آج میری چھوٹی بیٹی حریم نے روزہ رکھا اورصبح سات بجے کے قریب اپنی والدہ سے کہنے لگی ’’ماما میں کچن میں ہوں، یہاں کوئی نہ آئے۔‘‘ جب خاصی دیر ہوگئی تو اس کی ماں نے چھپ کر دیکھا کہ آخر وہ کر کیا رہی ہے؟ معلوم ہوا حریم سحری کا بچا ہوا پراٹھا کھانے میں مصروف ہے۔
حریم کو کھاتے دیکھ کر اس کی ماں نے کہا: ’’ارے یہ کیا کررہی ہو! تمہارا تو روزہ ہے۔‘‘
بولی: ’’آپ یہاں سے جائیں، میں روزہ تازہ کررہی ہوں۔‘‘
’’اچھا اچھا کوئی بات نہیں، میرے سامنے ہی تازہ کرلو، کچھ اور بھی کھانے کو بنادوں؟‘‘ ماں نے کہا۔
’’نہیں نہیں، آپ جائیں، آپ کے سامنے کھاؤں گی تو روزہ ٹوٹ جائے گا‘‘۔ حریم نے معصومانہ انداز میں جواب دیا۔
یوں اس کا روزہ افطار تک کئی مرتبہ ’’تازہ‘‘ ہوتا رہا۔
حریم کی جانب سے دیے جانے والے اس فارمولے کی کسی کے نزدیک اہمیت ہو یا نہ ہو، لیکن روزہ خوروں کے لیے یہ کسی فتوے سے کم نہیں۔ میری بیٹی چونکہ ابھی چھوٹی ہے، اس لیے اس کے روزے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ اسے روزہ تازہ کرنے کی اجازت ہے۔ اس ساری بات میں اگرکچھ ہے تو وہ یہ کہ حریم کی باتوں نے مجھے میرے بچپن میں پہنچا دیا۔
مجھے یاد آنے لگے وہ رمضان جب میں روزہ رکھنے کی ضد کیا کرتا، اور امی ابو کے سمجھانے کے باوجود جب نہ مانتا تو مجھے چڑی روزہ رکھوا دیا جاتا۔ مجھے یاد ہے وہ انتہائی گرمیوں کے دن تھے، پہلا چڑی روزہ رکھتے ہی مجھے پیاس ستانے لگی اور میں بار بار گلی کی جانب جانے لگا۔ دھوپ میں گھر سے نکلتے دیکھ کر امی نے ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’اتنی شدید گرمی میں باہر کیا لینے جا رہے ہو! گھر میں رہو، لُو لگ جائے گی۔‘‘
میں نے امی سے کہا: ’’چڑیا تلاش کررہا ہوں، بہت پیاس لگی ہے، چڑیا نظر آجائے تو میرا روزہ کھل جائے۔‘‘ کیونکہ میرے نزدیک چڑی روزے کا مطلب چڑیا کو دیکھتے ہی روزہ کھولنا تھا، لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ شدید گرمی کی وجہ سے تمام پرندے اپنے گھونسلوں میں جا بیٹھے ہیں، اور گرمی میں بھلا وہ کیسے باہر نکل سکتے تھے! میری بڑھتی ہوئی بے چینی کو دیکھتے ہوئے امی نے سمجھایا: ’’چڑی روزے کا مطلب چڑیا کو دیکھ کر روزہ کھولنا نہیں، بلکہ چڑیا کی طرح کھاتے رہنا ہے۔ تم دیکھتے نہیں چڑیا کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ دانا چگنے لگتی ہے۔ تم بھی کھا لو، چڑی روزے میں اسی طرح کھایا پیا جاسکتا ہے‘‘۔ یوں مجھے چڑی روزے کا مفہوم سمجھ میں آیا۔
اُس زمانے میں تمام دوست ایک دوسرے سے پوچھتے تمہارا روزہ ہے؟ جواب میں شاید ہی کوئی ’’نہیں‘‘ کہتا۔ اگر کوئی دوسرے کوکھاتے پیتے دیکھ بھی لیتا تو کھانے والے کو یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانا پڑتی کہ میرا ایک داڑھ کا روزہ ہے۔ ایک داڑھ کے روزے میں جبڑے کے ایک جانب سے کھانا پینا جائز ہوتا۔
دن بھر اسی طرح کی سرگرمیوں کے بعد شام ہوتے ہی افطار کا وقت قریب آنے لگتا، یعنی عصر کی نماز کے بعد افطار کا سماں بندھنا شروع ہوجاتا۔ افطار کی تیاری کی وجہ سے یہ دن عام دنوں سے مختلف اور دلچسپ ہوتے تھے۔ سحری بھلے ہی نہ کی جائے، لیکن روزہ نہ ہونے کے باوجود افطاری گھر والوں کے ساتھ دسترخوان پر لازمی طور پر کی جاتی۔ خیر، عصر کی نماز کے بعد باورچی خانہ گرم ہونے لگتا، افطار کے لیے ساز و سامان کی تیاری ہوتی، والدہ اور بہنیں طرح طرح کے پکوان چھان کر ایک طرف رکھتیں، اور میں چپکے چپکے پیچھے سے کبھی گوشت کے سموسے، تو کبھی کچوری اور پکوڑے لے بھاگنے کی تاک میں رہتا، اور جیسے ہی موقع ہاتھ آتا عقاب کی طرح جھپٹا مارتا اور جب تک والدہ کی نظر مجھ پر پڑتی اور وہ ارے …ارے.. ارے.. رک… رک… رک کہتیں ، میں نو دو گیارہ ہو جاتا۔ وقت ِافطار تھوڑی تھوڑی چیزیں ایک پلیٹ میں کرکے ہمارے سامنے رکھ دی جاتیں۔ بڑوں کے ساتھ ہم بچے بھی اذان کا انتظار کررہے ہوتے، ہمارے چہرے سے محسوس ہوتا جیسے شدید بھوک اور پیاس سے جان نکل رہی ہو۔ ہم لوگ افطار کے انتظار میں بے چینی سے مسجد سے اٹھنے والی اذان کی آواز پر کان لگائے رہتے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اذان کی آواز پر ابو اپنے کان زیادہ کھڑے رکھتے، اور جیسے ہی مائیک پر موذن صاحب کے کھرکھرانے کی آواز آتی وہ فوراً کھجور ہاتھ میں اٹھا لیتے، ہم لوگ بھی انہیں دیکھ کر فوراً کھجور ہاتھوں میں لے کر مورچہ سنبھال لیتے، اور اذان ہوتے ہی ٹوٹ پڑتے۔ اُس وقت ہماری یہی کوشش ہوتی کہ جو عمدہ اور ذائقہ دار سامان ہے اُس پر پہلے ہاتھ صاف کیا جائے۔
اُس زمانے میں ہمارے گھر میں کئی بار افطار ہوتی تھی… نماز مغرب سے پہلے اور نماز کے بعد، یہاں تک کہ تراویح کے بعد بھی کچھ نہ کچھ کھانا پینا چلتا رہتا۔ تراویح سے یادآیا، ہم تمام دوست عشاء کی اذان سے پہلے ہی مسجد میں پہنچ جاتے۔ بعد نمازِ عشاء جب تراویح شروع ہوتی، پہلی رکعت میں رکوع میں جانے سے قبل ہم دوڑتے ہوئے تراویح میں شامل ہوتے۔ محلے کی مساجد کے ساتھ گلیوں میں بھی خاصی رونق ہوتی۔ رمضان کے آخری عشرے میں تو یہ رونق اپنے عروج پر ہوتی۔ طاق راتوں میں اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگی جاتی تھیں، یہی اللہ کا فرمان بھی ہے، یہاں تک کہ شہر کراچی کے بدترین حالات میں بھی مساجد نمازیوں سے بھری رہیں، یعنی مسجدوں کی رونقیں کسی صورت بھی کم نہ ہوسکیں۔
لیکن آج ایک طرف کورونا وائرس کے نام سے وجود میں آنے والی وبا نے مساجد پر بھی حملہ کرڈالا، اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے بنائے جانے والے ایس او پیز نے رمضان کے بابرکت مہینے میں سماجی فاصلے کے نام پر لوگوں کو مسجدوں سے دور کرنے کی ایسی پالیسی بنا ڈالی جس کو کوئی بھی پاکستانی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ حکمرانوں نے جو کچھ بھی کردیا ہے وہ اپنی جگہ، ہمیں صرف اتنا سوچنا چاہیے کہ ہماری زندگی میں یہ پہلا رمضان المبارک ہے جو لاک ڈائون اور معاشرتی فاصلے کی پابندیوں سے شروع ہوا ہے، ایسی صورت میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس مہینے میں محبت اور رواداری کے فروغ، اور درگزر سے کام لیں، ایسے لوگوں کا خاص خیال رکھیں جو گھروں میں بند ہونے کی وجہ سے مدد کے خاص مستحق ہیں، کیونکہ حکومتوں نے لاک ڈاؤن کردیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادات کا اہتمام کریں، کیوں کہ اس مہینے میں جو بھی نیک عمل اور بھلائی کے کام ہوں، ان کا ثواب دوسرے مہینوں سے زیادہ ہوتا ہے، خاص طور پر کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہمیں عبادات زیادہ سے زیادہ کرنی ہوں گی، اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر صدقِ دل سے دعائیں مانگنی ہوں گی تا کہ اس آفت سے جان چھڑائی جا سکے۔ رمضان برکتوں کا مہینہ ہے، رحمتوں کا مہینہ ہے، اس مہینے میں کی جانے والی دعائیں عرش پر سنی جاتی ہیں، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اللہ سے لو لگا کر کورونا وائرس سمیت تمام وباؤں کے خاتمے کے لیے دعائیں کریں۔