوتے پر حکمرانوں سے اپنی مرضی کے فیصلے کروا لیا کرتے ہیں۔ میں ابھی ان پیسے والوں کے بارے میں سوچ ہی رہا ہوتا ہوں کہ میرے کانوں میں شہبازشریف کی اُس تقریر کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں جس میں وہ امیروں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں ’’پاکستان غریبوں نے بنایا تھا، اس ملک کو لوٹنے والوں سے ایک ایک پیسہ برآمد کرایا جائے گا، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ملک کو لوٹنے والے محلوں میں رہ کر عیاشیاں کریں اور غریب کو دو وقت کی روٹی تک میسر نہ ہو!‘‘
بس پھر کیا تھا، اس سے پہلے کہ میں کوئی حتمی رائے قائم کرتا یا کوئی اٹل فیصلہ کرلیتا، میاں شہبازشریف کی تقریر یاد آتے ہی میرا ارادہ بدل گیا۔ ظاہر ہے امیروں کو للکارنے والے شخص کا تعلق کیسے اُس اشرافیہ سے ہوسکتا ہے جس کا ذکر ہمارے وزیراعظم اور اپوزیشن رہنما نے کیا! بات اب میری سمجھ میں آچکی تھی، یعنی یہ بھی وہ اشرافیہ نہیں جس کی مجھے تلاش ہے۔
خیر میں بھی کب ہار ماننے والا تھا، میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ ضرور اُن امیروں کو ڈھونڈ کر رہوں گا جن کی جانب ہمارے وزیراعظم نے اشارہ کیا ہے۔ پھر میرے ذہن میں آیا کہ کیوں ناں ان پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے جو ایک ملک سے دوسرے ملک، یہاں تک کہ ایک قصبے سے دوسرے قصبے کی مسافت بھی اپنے ذاتی جہازوں میں طے کیا کرتے ہیں، جو اپنے میٹھے کاروبار کی طرح میٹھی میٹھی باتیں کیا کرتے ہیں، جن کے جہاز نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر بلکہ سیاسی ریس میں جیتنے والے گھوڑوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں تب بھی ان کے ماتھے پر شکن تک نہ آئے۔ میں سمجھ گیا کہ یہی ہیں وہ امیر۔ میں نے اپنے ذہن کو جھٹکتے ہوئے یہ فیصلہ کرلیا کہ ان سے آگے بھلا کون ہو سکتا ہے! بس یہی وہ اشرافیہ ہے جو اپنی مرضی کے فیصلے غریبوں پر مسلط کروا لیتی ہے۔ مگر میری جان کہاں چھوٹنے والی تھی! خیال آیا پچھلے دنوں حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسیڈی میں تو سب سے زیادہ حصہ انہی کا تھا۔ ظاہر ہے جن کے کاروبار میں سبسیڈی کی صورت مدد کی جائے وہ تو خود ضرورت مند اور غریب ہوں گے، اور پھر یہ بات بھلا کون نہیں جانتا کہ مالی مدد تو غریبوں کی کی جاتی ہے۔ اتنا سب کچھ جاننے کے بعد میں کس طرح ان جہاز والوں کو بھی امیروں کی صف میں کھڑا کرسکتا تھا! یوں میری یہ تحقیق بھی فیل ہوگئی، یہاں بھی ندامت کے سوا مجھے کچھ نہ ملا۔ میں نے سوچا بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، آخر کب تک اشرافیہ مجھ سے چھپ سکتی ہے! ایک دن ایسا آئے گا جب میں اسے بے نقاب کرنے میں ضرور کامیاب ہوجاؤں گا۔ بس یہی سوچ لیے میں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ اس تلاش میں کبھی ملک کے صنعت کار میرے ذہن میں آتے، تو کبھی بڑے بڑے اسکولوں کے مالکان… کبھی کئی منزلہ شاپنگ پلازہ بنانے والوں پر میری نظر جاتی، تو کبھی شپنگ کارپوریشن اور اسٹاک ایکسچینج سے وابستہ افراد اور کمپنیاں میری سوچ کا محور ہوتیں… کہیں سرمایہ دار، جاگیردار اور زمیندار طبقہ میرے خیالوں کو تقویت بخشتا، تو کبھی تعمیراتی کام سے وابستہ ٹھیکیدار اور بلڈرز میرے نشانے پر ہوتے۔ میں جہاں بھی جاتا اور جس کے بارے میں بھی سوچتا ہر جگہ کوئی نہ کوئی ایسی وجہ سامنے آتی جس سے ان تمام کا تعلق غریبی سے ہی جڑتا۔ یعنی اپنی باتوں سے یہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارتے ہوئے ہی دکھائی دیتے۔ میرے پاس اب اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ اپنی ضد چھوڑ کر یہ تسلیم کرلوں کہ جس ملک کا وزیراعظم اختیارات اور وسائل رکھنے کے باوجود بھی اشرافیہ کو تلاش کرنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرے، وہاں مجھ جیسا تنہا شخص بھلا کس طرح کامیاب ہوسکتا ہے! بس یہی سوچ کر میں نے ڈیفنس، کلفٹن اور گلبرگ لاہور سمیت ملک کے تمام پوش علاقوں میں رہنے والے ’’غریبوں‘‘ کے بارے میں سوچنا چھوڑ کر اپنی اوقات میں رہتے ہوئے اس دردِ سر سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن میں نے یہ فیصلہ کیا اُسی روز وزیراعظم پاکستان نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے احکامات جاری کردیئے۔ اتنی بڑی خبر سننے کے بعد لازم تھا کہ میں بھی بازاروں کا سروے کروں، لہٰذا اگلے دن صبح نو بجے میں اپنے گھر سے نکلا اورقریبی مارکیٹ میں جا پہنچا، جہاں کی صورت حال دیکھ کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی۔ خدایا، یہ کیا…؟ لوگوں کا جم غفیر مارکیٹ کی جانب امنڈ آیا تھا، بازار سے خریداری کرنے والوں میں خاصی بڑی تعداد خواتین کی تھی۔ خریدار کندھے سے کندھا ملائے دکانوں کی جانب دوڑے جارہے تھے۔ لوگوں کا رش اور گہماگہمی دیکھ کر یوں لگا جیسے اس ملک میں کورونا نامی وائرس کا کوئی وجود نہیں۔ چہرے کا ماسک اور ہاتھوں کے دستانے کس چڑیا کا نام ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے میں چاہتے ہوئے بھی اس بازار کی مرکزی گلی میں داخل نہ ہوسکا، اور سب سے بڑھ کر کورونا وائرس کی حقیقت کو جانتے ہوئے کس طرح اتنا بڑا رسک لے سکتا تھا؟ اس لیے بازار کے داخلی راستے پر کھڑے رہ کر ہی جتھوں کی شکل میں آنے جانے والوں کو دیکھتا رہا۔ مجھے یہاں آئے خاصی دیر ہوچکی تھی، لہٰذا میں نے خریداری کرکے آنے والوں سے مارکیٹ کے اندر کی صورت حال سے متعلق معلومات لینے کا ارادہ کرلیا، اور اپنے قریب سے جاتی ہوئی دو بزرگ خواتین کو روک کر پوچھا ’’اندر بازار کی کیا صورتِ حال ہے؟‘‘ ان میں سے ایک خاتون نے جواب دیا ’’دکانوں کے اندر تو پیر رکھنے تک کی جگہ نہیں، جبکہ چلتے ہوئے سانس لینے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رمضان کا مہینہ، اوپر سے گرمی اور اس قدر رش… اللہ کی پناہ۔‘‘
یہ جواب سن کر میں نے کہا ’’اگر یہی صورتِ حال ہے تو آپ گھر سے کیوں نکلیں؟ ان حالات میں خریداری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کے علم میں نہیں کس قدر لوگ کورونا وائرس کا شکار ہورہے ہیں، ایسی صورت میں خریداری کرنے کا مطلب خود کو اس موذی وائرس کے حوالے کرنا ہے۔ میں خاصی دیر سے یہاں کھڑا دیکھ رہا ہوں کہ لوگ ٹولیوں اور جتھوں کی شکل میں بازار کی جانب آ رہے ہیں، جو انتہائی خطرناک کام ہے۔ آپ لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔‘‘
مجھے کیا خبر تھی کہ میری باتیں ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا، اس سے پہلے کہ مزید کچھ کہتا، ان میں سے ایک خاتون نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا ’’تمہارا مطلب ہے کہ ہم عید کی کوئی تیاری نہ کریں، نیا سوٹ خریدیں اور نہ ہی چوڑیاں پہنیں! میک اپ کا سامان، جیولری، یہاں تک کہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے بھی نہ خریدیں! پہلے ہی اتنے عرصے بعد مارکیٹ کھلی ہے، اور تم چاہتے ہو کہ یہ دوبارہ بند ہوجائے۔ جہاں تک کورونا وائرس کا تعلق ہے تو یہ کچھ بھی نہیں، افواہ پھیلا کر ہمارے تہواروں کو خراب کیا جارہا ہے۔‘‘
اس خاتون کی باتیں سن کر میں لاجواب ہوگیا۔ میں کر بھی کیا سکتا تھا سوائے خاموش رہنے کے۔ لیکن پھر بھی میری زبان پر آیا ہوا سوال نہ رک سکا، میں نے کہا ’’آنٹی ہمارے حکمران تو کہتے ہیں ان حالات نے غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی، لیکن یہاں یہ صورتِ حال دیکھ کر تو کچھ اور ہی اندازہ ہوتا ہے۔‘‘
میری اس بات پرخاتون نے کہا ’’کسی کی کمر نہیں ٹوٹی، اور نہ ہی یہاں کوئی غریب ہے۔ بازار میں جاکر دیکھو، لوگ اس طرح شاپنگ کرنے میں مصروف ہیں کہ ایک ایک شخص دو دو تین تین سوٹ خرید رہا ہے۔ چپلوں،گھڑیوں اور مہنگے ترین پرفیومزکی فروخت عروج پر ہے، میں خود تین سوٹ خرید کر لائی ہوں، یہ میری باجی ہیں، انہوں نے بھی اعلیٰ کوالٹی کے مہنگے دو سوٹ لیے ہیں۔ تمہاری باتوں کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوگا، ہم غریب ہیں اور نہ ہی کورونا وائرس ہمارا کچھ بگاڑ سکتا ہے، میں کل بھی آؤں گی بلکہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لاؤں گی، عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ اور سنو، میں پھر کہتی ہوں یہ بات تم اپنے ذہن سے نکال دو کہ ہمارے ملک میں غربت ہے۔ یہاں کوئی غریب نہیں۔ مارکیٹ میں رش دیکھ کر تمہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی غریب نہیں۔‘‘
اس خاتون کی جانب سے کی جانے والی باتوں سے میرا اشرافیہ کی تلاش کا سفر اختتام پذیر ہوا، اور پھر میرے ذہن کی وہ تمام الجھنیں دور ہوئیں جو امیروں کو ڈھونڈنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔
مجھے امید ہے کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن رہنما بلاول بھٹو زرداری کو بھی گمشدہ اشرافیہ کا علم ہوگیا ہوگا۔‘‘