الخدمت فاؤنڈیشن وومن ونگ کی صدر کلثوم رانجھا سے گفتگو
ملاقات: فائزہ مشتاق
کہا جاتا ہے کہ انسانیت کی معراج بے لوث خدمت میں پنہاں ہے، کسی صلے کی توقع کے بغیر اپنے جیسے انسانوں کے کام آنا دردمندی کی علامت ہے۔ بحیثیت قوم ہم خدمت سے سرشار لوگ ہیں، یہی وجہ ہے کہ چاہے قدرتی آفات کی آزمائش ہو یا زکوٰۃ دینے کا معاملہ، ہم خدمت کے جذبے کے ساتھ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ مرحوم عبدالستار ایدھی ہمارے لیے فخریہ مثال ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان میں ایسے بہت سے ادارے ہیں جن کا مقصد لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن ویمن ونگ کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے جو اپنے تئیں بلا تفریقِ رنگ و نسل اور مذہب مخلوقِ خدا کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ خواتین پر مشتمل اس این جی او کی موجودہ صدر کلثوم رانجھا ہیں جو کہ اس مشن کو بہ حسن و خوبی چلا رہی ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اور ان کی ساتھی کارکن اپنے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ آج کورونا وائرس کی وبا میں بھی عوام کی مدد کے لیے الخدمت بھرپور انداز میں میدان میں ہے۔ ہم نے اس مشن کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ان سے گفتگو کی جو کہ سنڈے میگزین کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
…٭…
جسارت میگزین: سب سے پہلے یہ بتایئے کہ آپ کو اس عہدے پر فائز ہوئے کتنا عرصہ ہوا؟
کلثوم رانجھا: صدارت کے عہدے پر فائز ہوئے تقریباً ایک سال کا عرصہ ہوا۔ گزشتہ سال فروری میں صدارت سونپی گئی تھی، اس سے قبل میری جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری تھی۔
جسارت میگزین: آپ الخدمت فائونڈیشن سے کب متعارف ہوئیں؟
کلثوم رانجھا: ویسے تو جماعت اسلامی کی وجہ سے الخدمت فائونڈیشن سے تعارف تھا، لیکن باقاعدہ اس تنظیم کی رکن 2015ء میں بنی، اور الحمدللہ وقت کے ساتھ یہ رشتہ مزید مضبوط ہورہا ہے۔
جسارت میگزین: الخدمت خواتین کا سسٹم کیا ہے؟ تنظیم کیسے چلتی ہے؟
کلثوم رانجھا: الخدمت خواتین کا سسٹم ریجنل اور ضلعی پر مبنی ہے۔ یہ ادارہ 1973ء سے بطور رجسٹرڈ این جی او کام کررہا ہے۔ تنظیم کی ملک بھر میں پھیلی خواتین رضاکار مکمل دیانت کے ساتھ اس تنظیم کو چلا رہی ہیں اور ضرورت مند لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔
جسارت میگزین: الخدمت فائونڈیشن خواتین بنیادی طور پر کن پراجیکٹ پر کام کررہی ہے؟ اس کے وجود میں لانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
کلثوم رانجھا: جگہ جگہ انسانیت تڑپ رہی ہے، مدد کو پکار رہی ہے، بس ضرورت ہے تو اس سماعت اور بینائی کی جو مظلوموں کی آہ سن بھی سکے اور دیکھ بھی سکے۔ الخدمت فائونڈیشن ان کے زخموں کا پھاہا بننے کی کوشش کررہی ہے، علاوہ ازیں خواتین میں جذبۂ انسانیت بیدار کرنا بھی ہمارا اوّلین مقصد ہے۔ الخدمت بنیادی طور پر 12 پراجیکٹ پر کام کررہی ہے اور مزید پراجیکٹ بھی شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ فی الحال ہمارے خدمتی ایریاز میں عورت اور بچے کی بنیادی ضروریات کی فراہمی، موسم سرما میں ونٹر پیکیج، رمضان اور راشن پیکیج کے ذریعے سماجی خدمات، چار دیواری کے تحفظ سے محروم عورت اور باپ کے سائے سے محروم بچوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرنے اور پسماندہ خاندانوںکو مستحکم خاندان بنانے کے لیے ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں، کیوں کہ الخدمت ’’مضبوط عورت، مستحکم خاندان، مستحکم معاشرہ اور مستحکم قوم‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔
الخدمت معاشی مسائل کے پیش نظر غریب اور پریشان حال افراد کے لیے ’’مواخات‘‘پروگرام چلا رہی ہے جس کے تحت محنت کشوں کو سود سے پاک اور اسلامی طریقۂ کار کے ذریعے قرض دیا جاتا ہے۔ الخدمت ’’کفالتِ یتامیٰ‘‘ پروگرام کے ذریعے یتیم بچوں کی اُن کے گھروں پر کفالت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں ’’آغوش‘‘ کے نام سے یتیم خانے قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ صاف پانی کی فراہمی کے لیے بھی الخدمت کوشاں ہے جس کے تحت شہری اور دور دراز علاقوں میں ہینڈ پمپ کی تنصیب، کنووں کی کھدائی، فلٹریشن پلانٹس اور پانی کی دیگر اسکیموں پر کام کررہی ہے۔ الخدمت صحت کے شعبے میں بھی آگے آگے ہے۔ پاکستان بھر میں ڈائیگنوسٹک سینٹر اور الخدمت بلڈ بینک قائم کیے گئے ہیں، اسپتال اور ایمبولینس کی سہولت کو بھی مزید مؤثر بنایا جارہا ہے۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی ’’تعلیم بالغاں‘‘ اور فری ٹیوشن سینٹروں کے ساتھ ساتھ ماہانہ وظائف، تربیتی لیکچرز اور ناظرہ تفسیر القرآن سینٹر بھی میسر ہیں۔
الخدمت شیلٹر ہوم، کلاتھ بینک اور آسان نکاح جیسے پراجیکٹ کے ذریعے معاشرتی مسائل کی شکار خواتین کے نکاح کو آسان اور دولہا دلہن کے عروسی لباس کی فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے۔
جسارت میگزین: ملک بھر میں اب تک الخدمت فائونڈیشن خواتین کی کتنی شاخیں قائم ہیں؟ اورکیا یہ صرف شہروں تک ہیں یا دیہات میں بھی خدمات کے کام جاری ہیں؟
کلثوم رانجھا: ہم نے اب تک اس سسٹم کو 10 ریجن کے 56 اضلاع میں پھیلایا ہے۔ الحمدللہ ہمارا نیٹ ورک شہروں میں وسیع ہے، تقریباً 80 فیصد شہروں تک رسائی ہو چکی ہے۔ البتہ دیہات میں خدمت کے کاموں کو مزید وسعت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ فی الحال الخدمت فائونڈیشن 20 فیصد دیہات تک پہنچ چکی ہے۔
جسارت میگزین: بطور این جی او اس تنظیم کا موازنہ دیگر این جی اوز سے کس طرح کریں گی؟
کلثوم رانجھا: الخدمت فائونڈیشن ISO سے سند یافتہ ایسی تنظیم ہے جس پر ڈونر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہماری این جی او مقصدِ زندگی اور اخلاقی اقدار سے متعلق آگاہی کے ساتھ ساتھ بلا تفریقِ رنگ و نسل اور مذہب انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ شفاف مالیاتی نظام کے باعث بہتر انداز میں دکھی نفوس کی بنیادی ضروریات اور فلاح و بہبود ممکن بنانے میں کوشاں ہے۔ دیگر این جی اوز کے مقابلے میں ہمارے رضا کاروں کا ملک بھر میں بہترین نیٹ ورک موجود ہے جو ہمہ وقت بغیر کسی رکاوٹ کے خدمت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
جسارت میگزین: اخراجات کی مد میں رقم کا حصول کیسے ممکن ہوتا ہے؟
کلثوم رانجھا: اس ضمن میں دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے فنڈ ریزنگ کی جاتی ہے۔ فنڈنگ کا بڑا انحصار انفرادی ڈونرز اور چھوٹی سطح پر ڈونر کانفرنس کے انعقاد پر کیا جارہا ہے۔ الحمدللہ پاکستانی قوم دردِ دل اور جذبہ رکھتی ہے۔
جسارت میگزین: مطالعے کا شوق ہے؟ کیسی کتابیں پسند ہیں؟
کلثوم رانجھا: مطالعے کا شوق پہلے کچھ زیادہ نہیں تھا، بچپن میں بہت شرارتی ہوا کرتی تھی تو پڑھنے سے کوئی خاص لگائو نہیں تھا، لیکن اب کتابوں میں دل چسپی بڑھ گئی ہے۔ سیرت النبیؐ اور اسلامی لٹریچر زیادہ شوق سے پڑھتی ہوں۔
جسارت میگزین: پسندیدہ کتاب کون سی ہے؟ کوئی اقتباس جو یاد رہ گیا ہو؟
کلثوم رانجھا: میری پسندیدہ کتابیں تو بہت سی ہیں مگر ’’کامیابی کی شرائط‘‘ مجھے بہت اچھی لگی، جسے میں کئی بار پڑھ چکی ہوں۔ کافی اقتباسات ہیں جو ذہن کے دریچوں میں رہ گئے، جیسے ’’اپنی سوچ پر کڑی نگاہ رکھو، جو تمہارا عمل بناتا ہے، تمہارا کردار بنتا ہے اور تمہارا کردار اخروی انجام متعین کرتا ہے۔‘‘
جسارت میگزین: تنظیم کے کاموں کے سلسلے میں اکثر سفر میں رہتی ہیں، کیا گھر اور تنظیم کے درمیان انصاف قائم رہتا ہے؟
کلثوم رانجھا: ممکنہ حد تک کوشش کرتی ہوں۔ اصول یہی پیش نظر رہا کہ جہاں جب جتنی ضرورت ہو، اسے توجہ دی جائے۔ کبھی تنظیم کی مصروفیت زیادہ ہو تو ادھر توجہ زیادہ ہوجاتی ہے، اور جب گھر معمول سے ہٹ کر توجہ مانگے تو اسے وقت دیا جاتا ہے۔ الحمدللہ کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
جسارت میگزین: تنظیم کے سلسلے میں حکومتی اور عوامی سطح پر کن مسائل کا سامنا رہا؟
کلثوم رانجھا: حکومت کی جانب سے روز بہ روز بڑھتی مہنگائی ہمارے لیے بھی مسائل کا پیش خیمہ ہے۔ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر ہمارے ساتھ تعاون کا فقدان ہے۔ جو لوگ روز جیتے اور روز مرتے ہیں محض بنیادی سہولیات سے محرومی کی وجہ سے، وہ ایک امید سے اس تنظیم کی جانب دیکھتے ہیں، اور جب مستحق درخواست لے کر آتے ہیں، اور فنڈز کی کمی یا مستحقین کی زیادہ تعداد کے باعث حسب ِضرورت مدد نہ کی جائے تو دل بہت دُکھتا ہے۔ صاحبِِ استطاعت طبقے سے درخواست ہے کہ دل تھوڑا بڑا کریں۔
جسارت میگزین: تنظیم سے جڑنے سے پہلے اور بعد کی کلثوم رانجھا میں کیا فرق ہے؟
کلثوم رانجھا: تنظیم سے منسلک ہونے سے قبل میں ایک وڈیرہ خاندان کی روایتی خاتون تھی۔ وقت، مال اور صلاحیتوںکا بے جا استعمال بے دھڑک ہوتا تھا۔ لیکن اب تنظیم سے جڑنے کے بعد زندگی کا شعور ملا۔ حاصل شدہ نعمتوں کا صحیح استعمال ہونے لگا۔ سب سے بڑھ کر سکونِ قلب نصیب ہوا۔
جسارت میگزین: جو خواتین اس تنظیم سے جڑنے کی خواہش مند ہیں اُن کے لیے کیا شرائط ہیں؟
کلثوم رانجھا: شرط ہے بھی اور نہیں بھی۔ مطلب یہ کہ ’’دردِ دل‘‘ رکھنے والی خواتین ہی اس کا حصہ بننے میں خوشی محسوس کریں گی۔ یوں سمجھیں کہ رب کی رضا کے لیے اپنی دل چسپی کے شعبے میں آگے بڑھنا ہے، ذاتی فائدے یا نام ونمود کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف زندگی کے ہر لمحے سے رس نچوڑنے کی خواہش مند خواتین ہی یہاں خود کو فٹ سمجھیں گی۔
جسارت میگزین: مستقبل میں آنے والے پراجیکٹس کے بارے میں بتائیں؟
کلثوم رانجھا: ہم تعلیمی ادارہ جات میں نوجوان نسل کی والنٹیئرز رجسٹر کرنے کا آغاز کرچکے ہیں۔ پاکستانی قوم کا سرمایہ ہماری نسلِ نو ہے۔ مستقبل میں ہم الخدمت ویمن کلب کی برانچیں بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ مخیر اور باصلاحیت خواتین ڈاکٹر، ٹیچر، بزنس ویمن جو وسیع دائرۂ اثر رکھتی ہیں انہیں الخدمت سے منسلک کیا جاسکے۔ الخدمت کمیونٹی سینٹر 69 کی تعداد میں قائم ہوچکے ہیں، اس پراجیکٹ کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔ اسی طرح خدمت پراجیکٹس کو مزید بہتر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
جسارت میگزین: لوگوں کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
کلثوم رانجھا: میں پاکستان کی عظیم قوم سے درخواست کرتی ہوں کہ آگے بڑھیے، دکھی انسانیت آپ کی مدد کی منتظر ہے، اور بے لوث، بے باک قیادت اور محنتی، انتھک رضا کاروں کے دھارے میں شامل ہو جائیں۔
جسارت میگزین: اپنا قیمتی وقت دینے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔