منزلِ گم گشتہ

292

جوہر مہدی

جب تک آپ دوبارہ بچے نہ بن جائیں، آپ میرے خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتے.”
عیسی مسیح

کسے نہیں ہے تمنّا کہ اْس کو مل جائے
وہ سرخوشی کا زمانہ کہ جب وہ بچہ تھا
نگاہ کس کو نہیں چاہیے وہ حیرت کی
کہ سنگ ریزہ ہماری نظر میں ہیرا تھا
کسی سے آگے نکلنے کی کوئی خواہش تھی
نہ پیچھے چھوڑنے کا ہی کسی کو جزبہ تھا
ابھی تو پیرہن روح پہ اک شکن بھی نہ تھی
ہمارے جسم میں پیدا ہوا نہ سایہ تھا
کسی نے زہر اْنڈیلہ ہمارے زہنوں میں
پھر اس کے بعد من و تو کا ایک جھگڑا تھا
ابھی سوال بھی ابھرے نہیں تھے زہنوں میں
جواب سے میری معصومیت کو کْچلا تھا
میں ڈھونڈتا تھا ہر اک سمت راستہ لیکن
چھپا ہوا میرے اندر ہی ایک رستہ تھا
وہ لوگ کم تھے جو سچ ڈھونڈنے نکلتے تھے
ہر ایک شخص عقیدے سے اپنے اندھا تھا
ہے سوچنا بھی عبادت اگر کوئی سمجھے
حصولِ علم کا نیکی سے ایک رشتہ تھا
میں بارگاہِ خداوند میں ہوا داخل
کہ ایک لڑکا سا مجھ میں ابھی بھی ذندہ تھا

حصہ