حصہ اوّل
زندگی کیا ہے؟ایک معروف ٹی وی اداکارہ و میزبان اپنے ہرپروگرام کے آخر میں اپنے مہمان سے یہ سوال کرتی ہے، اور میں شاید اسی کا جواب سننے کی سب سے زیادہ منتظر ہوتی ہوں حقیقت یہ ہے کہ بہت کم جواب ایسے ہوتے ہیں جن میں فرد کا کوئی مخصوص نظریہِِ حیات واضح ہوتا ہو کسی کے نزدیک اپنے والدین یا قریبی رشتے داروں کی مسکراہٹ کانام زندگی ہے ،تو کسی کے نزدیک دوسروں کے لیے جینے کا نام زندگی ہے، یہی سوال جب میں نے اپنے ارد گرد مختلف العمر افراد سے کیا تو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ نظریہ زندگی نامی اصطلاح سے زمانہ طالبعلمی میں واقف ہونے کے بعد کوئی واسطہ نہیں رہا، کثیر تعداد میں افراد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اپنے عقائد مثلاً،توحید،رسالت اور آخرت کے حق میں ان کے پاس قابلِ اطمنان دلائل موجود نہیں ہیں، کئی نوخیز اور کئی پختہ ذہنوں کے پاس اس سوال کا جواب موجود نہیں تھا کہ زندگی گزارنے کے لیے کسی نظریے کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ایک بڑی تعداد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ صرف اس لیئے اپنے عقائد پر ایمان رکھتے ہیں کہ ان کے بڑوں سے یہی عقائد ان تک پہنچے ہیں،اکثریت کے نزدیک مثالی زندگی کا مطلب بلا روک ٹوک زندگی گزارنا ہے، اس کے علاوہ لفظ پرائیویسی کا استعمال ان جوابات میں تسلسل سے کیا گیا ۔
اس ہلکے پھلکے سروے نے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے فتنہِ الحاد میں مبتلا ہونے کے بارے میں پیدا ہونے والی تشویش اور انگنت سوالات کے جواب دے دئیے، سب سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ سامنے آئی کہ ننانوے فی صد والدین نے اپنے بچوں سے عقائد کے بارے میں کبھی باضابطہ اور باقاعدہ گفتگو نہیں کی ۔اس غفلت کی وجہ شاید یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین نے یہ کام تعلیمی اداروں پہ چھوڑ دیا ،تعلیمی اداروں کے کردار پہ بحث ایک الگ تحریر کی متقاضی ہے، بلا شبہ یہ صورتحال ایک حد تک مایوس کن اور تشویشناک ہے، لیکن فی الوقت یہ دیکھنا اہم ہے کہ ہم ان موضوعات پہ بحیثیت والدین، استاد یا معاشرے کا ایک فعال رکن خود کتنی معلومات رکھتے ہیں، کیا خود ہمارے پاس وہ دلائل موجود ہیں جو آج کے نوجوان کے ذہن میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کا کافی و شافی جواب ہوں؟کہیں ہماری ناکافی معلومات ہی تو وہ رکاوٹ نہیں جو ہمارے اور بچوں کے درمیان حائل ہوں اور بچوں کو دین سے دور کرنے اور خدانخواستہ کسی دوسری انتہا کی جانب مائل کرنے کی وجہ بنتی ہوں ؟ بد قسمتی سے اس کا جواب ہاں ہے۔ بحیثیت والدین ہم نے خود ہی تصور کر لیا ہے کہ ہمارے بچے کیونکہ ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوئے ہیں اس لیئے تمام عقائد اور بنیادی تصورات جیسے ان کی گھٹی میں پائے جاتے ہیں۔ہم بخوبی واقف ہیں کہ یہ مفروضہ حقیقت سے کوسوں دور ہے اور اس کی بنیاد پر “تربیت یافتہ “افراد کا ایمان آزمائشوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے، قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انبیاء کرام ؑ نے اپنی اولا کو خصوصی طور پہ وحدانیت پہ قائم رہنے کی نصیحت کی۔
درحقیقت کائنات کا تصور، اس کائنات میں موجود مختلف نظاموں کی بنیاد اور اسلامی نظام زندگی کی بنیاد ،یہ ایسے موضوعات ہیں جن پہ بالترتیب خود کو اور دوسروں کو عقلی دلائل کے ساتھ قائل کرلینا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔
علمائے دین نے ان موضوعات کو تشنہ ہرگز نہیں چھوڑا لیکن کہیں نہ کہیں ہمارے ذہنوں میں یہ بات موجود ہے کہ اس حوالے سے تحریری مواد زبان و بیان کے حوالے سے یقیناً ایک عام فرد کی سمجھ کے مطابق نہیں ہو گا ، مولانا مودودی کی تحریرکی خصوصیت ہی یہ ہے کہ بظاہر مشکل اور ثقیل موضوعات کو اتنی عمدگی اور روانی سے بیان کرتے ہیں کہ ہر ذہنی سطح کے فرد کے لیئے اسے سمجھنا آسان ہو جاتا ہے، اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ایک ایسی ہی کتاب ہے جس کو تجرباتی طور پہ 14 اور 17 سالہ بچوں کے ساتھ پڑھا گیاتو اندازہ ہوا کہ ایک مناسب ذہی استعداد کا حامل نوجوان بھی اس کتاب کے ذریعے ان موضوعات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے،جن پر بات کرنا ہمیں اپنی کم علمی یا کم اعتادی کے باعث مشکل لگتا ہے۔یہ کتاب دراصل مختلف مواقع پر کی گئی مولانا کی تقاریر کا تحریری مجموعہ ہے، جس میں توحید اور رسالت کے عقلی ثبوت ایسے عام فہم انداز میں بیان کیئے گئے ہیں کہ پڑھنے والا اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھتا جاتا ہے ،مولانا کی تحریر و تقریر کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قاری یا مخاطب پر محض رعب جمانے کی خاطر مشکل الفاظ،استعارات و تشبیہات کا استعمال نہیں کرتے،یہ ہی بات ان کے اندازِ بیان کو منفرد بناتی ہے ااور یہ کتاب اس خصوصیت کامنہ بولتا ثبوت ہے۔مذکورہ کتاب میں جہاں ایک تصور کی اہمیت پہ دلائل ہیں وہیں اس کے متضاد تصورات پہ بھی روشنی ڈالتے ہوئے ان کے نقصانات پہ سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔میرے ہاتھ میں اس کتاب کا جون 2017 میں شائع کردہ بیالیسوں ایڈیشن موجود ہے، 328 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بجز اس کے کچھ نہیں کہ آیتِ مبارکہ ان الدین عنداللہ الاسلام کی تفسیر و تشریح ہے۔اس کتاب کا آخری باب “اسلامی نظامِ حیات”مولانا مودودی کی ان تقاریر پر مشتمل ہیں جو 1948 میں سربراہِ مملکت کی خصوصی درخواست پہ ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئیں۔ اسی حصے کو تجرباتی طور پہ طلباء کے ساتھ پڑھا گیا ۔اس باب میں اسلام کے اخلاقی، سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور روحانی پہلوؤں پہ تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہےمذکورہ بالا طلباء جب ان ابواب کو باآوازِ بلند پڑھتے تو بار بار رک کر کہتےکہ “یہ سوال تو کب سے میرے ذہن میں تھا “،یا یہ کہ “ایسا تو میں بھی اکثر سوچتی ہوں”۔ذیل میں انہی ابواب میں بیان کردہ چند اہم نکات پیش کیئے جارہے ہیں ،اس امید کے ساتھ کہ اس تحریر کا قاری ضرور اس کتاب سے استفادہ حاصل کرنے کے لیئے تیار ہو گا اور اس روشنی کو دوسروں تک بھی پہنچائے گا کہ یہ ہی وقت کی اشد ضرورت ہے۔
اسلام کا اخلاقی نظام
اس ضمن میں مولانا فرماتے ہیں کہ اخلاق کا بنیادی تصور ہر نظریہ حیات میں یکساں طور پر اہمیت رکھتا ہےاور اخلاقی معیارات کم وبیش ہر نظام میں یکساں ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ اس کا شعور انسان کو اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے ، اس عنوان کے تحت سب سے خوبصورت نکتہ یہ ہے کہ معروف اور منکر کی اصطلاح قرآن میں اسی لیئے استعمال کی گئی ہے کہ نیکی اور بدی کا تصور انسان کے لا شعور میں صحیح اور غلط کی صورت میں موجود ہے ۔
پھر مولانا نہایت سہل انداز میں قاری کو بتاتے ہیں کہ سب نظاوں میں صحیح اور غلط کا بنیادی تصور یکساں ہونے کے باوجود ان کے اخلاقی نظام مختلف اس لیئے ہیں کہ ہر نظام کا تصور کائنات ، کائنات میں انسان کی حیثیت اور انسان کا مقصدِ وجود مختلف ہیں۔جس نوعیت کے مذکورہ بالا تصورات ہوں گے اسی نوعیت کا اخلاقی نظام پنپے گا۔اسی لیئے اسلام کا نظریہِ زندگی اس کے نظامِ اخؒاق پر اثر انداز ہوتا ہے،یہ نظریہ انسان کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر عمل کی بنیاد رضائے الٰہی کو بنائے اور یہی سوچ اسے اخلاق کی بلندیوں پہ فائز کر دیتی ہے، یہی خوفؐ خدا اور خوفِ آخرت انسان کے لیئے قوتِ نافذہ کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں اور قوتِ محرکہ کا بھی۔پھر یہ کہ یہ نظام معروف اخلاقیات میں خوامخواہ یا بلا ضرورت کمی بیشی نہیں کرتا اور ایک تصور پیش کرتا ہے جس کے تحت انسان زندگی کے ہر شعبے میں ہر کام کو سر انجام دیتے ہوئے اخلاق کو ہی حکمران جانتے ہوئے فرائض و خدمات انجام دیتا ہے۔پھر یہ نظام اپنے ماننے والوں سے ایک ایسے معاشرے کو قائم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جس کی بنیاد معروف ہو اور جو منکر سے پاک ہو، ، اسلام اپنی ریاست میں ہر شعبہِ زندگی میں اخلاقی اصولوں کی پابندی کا تقاضہ کرتا ہے۔اسلام کا سیاسی نظام:اس موضوع کے تحت مولانا مودودی واضح الفاظ میں بتاتے ہیں کہ اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد دراصل توحید ،رسالت اور خلافت پہ رکھی گئی ہے،توحید کا اصول انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ “حاکم صرف اللہ ہے” اور “صرف اسی کا حکم قانون ہے “، اور یہ حکم رسول کے ذریعے ایک کتاب کی شکل میں ہم تک پہنچا ہے جبکہ اس کی مستند تشریح رسول نے خدا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے پیش کی ہے۔انسان کی حیثیت اس سیاسی نظام میں خلیفہ کی سی ہے، ہر مسلمان اس نظام میں اللہ کا نائب ہے، یہاں مولان بہت دلکش انداز میں اسلامی جمہوریت کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے اس کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں “خلافت کی اس تشریح کے سلسلے میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ اسلامی نظریہِ سیاسی کسی ایک شخص یا خاندان یا طبقے کو خیفہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس پوری سوسائٹی کو خلافت کا منصب سونپتا ہے جو توحید اور رسالت کے بنیادی اصولوں کو تسلیم کر کے نیابت کی شرطیں پوری کرنے پر آمادہ ہو، ایسی سوسائٹی بحیثیتِ مجموعی خلافت کی مثال ہے اور یہ خلافت اس کے ہر فردکو پہنچتی ہے” مولانا کہتے ہیں کہ مغرب کا سیاسی نظریہ جمہوری حاکمیت کا قائل ہے جب کہ اسلام کا سیاسی نظریہ جمہوری خلافت کا۔ وہاں کی اکثریت خود شریعت بناتی ہے اور یہاں کی اکثریت کو اس شریعت کی پابندی کرنی پڑتی ہے جو اپنے نبی کے ذریعے خدا نے بھیجی ہے۔ وہاں حکومت کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ عددی اکثریت کا منشاء ہورا کرے جبکہ یہاں حکومت اور اکثریت دونوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خدا کا منشاء پورا کریں۔اس سے آگے آپ مولانا کے الفاظ میں اسلامی ریاست کا عملی خاکہ تفصیل سے پڑھ سکیں گے۔
اسلام کا معاشرتی نظام
اس عنوان کے تحت سب سے پہلی بات یہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں سب سے پہلے ایک ہی ماں باپ بنائے اور بعد میں مختلف نسلوں ،قبیلوں اور قوموں میں تقسیم ہوتے چلے گئے، یہ سارے اختلافات فطری اختلافات ہیں، مولانا ان اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام ان اختلافات کی بناء پر پیدا ہو جانے والے قومی،نسلی اور وطنی تعصب کو یکسر غلط قرار دیتا ہے ۔ اور یہ سب اسلام کے نزدیک جاہلیت کی باتیں ہیں ، اس کے بعد معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان اور خاندان کی بنیاد یعنی مرد اور عورت کے تعلق پہ نہایت اہم گفتگو کی ھئی ہے، مولانا فرماتے ہیں کہ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کا عیدکیئے بنا مرد و عورت کے درمیان قائم ہونے والا ہر قسم کا تعلق خاندان اور معاشرے کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے، اور ایسے تعلق کو واضح طور پہ جرم قرار دیا گیا ہے، اسلام معاشرے کو ایسے تمام اسباب سے پاک کر دیتا ہے جو مر د وعورت کے غیر ذمہ دارانہ تعلق کا محرک بنتے ہوں ، مولانا کہتے ہیں کہ پردے کے احکامات، مردوزن کے آزادانہ میل جول می ممانعت، موسیقی اور تصاویر پہ پابندیاں اور فواحش کی اشاعت کے خلاف رکاوٹیں ،سب کا مقصد خاندان کے ادارے کو محفوظ اور مضبوط کرنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام نکاح کو آسان بناتا ہے اور اعلانیہ نکاح کو پسند کرتا ہے۔ آگے چل کے مولانا فرماتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ خندان کا ناظم مرد کو قرار دیتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مرد کی حیثیت ایک جابر و قاہر فرمانروا کی ہو اور عورت کی حیثیت ایک مجبور اور بے بس لونڈی کہ سی ہو، مولانا کہتے ہیں ” اسلام کے نزدیک ازدواجی زندگی کی اصل روح محبت اور رحمت ہے،عورت کا فرض اگر شوہر کی اطاعت ہے تو مرد کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے اختیارات کو اصلاح کے استعمال کرے نہ کہ زیادتی کے لیئے ۔ اسلام ایک ازدواجی تعلق کو اس وقت تک باقی رکھنا چاہتا ہے جب تک اس میں محبت کی شیرینی یا کم از کم رفاقتکا امکان باقی ہو،جہاں یہ امکان باقی نہ رہے وہاں وہ مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیتا ہے”۔
اس کے بعد بنیادی معاشرتی حقوق مثلاً رشتے داروں اور پڑوسیوں سے نیک سلوک کا ذکر کرتے ہوئے مختلف معاشرتی احکامات پہ مشتمل آیات بیان کی گئی ہیں۔
اسلام کا اقتصادی نظام
اس عنوان کے تحت انسان کی معاشی زندگی انصاف اور راستی پہ قائم رکھنے کے لیئے اسلام کے مقرر کردہ حدود اور اصول و ضوابط پہ گفتگو کی گئی ہے۔یہاں بھی مولانا مختلف نظاموں کا ذکر کرتے ہوئے اسلام کے معاشی نظام کی اہمیت اور برتری نہایت سہل انداز میں ثابت کی ہے، مولانا فرماتے ہیں
”فرد اور جماعت کے درمیان اسلام ایسا توازن قائم کرنا چاہتا ہے جس میں فرد کی شخصیت اور اس کی آزادی برقرار رہے اور اجتماعی مفاد کے لئے اس کی آزادی نقصان دہ بھی نہ ہو بلکہ لازمی طور پہ مفید ہو۔اسلام کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسند نہیں کرتا جو فرد کو جماعت میں گم کر دے اور اس کے لئے وہ آزادی باقی نی چھوڑے جو اس کی شخصیت کے صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہے۔
جس طرح اسلام ایسے نظام کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح وہ ایسے اجتماعی نظام کو بھی پسند نہیں کرتا جو افراد کو معاشرت اور معیشت میں بے لگام آزادی دیتا ہے اور انھیں کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ اپنی خواہشات اور اپنے مفاد جماعت کو جس طرح چاہیں نقصان پہنچائیں۔ان دو وں انتہاؤں کے درمیان اسلام نے جو متوسط راہ اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے فرد کو جماعت کی خاطر چند حدود اور ذمہ داریوں کا پابند بنایا جائے اور پھر اسے اپنے معاملات میں آزادانہ چھوڑ دیا جائے۔”
اس ضمن میں مولانا مزید کہتے ہیں کہ اسلام دولت کمانے کے ان تمام ذرائع کو ناجائز قرار دیتا ہے جن سے ایک شخص دوسرے۔ اشخاص کو یا معاشرے کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام انسانوں کے درمیان مصنوعی معاشی مساوات قائم کرنے حق میں نہیں ہے، اسلام رزق میں مساوات کا قائل نہیں بلکہ حصولِ رزق کے مواقع میں مساوات کا قائل ہے ۔اسلام سرمایہ داری نظام کے تمام ایسے طریقوں کی شدید مخالفت کرتا ہے جن کا استعمال کر کے موجودہ نظام میں لوگ کڑوڑ پتی بنتے ہیں۔اس عنوان کے ذیل میں وراثت کے احکام کے فوائد کا بھی تذکرہ ہے۔
اسلام کا روحانی نظام
اس عنوان کے تحت مولانا مودودی نے نہایت خوب صورتی سے دو انتہاؤں کا ذکر کرتے ہوئے اسلام کے روحانی نظام پہ روشنی ڈالی ہے، دنیا میں عام طور پہ روح اور جسم کو ایک دوسرے کا متضاد بلکہ مخالف قرار دیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے روح کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنے والا گروہ جسم کے حقوق کو یکسر نظر اندز کر دینے کا قائل ہے اور رہبانیت کا شکار ہو جاتا ہے ،جبکہ دوسری جانب روح کو نظر انداز کرتے ہوئے ، جسم ،اس کی خواہشات اور ضروریات کو مقصدِ زندگی بنانے والا گروہ ہے جو سراسر مادہ پرستی میں غرق ہو جاتا ہے، ان دونوں کے برعکس اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ روح دراصل دنیا میں اللہ کی نائب ہے جس کو نیابت کے فرائض سر انجام دینے کے لیئے جسم عطاء کیا گیا ہے۔
اس کے بعد مولانا نے مختصراً اسلام میں روحانی ارتقاء کے راستے کی نشاندہی کی ہے ، جس کا پہلا قدم ایمان، دوسرا اطاعت،تیسرا تقویٰ اور چوتھا احسان ہے۔
آخر میں مولانا نے اس بات کی وضاحت نہایت خوبصورتی سے کی ہے کہ نماز ،روزہ، زکوٰۃ اور حج دراصل اسلام کے روحانی نظام کے ارکان ہیں جو انسان کو روحانی طور پہ طاقتوربناتے ہوئے نیابت کے کارِ عظیم کے لیئے تیار کرتے ہیں۔کتنا خوش کن ہے ایک ایسے معاشرے کا تصور جس کی بنیاد مذکورہ بالا نظامِ حیات پہ ہو ،اور یہ صرف تصور ہی تو نہیں ان تمام خصوصیات سے متصف معاشر ہ اسی آسمان کے نیچے پوری شان کے ساتھ قائم بھی ہو چکا ہے اور دنیا آج تک اس کے ثمرات سے مستفید بھی ہو رہی ہے ۔
الغرض اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ، ایک ایسی کتاب ہے جس کا ہر تعلیمی ادارے ،ہر دارلمطالعے اور ہر گھر میں ہونا نہایت اہم ہے، آپ والدین ہیں ،استاد ہیں یا مدرس ہر صورت میں اس کتاب کا مطالعہ آپ کے لیئے فائدہ مند ثابت ہو گا، گھر میں تیرہ سال سے بڑے بچوں کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ نوجوان ہوتے بچوں سے متعلق آپ کے کئی مسائل کو جڑ سے ختم کر سکتا ہے،یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کے ساتھ آسان اور عام فہم الفاظ میں اس مواد کو پیش کرنا بھی نہایت موثر ثابت ہوا ہے۔ اللہ تعالی ٰ سے دعا ہے کہ عظیم کام کو سرانجام دینے والی عظیم شخصیت کے درجات بلند فرمائے اور انکی آرامگاہ کو نور سے بھر دے ۔