رمضان کا ملال

361

تنویراللہ
یکم مئی ۲۰۲۰ء جمعہ سات رمضان المبارک کو مولانا اس دنیا سے دوسری دنیا کو چلے گئے، مولانا عبدالروف سے میرا بہت پرانا تعلق تھا ان کے بیٹوں عطا اللہ، عطاالرحمن، ثنا اللہ، امان اللہ کے نام یاد ہیں۔
۱۹۷۹ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مولانا نے کونسلر کی نشت پر الیکشن میں حصہ لیا ان کا حلقہ انتخاب خالصتاً اردو بولنے والوں پر مشتمل تھا جب کہ مولانا کی زبان پشتو تھی لیکن مولانا اپنی شخصیت اور آبادی سے دیرینہ اور گہرے تعلق کی وجہ سے کامیاب ہوئے اور کونسلر بھی وہ کامیاب ہی رہے۔
لانڈھی کورنگی میں جماعت اسلامی کے کونسلرز کا کیا خوب جھرمٹ تھا، اسلم مجاھد شہید، قاضی گوہر علی ختک ، صغیر خان ، بابو رحیم کریم ، مختار گوہر، ہر ایک بے داغ اور بے غرض، آج بھی بلدیاتی اداروں میں ان کا نام دیانت دار اور انتھک کام کرنے والوں کے طور لیا جاتا ہے۔
میں نے رکن جماعت اسلامی جناب گل میر خان کے بیٹے اور اپنے دوست محسن الحق غوری کے ساتھ ان کی انتخابی مہم میں حصہ لیا، مولانا اپنی آبادی میں جماعت اسلامی کا نیوکلس تھے ان کی گلی جماعت اسلامی والوں کے نام سے پہچانی جاتی تھی گلی کے ایک کونے پر مولانا عبدالروف رہتے تھے اور دوسرے کونے پر ملک فتح محمد صاحب کا گھر تھا ملک صاحب پی آئی اے میں جماعت اسلامی کی لیبر تنظیم پیاسی کے عہددار تھے لہذا ان کی زیادہ مصروفیت پیاسی کے ساتھ تھی لیکن ان کے گھر کے مرد وخواتین، بچے اور بڑے تن من سے جماعت اسلامی کے لیے وقف تھے۔
مولاناعبدالروف کی اگلی ہی گلی میں مولانا عبدالحئی کا گھر تھا عبدالحئی صاحب ہزارہ سے تعلق رکھتے تھے وہ ایک اچھے مربی، مدرس اور منتظم اور شعری ذوق رکھتے تھے مختلف وقتوں میں ٹھٹہ اور لانڈھی کورنگی کے امیر رہے اور اپنی یہ ذمہ داری انھوں نے ویسپا اسکوٹر پر انجام دی اُس زمانے میں موٹر گاڑیاں میسر نہ تھیں، ایم کیو ایم کے ابتدائی زمانے میں مولانا جماعت اسلامی ضلع بن قاسم کی امیر تھے یہ مشکل وقت مولانا نے ہمت اور فعالیت سے گُزارا، مولانا عبدالحئی کئی برس فاروقی مسجد سعودآباد میں قائم دارلعلوم جامعہ حنیفیہ کے مہتم بھی رہے ان کے بیٹے راشد زبیر، خالد رشید اور گھر کے تمام افراد جماعت اسلامی سے منسلک تھے جو اب بھی ہیں، مولانا عبدالحئی نے اپنے بچوں کی شادیوں میں دین داری کو ترجیع دی دین کی بنیاد پر ہی سندھی اور جرمن گھرانے سے رشتہ داری جوڑی۔
مولانا عبدالروف اور مولاناعبدالحئی علم، تقوہ، اچھے سیاسی قدکاٹھ والی شخصیات تھیں ان کی آپس میں ملاقاتیں کچھ زیادہ نہیں تھیں میرا ان دونوں سے ہی اچھا تعلق تھا لیکن کبھی ان کم ملاقاتوں کی وجوھات کا ذکر نہیں ہوا، روادری اور رکھ رکھاو کی یہ بڑی مثال تھی جو آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
۱۹۷۹ء قومی شناختی کارڈ بنائے جانے کے ابتدائی دن تھے لانڈہی کورنگی میں تصدیق کے اہل فرسٹ کلاس گزیٹیڈ سرکاری افسر ڈھونڈے نہیں ملتے تھے اور جو اکا دکا تھے وہ بھی ایکسڑا محتاط تھے لہذا مولانا کے گھر کے سامنے تصدیق کے لیے عوام کا رش رہتا تھا۔ ایوب خان کے بعد ۱۹۷۹ء گراس روٹ لیول پر کونسلر کی صورت میں عوامی نمائندگی کا نظام بحال ہوا تھا لہذا کونسلر بھی اپنے اختیارات کے استعمال میں بہت محتاط تھے لہذا شناختی کارڈ کی تصدیق بھی ایک مشکل مرحلہ ہوا کرتا تھا مولانا عبدالروف بھی اپنے دستخط کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے، انھوں نے ہر گلی کی سطح پر اپنے نمائندے مقرر کیے تھے جو تحقیق کے بعد اپنی سفارش کے ساتھ فارم مولانا کو بھیجتے تھے اور مولانا اپنی مہر اور دستخط فارم پر ثبت کرتے تھے مولانا بحیثت کونسلر جب بھی کہیں دستخط کرتے تو نام کے ساتھ بقلم خود لازمی لکھتے تھے۔
اسلم مجاھد شہید زمانہ طالب علمی سے ہی متحرک اور اپنے اردگرد سے جڑے رہنے والے آدمی تھے وہ اپنی ذمہ داری اور اختیار سے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ہر موقع اور حالات میں اپنے وزن اور اہمیت میں اضافے کا وہ کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈ لیتے تھے، انھوں نے لانڈھی کورنگی کے تمام کونسلرز کو ساتھ ملا کر ’’لانڈھی کورنگی کونسلر اتحاد‘‘ بنایا تھا اس اتحاد میں شریف، داداگیر ہر مسلک اور زبان کے لوگ لانڈھی کورنگی کے عوامی مفاد کے لیے اسلم مجاھد کی قیادت میں متحد ہوگئے تھے اس اتحاد نے اپنے وزن، اپنی قوت، اپنی تعداد اور اپنے حصے سے بہت زیادہ بجٹ اور اختیار حاصل کیا اور بہت بڑے سیاسی، سماجی، ترقیاتی کام کیے مولانا عبدالروف بھی اس اتحاد کے اہم ممبر تھے۔
۱۹۷۹ء کے پس ماندہ لانڈھی میں اسپورٹ کمپلیکس کا سوچنا بھی ممکن نہ تھا لیکن مولانا عبدالروف نے یہ کام کردیکھایا اس بڑے کام کی ستائش کی جانی چاہیے تھی لیکن بے بنیاد اعتراضات کی وجہ سے اس اچھے کام کو تنقید کا سامنا رہا، کہتے ہیں کہ وہی سہاگن جو پیا من بھائے، اس مخالفانہ فضاء میں مولانا جب تک کونسلر رہے ان کی اپنے کام میں دلچسپی کم نہ ہوئی، مولانا ایک بار ڈائریکٹ الیکشن کے ذریعے منتخب ہوئے اور دوسری بار لیبر سیٹ پر کونسلر بنے۔
مولانا عبدالروف جامع مسجد نور کے امام، خطیب، مسجد بنانے والے اور سرپرست تھے ہماری نوجوانی کے زمانے میں نماز فجر روزہ بند ہونے کے آدھے گھنٹے بعد ادا کی جاتی تھی اور یہ طویل وفقہ ہم جیسوں کو بہت بھاری پڑتا تھا اسی طرح اذان اور نماز مٖغرب میں اتنی عجلت کی جاتی تھی کہ نور مسجد کے موذن نومسلم عبداللہ مرحوم آذان کے لیے کجھور ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوتے تھے اور عام دنوں کی نماز مغرب کی طرح اذان ہوتے ہی جماعت کھڑی کردی جاتی تھی لہذا اس نماز میں بھی اکثر لوگ تاخیر سے ہی پہنچتے تھے۔
مولانا عبدالروف نے نماز فجر آذان کے کچھ ہی دیر بعد ادا کرنے کی روایت ڈالی اسی طرح افطار، آذان اور نماز مغرب میں مناسب وقفے کی طرح ڈالی، شروع میں علاقے کی دیگر مساجد سے اس عمل کی مخالفت کا سامنا رہا لیکن آج پورا ملک اس پر نہ صرف عمل کررہا ہے بلکہ اس پر راضی بھی ہے۔
یوں تو مولانا قرات اچھی کیا کرتے تھے لیکن سورۃ مریم اور سورۃ مراسلات ان کی آواز اور طرز میں بہت ہی اچھی سنائی دیتی تھی مقتدی نمازی جب بھی یہ سورۃ قرات کرنے کی خواہش کرتے تو مولانا اسے بخوشی پورا کرتے اور نماز فجر میں انھیں سنایا کرتے تھے۔
باوقارمحمود احمد خان، بذلہ سنج مسعود احمد خان، چلبلے اور مہمان نواز محسن غوری، باتونی سعد اللہ خان، ہرلحمہ مستعد ملک افتخار احمد، مصروف اسد اللہ خان، پڑھے لکھے راشد زبیر، ذمہ دار خالد رشید، ہر وقت مسکراتے سرور ان کے بھائی سنجیدہ اشتیاق، پرعزم مہرالدین افضل،معصوم محمد اسماعیل جو میرے دوست بھی تھے اور مولانا سے بھی قریبی تعلق میں رہے، ان کے علاوہ بھی مولانا کا حلقہ احباب وسیع اور متنوع تھا منشی قالین والا، صابر کشن میکر، سلطان تھلے والے، چوھدری رفیق، راجہ عبدالرزاق اور ان کے بھائی، وکیل خٹک مولانا کے معتقدین میں تھے۔
مولانا کے لانڈہی سے منتقلی کے بعد مسجد نور کی وہ کیفیت نہ رہی جو ان کی موجودگی میں تھی، مولانا کے خاندان اور محسن غوری، سرور نے ان کے بعد مسجد کو سنبھالے رکھا لیکن لگتا یہ تھا کہ مولانا اپنے حصے کی رونق، سکون، امن، حسن انتظام اوردبدبہ اپنے ساتھ لے گئے تھے، ان کے جانے کے بعد جب بھی مسجد نور میں نماز پڑھی تو ہمیشہ مولانا کی کمی کی اداسی لیے مسجد سے نکلا۔
مولانا عبدالروف امام،خطیب، مربی، قائد،کونسلر کے ساتھ ایک دور تھے، چمکتا، دمکتا، تابندہ اور شان دار دور جو تمام ہوا، ان کے بعد اس آبادی کو اُن جیسا نہیں ملا۔
مولانا اپنے ساتھ آسان حساب کتاب لے کر گئے ہیں بلاشبہ ان کے اعمال اللہ کو راضی کرنے کا سبب بنیں گے، میری بھی قبولیت کے یقین کے ساتھ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مولانا کو جنت میں محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے آس پاس کہیں جگہ عطا فرما دے اور ہم سمیت جو بھی دنیا میں ان سے تعلق میں رہے ہیں انھیں جنت میں بھی ایک ساتھ کردے۔
رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ختم ہونے کو ہے، اکثریت کو ملال ہے کہ وبا کی وجہ سے رمضان کی وہ کیفیت نہیں جو پہلے ہوا کرتی تھی، مساجد کے مینار خاموش اور اندھیرے ہوگئے ہیںان کی رونق ختم ہوگئی ہے، فرض نمازیں عجلت میں پڑھی جارہی ہیں اکثر جہگوں پر تراویح نہیں ہو رہی ہے اور اگر کہیں تراویح پڑھی بھی جارہی ہے تو پکڑے جانے کا دھڑکا لگا ہوا ہے، شبینے، پانچ روزہ، دس روزہ ختم قران منتشر ہوگئے ہیں۔
کیا پچھلے برس ہمارا، رمضان، مساجد، نمازوں، تراویح سے اتنا اور ایسا تعلق تھا کہ جس کے ٹوٹ جانے یا ماند پڑ جانے پر ہم اتنی اداسی کا اظہار کررہے ہیں؟۔
سچ یہ ہے کہ ہم نے کتاب کے مضمون اور متن سے زیادہ اس کی خوب صورت جلد، مہنگے کاغذ، دیدہ زیب نقش ونگار کو اصل بنا لیا ہے، امتحانکے بجائے کمرہ امتحان کی چمک دمک، اسے بنانے سنوارنے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔
کیا رمضان ہمارے لیے تقوی حاصل کرنے کا ذریعہ تھا، جیسا کہ رمضان کو قران کا مہینہ کہا جاتا ہے تو ہم بھی اسے قران کا مہینہ ہی سمجھتے تھے، کیا ہم سحری کا اتنا ہی اہتمام کرتے تھے جو اگلے دن چلنے پھرنے کی توانائی دے۔ کیا افطار میں ہمارا مقصد وہی لذت حاصل کرنا ہوتا تھاجو مومن کے لیے خاص ہے، ہماری راتیں ہمارے دن رمضان کی برکتوں کے لیے گُزرتے تھے؟۔
کیا ایسا نہیں ہے کہ رمضان ہمارے لیے عبادات کے بجائے فیسٹول کا مہینہ بن گیا تھا، رمضان ہمارے لیے اللہ کو راضی کرنے کے بجائے دوسرے کاموں کا ذریعہ بن گیا تھا، رمضان میں مساجد سے زیادہ بازار بھر جاتے تھے اور ختم قران کے بعد تو مساجد ویران ہی ہوجاتی تھیں،رمضان ہمارے تاجر کے لیے سیزن بن گیا تھا، رمضان سے پہلے تاجر مال زیادہ منافع کی غرض سے ذخیرہ کرنا شروع کردیتے تھے، ٹی وی پر مصالحوں، کنگ ائل، کپڑوں کے اشتہارات کی بھر مار ہوجاتی تھی، ہوٹلز کی طرف سے سحر و افطار کے مہنگے پیکجز کے اعلانات جاری ہوتے تھے، فائیواسٹار ہوٹلوں میں تجارتی مقاصد کے لیے بڑی بڑی افطارپارٹیاں، سرکاری افسران کی افطار کے بہانے خاطر ومدارات ہمارے رمضان کے بڑے اہداف تھے، جس تراویح کے نہ ہونے کا ہمیں ملال ہے ٹھیک اسی وقت فہد مصطفی، عامر لیاقت جیسوں نے عوام کو تقوی کے بجائے تحفے کی دوڑ میں لگایا ہوا تھا، لاکھوں لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھے اس اچھل کود سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
عید روزہ دارں کے لیے اللہ کا تحفہ ہے لیکن جن لوگوں کا روزے سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا وہ عید کے بے تاب نظر آتے تھے۔
جائزہ لیں اس سال رمضان میں ہمیں کس چیز کی کمی کا ملال ہے؟ رمضان کے مقصد کا تعین کریں راستے خود کھلتے جائیں گے۔

حصہ