تنویر اللہ
موجودہ وباء کا شکار پوری دنیا ہو چکی ہے اور جب تک اس وائرس میں مبتلا ایک آدمی بھی اس کرہ ارض پر رہے گا وہ دنیا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
ابھی تک نہ اس مرض کا کوئی علاج دریافت ہوسکا ہے اور نہ ہی حفاظتی ویکسین بنائی جاسکی ہے، ماہرین کہتے ہیں کہ ویکسین بنانے میں ایک سال لگ سکتا ہے، ایک سال ویکسین کی تیاری میں لگے گا اس کے بعد اگر چوبیس گھنٹے مسلسل اسے دنیا بھر میں پہنچانے کا کام کیا جائے تو کم ازکم نو ماہ کا عرصہ لگے گا، لہٰذا اس کا علاج اور ویکسن دریافت ہونے تک ہمیں اس وائرس کے ساتھ رہنا پڑے گا۔
وزیراعظم مضبوط اعصاب کے مالک سمجھے جاتے ہیں لیکن موجودہ حالات کے سامنے وہ بھی بے بس نظر آرہے ہیں ویسے تو ساری دنیا بے بس ہے لیکن عمران خان نہ کسی اقدام اور انیشیٹو کا عندیہ دے رہے ہیں اور نہ ہی اس کی صلاحیت ان میں نظر آتی ہے اور نہ ہی ان کی جماعت میں یہ جوھر ہے کہ جو اس مشکل میں ان کا ساتھ دے اور رہنمائی کرے۔
اس وائرس کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے لہٰذا اس وبا سے لڑنے کا صیغہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
دو واقعات سنیے، پہلا تھائی لینڈ سے ایک جہاز وینٹیلٹر لے کر کسی یورپی ملک جارہا تھا اس جہاز پر امریکا نے زبردستی قبضہ کیا اور امریکا لے گیا اس کا کہنا یہ تھا کہ ہمیں ان وینٹیلٹرز کی زیادہ ضرورت ہے۔
دوسرا واقعہ ،ایک چمکادر نے پھلوںکے باغ میں سے ایک کیلے کا کچھ حصہ کھایا اور باقی پھنک دیا اسی باغ میں ایک گائے باغ میں داخل ہوئی اور چمکادر کا چھوڑا ہوا کیلا کھا گئی اگلے دن گائے کا گوشت کھا لیا گیا اس طرح کیلے کے ذریعے چمکادڑکا وائرس گائے کو منتقل ہوا اور گائے کے ذریعے اس کا گوشت کھانے والے انسانوں کو منتقل ہوا۔پہلے واقعے کو روکا جانا انسانی بس میں ہے لہٰذا اسے روکنا چاہیے اور یہی اللہ کو مطلوب ہے۔ جب کہ دوسرا واقعہ کو روکنا انسان کے بس میں نہیں ہے لہٰذا اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
موجودہ وبا کے سامنے تین راستے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔
پہلاکچھ بھی نہ کیا جائے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے جس کی قوت مدافعت وائرس سے جیت جائے گی وہ زندہ رہے گا اور جو کمزور ہوگا وہ ختم ہوجائے گا اس طرح کچھ عرصے بعد تندرست اور توانا لوگوں کے ساتھ دنیا کا کاروبار پھر سے شروع ہوجائے گا۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ سب کچھ بند کردیا جائے ملک میں سخت کرفیو نافذ کردیا جائے، پیداواری کارخانے بند کردئیے جائیں، بازار دکانیں بند کردی جائیں اور جب تک اس وائرس سے چھٹکارا نہ ملے اور اس کا علاج یا ویکسن نہ بنا لی جائے اس وقت تک ملک میں پتا بھی نہ ہلنے دیا جائے۔
تیسرا راستہ یہ ہے کہ اس وائرس کے ساتھ ہی گُزارہ کرنے کا طے کرلیا جائے اور اس کے طور طریقے، اصول و ضابطے متعین کرلیے جائیں۔
پہلا راستہ ہمارے دین کے خلاف ہے، اپنی اور دوسروں کی جان کی حفاظت اللہ نے ہم پر لازم کی ہے، دوسرا راستہ سب کچھ بند کردینے کا ہے یہ راستہ دنیا کے امیر ترین ممالک کے لیے بھی ناممکن ہے ان کے بڑے بڑے خزانے اور ترقی بھی مکمل بندش کی زیادہ عرصے تک متحمل نہیں ہے لہٰذا ہمارے لیے تو یہ ناممکن سے بھی آگے کی بات ہے۔
اب تیسرا راستہ ہی بچتا ہے کہ اس وائرس کے ساتھ ہی گُزارا کرنے کا طے کرلیا جائے، بحیثیت مسلمان مجھے یہ راستہ مناسب نظر آتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں نئے سماجی رویے، عادات، ضابطے اختیار کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے حکومتی سطح پر سنجیدہ سوچ بچار اور فیصلہ سازی کی ضرورت ہے، اس سوچ بچار میں حکومتی افراد کے ساتھ سوشل ورک، نفسیات، رفاہی کام کرنے والے، اننتظامی ماہرین کو بھی شامل کیا جائے۔
حکومت کو فوری طور پر سٹی گورنمنٹ تشکیل دینا چاہیے، حکومت اپنے ہر فیصلے کو بزور نافذ نہیں کرسکتی اُسے گلی محلے کی سطح پر عوام کو اپنے فیصلوں اور کاموں پر راضی کر نے کے لیے نچلی سطح پر نمائندوں کی ضرورت ہے جو سٹی گورنمنٹ سے پوری کی جا سکتی ہے۔
اداروں کی سطح پر یونینز، آرگنائزیشنز، بازاروں کی سطح پر تاجروں کی انجمنوں کو تشکیل اور فعال کرنا چاہیے، اس احتیاط کے ساتھ کہ یہ مافیا نہ بن جائیں ہماری ٹریڈ یونینز، کاروباری اور صنعتی اداروں کی نمائندہ باڈیز سہولت اور رہنمائی دینے کے بجائے اپنے غیر قانونی مطالبات اور ذاتی مفادات کے چکر میں پڑ جاتے ہیں لہٰذا اس برائی پر نظر رکھتے ہوئے اس شعبے کو فعال کرنا چاہیے۔
عرصہ پہلے پاکستان میں راشن بندی کا نظام قائم تھا وارڈ کی سطح پر راشن شاپ قائم تھے جہاں آٹا، چینی فی فرد کے حساب سے ملتا تھا کچھ عرصے کے لیے مٹی کا تیل اور گھی کی بھی راشن بندی کردی گئی تھی، ابھی تو اس کی ضرورت نہیں لیکن اس نظام کو نافذ کرنے کی تیاری رکھنی چاہیے تاکہ اگر خدانخواستہ اشیاء خورد و نوش کی کمی ہوجائے تو اسے حساب سے تقسیم کیا جاسکے، کھانا سب سے اہم ضرورت ہوتی ہے اس ضرورت کو ٹالا نہیں جاسکتا اور یہی ضرورت سب سے پہلے انتشار اور بدامنی کا سبب ہو سکتی ہے لہذا اس حوالے سے ترجیعاً منظم ہونے کی ضرورت ہے۔
انفرادی سطح پر ہمیں کورونا کے وجود کو تسلیم کرلینا چاہیے، اس سے انکار نقصان میں اضافے کا سبب ہوگا، بہت سی چیزیں ہمیںنظر نہیں آتیں بہت سی آوازیں سُنائی نہیں دیتیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا کوئی وجود نہیں ہے مثلاً جن ہمیں نظر نہیں آتے لیکن وہ موجود ہیں، ہوا ہمیں نظر نہیں آتی لیکن ہوا کے ہونے سے کون انکار کرسکتا ہے، اسی طرح کورونا وائرس خواہ ہمیں نظر یا نہ آئے اس کا موجود ہونا ثابت ہوچکا ہے۔
اس وائرس سے بچنے کے حفاظتی اقدامات کو ایمان کے منافی نہ سمجھیں، تدبیر اور تقدیر پر ہمیشہ مختلف آرا رہی ہیں لیکن تدبیر سے یکسر انکار کسی نے بھی نہیں کیا لہٰذا اپنی حفاظت کریں، آپس میں چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں، چہرے پر ماسک لگائیں، باربا صابن سے ہاتھ دھوئیں، گرم پانی پیئںاور غرارے کریں، ہاتھ نہ ملائیں، گلے نہ ملیں اور ایسا نہ کرنے پر برا نہ منائیں، کھانستے، چھنکتے وقت منہ کہنی میں چھپالیں ابھی تک اس کے علاوہ دنیا اس سے بچنے کا کوئی اور طریقہ دریافت نہیں کرسکی ہے۔
کورونا سے بچنے کی کوشش ضرور کریں لیکن اس کا خوف دل میں نہ بٹھائیں، خوف مشکل کو بڑھاتا ہے، خوف جسم اور ذہن دونوں پر منفی اثر ڈالتا ہے لہٰذا اپنے اوپر خوف طاری نہ کریں، دنیا چلانا اللہ کے لیے ہی ممکن ہے لہٰذا یہ کام اسی پر چھوڑدیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی دنیا کو اتنا آباد اور رنگین کرلیا ہے کہ اسے چھوڑنے کا خیال ہی ہمیں دھلا دیتا ہے اور آخرت ہمیں ویران اور پھیکی جگہ نظر آتی ہے۔
اس سوچ کو بدلنے کا ایک موقع ہمیں ملنے والا ہے، نیکوں کا موسم بہار رمضان المبارک آنے کو ہے اس موقع ہر اپنی آخرت کو آباد کرنے کی کوشش کریں، اچھے اعمال کے نتیجے میں اللہ نے اتنے نایاب، بڑے، قیمتی انعامات کا وعدہ کیا ہے ان پر اگر ہمیں واقعی یقین آجائے تو ہمارے اندر ان کو حاصل کرنے کا ایسا شوق پیدا ہوجائے گا جو ہر طرح کا خوف دور کر دے گا۔
حکومت کا کوئی بھی اقدام کارگر نہیں ہوسکتا جب تک ہم اپنی انفرادی زندگی میں تبدیلی نہیں لائیں ، ایک سوچ یہ ہوسکتی ہے کہ سب ٹھیک ہوجائیں تو میں بھی ٹھیک ہوجاوں گا دوسری سوچ یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی ٹھیک ہو یا نہ ہو میں ٹھیک ہوجاوں لہٰذا پہلی توجہ ہمیں اپنے اعمال پر دینی چاہیے، اپنے رویوں کو تبدیل کریں صرف خیرات دینے کو ثواب نہ سمجھیں حق دینے کی عادت بھی ڈالیں، ملاوٹ کو برائی سمجھیں، ذخیرہ اندوزی کو گناہ سمجھیں، رشتہ داروں کا حق ادا کریں، مدارس کو دینی مرکز بنائیں ناکہ انھیں فرقہ اریت کا منبع بنائیں۔
ہمت کریں اور فریج کو گھر سے نکال دیں چھنکے اور نعمت خانے کے دور کو یاد کریں بہت کم ہونے کے باوجود محلے پڑوس میں کھانا لینے دینے کا رواج تھا آج کھانے کی بہتات ہے لیکن فریج اس فراوانی کو کھا گیا ہے روزانہ بازار سے تازہ لائیں تازہ پکائیں تازہ کھائیں اس طریقے سے آپ کا دستر خوان آپ سے آپ وسیع ہوجائے گا اور یہ صحت کے لیے بھی اچھا ہوگا۔
آمدنی میں اضافے یا ضرورت سے زائد پیسے کو ذاتی تعیشات پر خرچ کے راستے ڈھونڈنے کے بجائے ضرورت مندوں کو اپنی اضافی دولت سے فیض پہنچائیں۔
اگرچہ کورونا سے امریکا اور یورپ زیادہ متاثر ہورہا ہے وہاں مریضوںاور مرنے والوں کی تعداد مسلمان ممالک سے زیادہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ ان کو سزا دے رہا ہے اور ہم پر مہربان ہے، خانہ کعبہ کے دروازے ہم پر بھی بند ہوگئے ہیں، طواف رکا ہوا ہے، روضہ رسول پر حاضری کی اجازت نہیں ہے، دنیا بھر کی مساجد کو تالے لگے ہوئے ہیں نماز جمعہ پڑھنا محال ہوگیا ہے، رمضان المبارک آنے کو کوئی پتہ نہیں کہ نمازوں کا کیا ہوگا، تراویح کا کیا بنے گا، لہٰذا امریکا اور یورپ مشکل پر مطمئن ہونے کے بجائے اپنی آخرت کی فکر کریں دوسروں کے لیے جنت جہنم کے فیصلے نہ کریں، مغرب کے گناہوں کو کھوجنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
ہم ہر واقعے میں سازش تلاش کرنے کے عادی ہوگئے ہیں موجودہ وبا کے پیچھے بھی ہم سازش تلاش کررہے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ ابھی کوئی بھی اتنا بڑا نہیں ہو کہ ساری دنیا کو اتنی آسانی سے متاثر کردے دوسرے ہر معاملے کوامریکا، چین، اسرائیل کی کارگزاری سمجھنے کا مطلب ہے کہ اللہ اپنی کائنات سے لاتعلق ہوچکا ہے اُس نے سارا اختیار ان ممالک کو دے دیا ہے اور وہ خود بے بسی سے تماشا دیکھ رہا ہے(نعوذباللہ) دنیا میں کوئی بھی کرے کچھ بھی کرے اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا جو ہورہا ہے اللہ کی مرضی سے ہی ہورہا ہے خواہ آلہ کار کوئی اور ہو۔
لہٰذا فلاں نے سازش کردی کی سوچ کو چھوڑیں اور اللہ سے رجوع کریں، ایسا ہونا بالکل ممکن ہے اللہ آسمان سے فرشتہ بھیج دے جو آکر اس وائرس سے کہے کہ چلو بس ان کے لیے ابھی اتنا ہی کافی ہے ، اور دینا پھر ویسی ہی ہو جائے جیسی اس وباء سے پہلے تھی۔