مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

782

ماہین خان
آج اس پُرفتن دور میں جذبۂ ایمانی سے ایک تابندہ تارہ بھرپور طریقے سے ابھر رہا ہے اور وہ ہے ماضی کے قائی قبیلے کا ارطغرل۔ کس قدر فخر اور شان و شوکت کے ساتھ اس ’’ماضی کے غازی‘‘ کو آج کی دنیا میں مسلمانوں کے رگ و پے میں بسایا جا رہا ہے۔ اور طاغوت اس سب کو دیکھ کراپنی موت کو قریب سے قریب ترمحسوس کر رہا ہے۔
یہ کیسا کردار ہے جس کو دیکھنے والا ہر شخص دیوانہ ہوجاتا ہے‘ ’’الجہاد… الجہاد‘‘ کرنے لگتا ہے۔ اپنی میان میں تلوار محسوس کرنے لگتا ہے۔ بڑے تو ایک طرف اس امت کے چھوٹے چھوٹے بچے تک اس سحر کا شکار ہو چکے ہیں۔ غرض یہ ڈراما امت مسلمہ کو جگانے کا مؤثر ذریعہ بنا ہے۔

کبھی اے نوجواں مسلم ! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا

جس جس نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوگا تو وہ اس نہج پر آسانی سے اپنے فکری پہاڑ کھڑے کر سکتے ہیں… پہلی بات یہ ارطغرل کون ہے؟ یہ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے پہلے سلطان عثمان خان کے والد ماجد تھے‘ جنہوں نے اپنے دور میں صلیبیوں کے قلعوں پر، منگولوں کے بازاروں میں، بازطینیوں کے محلوں میں اسلام کا پر چم سر بلند کیا تھا۔ ساتھ ہی ان کی نسل سے سلطان محمد فاتح نکلے جس نے قسطنطنیہ فتح کیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان عثمانی ترکوں سے بڑھ کر سچے عاشق رسول کوئی نہ تھا۔
اپنی امت کے نبی کے نام اقدس سن کر دل پر ہاتھ رکھ لینے والے چرواہوں کے قبیلے کے بہادروں کے مختصر سے تعارف کے بعد کیا ہم اس سوال کو بھی مد نظر نہیں رکھ سکتے کہ کہیں یہ خلافتِ عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کے مظاہر تو نہیں…؟ بالکل! یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ترکی اس وبا کے دور میں جتنا خاموش ہے‘ اس سے معاملات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اس خاموشی کو بھی اس نہج پر پرکھا جاسکتا ہے۔
آئیے اب ذرا عالم اسلام خصوصاً ترکی کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔
۔ 1923میں جب ترک خلافت کا خاتمہ ہوا اور پھر جنگِ عظیم اوّل… اس کے بعد اتاترک پاشا کے ساتھ مغربی اقوام نے ایک سو سالہ معاہدہ کیا جس کی تمام شقیں مسلمانوں کے خلاف تھیں، جو کہ کچھ یوں تھیں:۔
پوری ترک سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا… سیکولر ریاست قائم کردی گئی… لباس بدل دیا گیا۔ عثمانیوں کا مخصوص عربی رسم الخط ختم کرکے انگریزی حروف پر مشتمل رسم الخط دے دیا گیا۔ کچھ مساجد کو چرچ میں تبدیل کیا گیاجن میں آیا صوفیہ سر فہرست ہے… اور سب سے بڑھ کرترک قوم کو سو سال کے لیے غلام بنا دیا گیا جس سے ان کی اپنی کوئی معاشی حیثیت نہیں رہی اور مغرب کے رحم و کرم پر رہ گیا۔۔۔!۔

اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

آج سے ٹھیک تین سال بعد یہ معاہدہ ان شا اللہ ختم ہونے جا رہا ہے جس کی تیاری کے لیے ارطغرل جیسے جری بہادروں کے ڈرامے بنائے جارہے ہیں۔ اردوان اس خاموش وبا کے عرصے میں یقینا اس کی تیاری کر رہے اور پوری امت مسملہ کے دلوں میں فاتح القدس صلاح الدین ایوبی جیسی حیثیت رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اردوان کا دوسری دفعہ صدر بننا بھی اسی بات کی دلیل ہے۔ مغرب اب اس بات پر منہ میں انگلیاں لیے بیٹھا ہے کہ اب یہ شخص وہ ساری زمین واپس لے لے گا جو کبھی سلطنت عثمانیہ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اب ان طاغوتوں کو القدس یعنی مسجد الاقصیٰ، عراق، شام ، مکہ ، مدینہ سب کچھ دینا پڑے گا۔! اللہ اردوان کی حفاظت کرے۔
جس ترکی کو ان کافروں نے ایک چھوٹے سے خطے پر محیط کر دیا تھا وہ ان شا اللہ بہت جلد واپس لیا جائے گا۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا:۔

ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گوہر نکلے

صحیح معنوں میں یہ امت مسلمہ کا دور ہو گا اور پھر قیامت کے آثار اور زیادہ نمایاں ہو جائیں گے۔ الغرض چھوٹے چھوٹے پانی نظر آتے بڑے بڑے دجالی فتنوں سے دور رہنے کا دور ہے۔ دُعا ہے یہ کڑا وقت امت پر آسانی سے گزر جائے‘آمین۔

حصہ