عمران خان صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کی انتظامی بیماریوں کی اگر تشخیص کی جائے تو صرف ایک ہی وائرس ’’کرونا‘‘ کی طرح پوری حکومت کے انتظامی اور فیصلہ سازی کے ڈھانچے پر قابض نظر آتا ہے اور اس وائرس کا طریقہ واردات بالکل ویسا ہی ہے جیسا انسانی جسم پر حملہ آور کسی بھی وائرس کا ہوتا ہے۔ خان صاحب کی انتظامی بیماری کی وجہ ’’بیرون ملک آباد ماہرین‘‘ کا وائرس ہے۔ اس وقت پاکستان کی ساری حکومتی مشینری پر ایسے افراد قابض ہیں جو پاکستان میں زندگی گزارنے، یہاں کے سرد گرم موسم برداشت کرنے، عوام کے مزاج کو سمجھنے، اور یہاں کی غربت و افلاس اور بیماری سے لڑنے کا معمولی سا تجربہ بھی نہیں رکھتے۔ جس طرح وائرس بذات خود کوئی زندہ چیز نہیں ہوتی مگر یہ انسانی جسم میں ایک ’’گُھس بیٹھیے‘‘ کی طرح داخل ہو کر اس کے جینیاتی نظام کو ہائی جیک کرکے اسے اپنی مرضی کی ہدایات دینا شروع کر دیتا ہے اسی طرح یہ لوگ بھی پاکستانی انتظامیہ کو ہائی جیک کر چکے ہیں۔ ان ’’بیرون ملک آباد ماہرین‘‘ میں دو طرح کے لوگ شامل ہیں۔ ایک وہ عام پاکستانی جوگذشتہ کئی دہائیوں سے مغربی ممالک میں آباد ہیں اور وہاں اس نے اتنی دولت حاصل کر لی ہے کہ تحریک انصاف سمیت ہر پارٹی کو ڈھیر سارا چندہ دے سکے۔ یہ پاکستان میں اثر و رسوخ کے بھوکے ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی ’’زنبیل‘‘ میں پاکستان کی تقدیر بدلنے کا کوئی نہ کوئی فارمولا موجود ہوتا ہے۔ یہ کسی بیرون ملک سرمایہ دار کی طرح پاکستان میں چند دن گزارنے آتے ہیں، ملک کے حالات پر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں، حکومتی مشینری کو گالیاں دیتے ہیں اور پھر سرمایہ کمانے واپس اپنے ’’خوبصورت مغربی ملک‘‘ چلے جاتے ہیں۔ دوسری قسم ان ماہرین کی ہے جن کی اکثر زندگی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ اورورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، جیسی تنظیموں کی نوکری میں گزری ہوتی ہے۔ ان کی تعلیم بھی مغربی یونیورسٹیوں کی ہوتی ہے۔ ان کا پاکستان کے ماحول پر تبصرہ بالکل اس گورے کی طرح ہوتا ہے جو مچھر، مکھی، گندے نالے کی بدبو اور ٹریفک کے بے ہنگم شور کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتا ہے اور اس پسماندہ ملک کی تبدیلی کے نسخے پیش کرتا ہے۔ بیرون ملک مقیم مال دار پاکستانیوں اور عالمی اداروں کے تنخواہ دار ماہرین کا یہ مشترکہ حملہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ عمران خان حکومت میں ہواہے۔وجہ یہ ہے کہ عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جو رہنمائی، مدد اور حمایت کے لیے بیرون ملک پاکستانیوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت وزیراعظم ہاؤس پر ایسے ہی لوگوں کے وائرس کا غاصبانہ قبضہ ہے جو پاکستان کے مسائل کا حل عالمی ڈکشنری کی اصطلاحات میں ڈھونڈتے ہیں۔ انہیں ملائیشیا، سنگاپور، کوریا جیسے ملکوں کے تجربات ازبر ہوتے ہیں لیکن یہ پاکستان کے عوام کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ان لوگوں کو عالمی زبان میں ’’بریف کیس ماہرین‘‘کہا جاتا ہے یہ اپنے ہی آبائی ملک میں بریف کیس کے ساتھ جاتے ہیں،اپنے خیالات یا ایجنڈے پر مبنی مشورے دیتے ہیں، اور اگر ان مشوروں کے نتیجے میں ملک کی معیشت، معاشرت اور انتظامیہ تباہ ہو جائے تو کپڑے جھاڑ کر اپنا بریف کیس اٹھاتے ہیں اورلندن یا امریکہ واپس جاکر کوئی اپنا کاروبار سنبھال لیتا ہے اور کوئی کسی سابقہ عالمی ادار ے میں واپس ملازمت اختیار کر لیتا ہے۔ عمران خان صاحب کی حکومت میں معیشت، صحت، تعلیم، یہاں تک کہ انتظامی مشینری کے ذمہ داروں میں ایسے لوگ ہیں جو پاکستان ایک بریف کیس کے ساتھ آتے تھے اورناکامی پر جوابدہی کے بغیر ایک اسی بریف کیس کے ساتھ واپس چلے جائیں گے۔ان ’’بیرون ملک آباد ماہرین‘‘ نے اب پاکستان کے انتظامی دماغ پر وائرس کی طرح قبضہ کر لیا ہے۔ اس بات کا مکمل احساس مجھے عمران خان صاحب کی گذشتہ روز کی صحافیوں سے گفتگو سے ہوا۔مجھے وہ ایک ایسے وزیراعظم نظر آئے جو زمینی حقائق سے کٹ چکا ہے۔جب وہ کرفیو، لاک ڈاؤن اور دیگرمعاملات کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ پاکستان کا منتخب وزیراعظم نہیں بلکہ ساری زندگی یورپ میں گزار کر اچانک پاکستان آنے والا کوئی شخص بول رہا ہے جسے مشیروں نے جیسی تیسی بریفنگ دی ہے وہ اس پر ڈٹ چکا ہے۔انتظامیہ دراصل اس مہارت سے جنم لیتی جو کسی ملک کے عوام کی عادات و خصائل، رسم و رواج اور معیشت و معاشرت کے گہرے مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خان صاحب کو کسی ’’جاہل‘‘ اور پاکستان کے حالات سے ناآشنا ’’مشیر خاص‘‘ نے پریس کانفرنس سے پہلے یہ سمجھا کر بھیجا ہو گا کہ کرفیو تو وہ ہوتا ہے جس میں فوج بلائی جاتی ہے، سب کچھ بند ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی بیوروکریسی میں ایک مستقل خرابی آچکی ہے کہ وہ وہی کچھ بیان کرتی ہے جو حکمران یا ان کے مشیر سننا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کو کسی نے بھی تفصیل سے یہ نہیں بتایا ہوگا کہ کرفیو دراصل ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت لگایا جاتا ہے اور اس کو قابل سزا جرم قرار دینے کے لیے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت تحریر کی گئی ہے۔ یہ قدم اس لیے اٹھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی تجربہ کارانتظامیہ یہ جانتی ہے کہ عوام رضاکارانہ طور پر ان کی بات مان کر گھروں میں نہیں بیٹھیں گے۔ جلوس نکالیں گے، جلاؤ گھیراؤ کریں گیاور انسانی جان خطرے میں آجائے گی۔ کرفیو کے بارے میں کوئی طریقِ کار واضح نہیں ہوتابلکہ انتظامی سربراہ لوگوں کی سہولت اور حالات کی نوعیت دیکھ کر کرفیو کے قواعدو ضوابط مرتب کرتا ہے۔ زندگی کو معمول پر رکھنے کے لیے صحت کے شعبے، صفائی کے شعبے، سکیورٹی کارکن، صحافی، اخباروں کے ہاکر، ایمبولینس والے، یہاں تک کہ دودھ اوردیگر اشیاء دینے والوں کے لیے کرفیو پاس جاری کیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی نقل وحمل کو کنٹرول کیا جاسکے۔ خان صاحب کو ایسے ہی ’’بیرونی ماہرین‘‘ نے خوب ڈرایا کہ کرفیو لگا تولوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ میں نے اپنی زندگی میں دو دفعہ کرفیو لگایا، ایک دفعہ 1988 ء میں کوئٹہ میں پشتون بلوچ فسادات پر اور دوسری دفعہ 1992ء میں بابری مسجد سانحہ کے بعد ہندؤوں پر حملے کے دوران مستونگ میں۔ دونوں کا طریق کاراور قواعدوضوابط کو عوام کی سہولت کے مطابق بنایا گیاتھا۔ انتظامیہ جب کرفیو لگاتی ہے تو اس کے پاس لاتعداد سرکاری ملازمین اسے فارغ مل جاتے ہیں جن کی ٹیمیں بناکر علاقوں میں امداد اور خوراک کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ تھانے کی نفری، پٹوار خا نے، یونین کونسل، سول ڈیفنس کا عملہ، ٹریفک کے سارجنٹ، فوج کے ریزرو افراد، سکولوں کے اساتذہ۔ یہ اتنی بڑی تعدادہوتی ہے جن کی ٹیمیں بنائی جاتی ہیں، جو لوگوں تک خوراک ادویات اور دیگر اشیاء فراہم کرتی ہیں۔ پتہ نہیں کس نے خان صاحب کو کرفیو کی خوفناک تصویر دکھائی ہے۔ پاکستان میں تقریبا ہر سو گھروں پر ایک مسجد موجود ہوتی ہے جسے مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ یہ سب کام اتنا آسان ہے کہ جب کبھی بھی کرفیو لگایا گیا انتظامی مشینری نے چوبیس گھنٹے میں اسے آسانی سے طے کر لیا۔ آج کے مخصوص حالات میں چونکہ بازار کھولنا خطرناک ہے، اس لیے اگر کرفیو لگایا گیا تو پورے ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ آپ کے پاس ہوگی، آپ جیسے الیکشن میں گاڑیاں پکڑتے ہیں، ایسے ہی گاڑیاں کرائے پر حاصل کرکے تمام بڑے بڑے سٹوروں کا ایک نیٹ ورک بنا سکتے ہیں،جو گھر گھر سپلائی دے اور غریبوں تک راشن بھی اسی نیٹ ورک سے پہنچایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سب تدابیر تو خان صاحب کو وہ بتائے جس نے کبھی اس ملک میں زندگی گزاری ہو۔ جس نے یہاں کرفیولگتے دیکھا ہو۔ حالت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی بیوروکریسی کے دماغی خلیوں پر اس ’’بیرون ملک آباد ماہرین‘‘ کے وائرس نے قبضہ کر رکھا ہے اور بیوروکریسی کو یہ ہدایات روز ملتی ہیں کہ دیکھو وزیراعظم یہ کچھ سننا چاہتے ہیں، اس لیے اپنی بریفنگ میں انہیں ایسا ہی بتاؤ اور دکھاؤ۔ پاکستان کی انتظامی مشینری میں اس وائرس کے حملے کی علامات تو کافی عرصے نظر آرہی تھیں، لیکن گذشتہ روز کی پریس کانفرنس نے ثابت کردیا ہے کہ اگر عمران خان حکومت نے’’بیرون ملک آباد ماہرین‘‘ سے نجات حاصل نہ کی اور ان سے تخلیہ یعنی’’ـــQuarantineـ‘‘ ــاختیار نہ کی، یہ خطرناک وائرس حکومت کو موت نہ بھی دے سکے، مفلوج ضرور کر دے گا۔