توقیر تقی کا شاعرانہ تفاوت

1138

سلمان ثروت
اہم شاعری بحیثیت مجموعی ایک کل کانام ہے۔جس کی اساس ایک مسئلہ پر قائم ہوتی ہے۔یہ مسئلہ، جسے شاعری کا محرک بھی کہاجاسکتاہے، فکر اور احساس کے باہمی تعلق اورتصادم سے جنم لیتا ہے ۔ پھر نقطہِ نظر اور طرزِ خیال میں ڈھلتا ہوا ایک مکمل نظریے کی صورت اختیار کرتے ہوئے شاعری کامحور بن جاتا ہے۔ شاعر مسلسل اس محور کے گرد طواف کرتا ہے، دورانِ طواف شاعرکی اُس مسئلہ پر کئی زاویوں سے نظر پڑتی ہے ،جنہیں وہ اپنے اظہار میں لاتا ہے اور شاعری اس مسئلے کی ایک مجسم تصویر بنتی چلی جاتی ہے۔سوچ،اظہار،رویے سبھی کچھ اُس شعری محرک کی جھلک معلوم ہوتے ہیں یا یوں کہیے کہ ہر چیز اس کے تابع ہوجاتی ہے۔اِس عمل سے ایک خاص شعری فضا جنم لیتی ہے جو اس شاعر کی وجۂ شناخت بنتی ہے۔ شعری محرک ناصرف اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کیا کہنا ہے بلکہ بات کس طرح کہنی ہے یہ بھی اُسی پرمنحصر ہے ۔محرک اپنی لفظیات ،علامات اورتلازمات یہاں تک کہ ہیئت بھی غیر محسوس انداز میں شاعر کو ودیعت کرتا ہے۔ علامہ اقبال ہی کو لیجئے ،مسلم امہ کو آئینہ دکھانا اور رہنمائی کرنا اُن کا شعری مسئلہ تھا، اُن کے سخن میںوہی لفظیات اور تلازمات لا شعوری طورپر در آئے جواُمت کی روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے کے لیے ضروری تھے۔ فیض ترقی پسند تھے اُن کی شاعری کی علامات اُن کے نظریات پر دال ہیں۔لفظیات میں ہمہ گیریت اور طرزِ اظہارکی پختگی شاعر کے مسئلہ کو قاری کامسئلہ بناتے ہوئے آفاقیت عطا کرتے ہیں۔اہم شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ لفظیات اور طرزِ اظہار روایت سے جداگانہ ہونے کے باوجود شعری روایت کا حصّہ بنتے ہیں اور شعری کل سے جڑ جاتے ہیں ۔ اب آپ نام گنتے جائیے مسئلہ تلاش کیجیے اور لفظیات یا تلازمات کا مشا ہدہ کیجیے۔ آپ کو مسئلہ کی نوعیت اور طرزِ اظہار میں ایک گہرا ربط نظر آئے گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس شاعری کو اہم شاعری کہناقدرِمشکل امر ہوگا ۔
یہ مضمون میں جس شاعر کے حوالے سے لکھ رہا ہوں، اس کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ اُس کی شاعری اس مضمون کی تمہید کو رد کرتی اورمجھے اپنا مقدمہ کم زور پڑتا نظر آرہا ہے ۔کچھ عرصہ پہلے توقیر تقی کا پہلا شعری مجموعہ ’’انالعشق‘‘ منظرِعام پرآیا ۔ جو کم وبیش ساٹھ غزلوں پر مشتمل ہے۔تو قیر کراچی کے جواں عمر شعرا میں ایک معتبر نام ہے۔ یہ کتاب تو قیر کے شعر ی سفر کا پہلا پڑائو ہے ابھی اک جہاں اس کے سامنے ہے۔’’انالعشق‘‘ کی آواز کان میں پڑتے ہی ذہن ایک خاص سمت میں جانے لگتا ہے،انالحق کا نعرہ لاشعور میں بلند ہوتا ہے، پھر سرورق اس سمت کی تصدیق کرتا ہے کہ ہو نہ ہو بات عشقِ حقیقی پر ہوگی، صوفیا نہ طرزِاظہار ملے گا۔وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے مضامین باندھے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اِس کتاب میںتو ایسا کچھ نہیں۔ ہمارے یہ اندازے اور امیدیں ہماری اسٹیریوٹائپنگ کا نتیجہ ہیں اِس میں شاعر کا کیا قصور،شاعر نے تو ایک کلیشے توڑا ہے اور ’’انالعشق‘‘ کہہ کر اظہار کو نیا رُخ دیا ہے۔
چلیے توقیر کی شاعری ایک نیوٹرل انداز میں پڑھتے ہیں یعنی عنوانِ بیاض اوراُس سے پید اکردہ تاثر کو بالائے طاق رکھ کر تو قیر کے شعری مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے میں اُس موضوع کو زیرِ بحث لائوں گا جس کی کثرت تو قیر کی شاعری میں تو ضرور ہے مگر ایک چھپے انداز میں، یہ موضوع ہے سماج ، سماجی نا ہمواری اور زمانے کا جبر۔ اِس حوالے سے چند اشعار پیش ِخدمت ہیں:۔

سادہ سے لوگ ہیں کیادوش ہمارا صاحب
کفرہم صورتِ اسلام نکل آیا ہے
عرصۂ ہستی میں جب بے چہرگی ناپید تھی
سب کی اپنی صورتیں تھیں سب کے اپنے رنگ تھے
ہوتا تو کسی طور یہ کشکول نہ بنتی
دستار جہاں تھی وہاں سر کوئی نہیں تھا

درجِ بالا تین اشعار میں تو قیر بڑی خوبصورتی سے معا شرے کی تلخ حقیقتیں پیش کرتا ہے کہ انسان انسان کو فریب دے رہا ہے جو اس کا منصب نہیں ، انسان انسان سے فریب کھا رہا ہے جو اس کے شا یا نِ شان نہیں۔ تو قیر کا کمال یہ ہے کہ تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے بھی اس کا لہجہ تلخ نہیں ہوتا ۔وہ ایسی لفظیات سے گر یز کرتا ہے جو ہمارے شعور پر سنگ باری کریں۔توقیر دنیا سے شکوہ بھی کرتا ہے تو بڑے سلیقے سے:۔

دھوپ تو کمروں کے اندر بھی چلی آتی ہے
چھائوں لیکن مرے دالان سے باہر ہے جو ہے
بدن میں روح کی تر سیل کرنے والے لوگ
بد ل گئے مجھے تبدیل کرنے والے لوگ

تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے تلخ نہ ہونا اور معاملے کی سنگینی قاری تک پورے تاثر سے ساتھ پہچا دینا یہ توقیر کے شاعرانہ تفاوت کی پہلی جھلک ہے۔توقیر کی شاعری میں کہیں کہیں فلسفیانہ رنگ بھی نمودار ہوتا ہے لیکن وہ فلسفے کی گاڑھی زبان استعمال کیے بغیر بڑی سہولت سے پیچپدہ موضوعات کو اپنے اظہار میں لاتا ہے۔ مثال کے طورپر:۔

نظر کے سامنے کس نے کہا کہ راہ نہ تھی
ہم آنکھ رکھتے تھے لیکن کہیں نگاہ نہ تھی

یہ شعر فلسفے کی ایک شاخ Epistemologyکے حوالے سے Empiricism پر دال ہے۔ اسی نوعیت کا ایک شعر اور :۔

ابدتلک کے مناظر سمیٹ لیتے ہیں
ذراسی آنکھ کو زنبیل کرنے والے لوگ

Theology کے حوالے سے ایک شعر ملا حضہ کریں۔

خدا ہو،خوا ب ہو،وعدہ ہوآرزو ہوکہ دل
میں سب کو دیکھتا ہوںٹوٹتے ارادے سے

یہ شعرجبروقدرکے موضوع کو زیرِ بحث لاتا ہے۔اکثر شعرا فلسفے اور علم الکلام کے موضوعات زیرِبحث لاتے ہوئے شاعری کو فلسفہ بنادیتے ہیں توقیرگو اِن موضوعات کی طرف کم کم جاتا ہے مگر وہ شاعری کو فلسفہ نہیں فلسفے کو شاعری بناتا ہے۔

کڑے تنائو میں رہنے لگی ہے وقت کی ڈور
اِدھر یقین ، اُدھرسے گمان کھیچتاہے
یا مجھے قیدِ عناصر سے نکال
یا مری خاک کو پستی سے اٹھا

تو قیر کی شاعری جد ید ت اور روایت کا ایک حسین امتزاج ہے اور یہ اُس کے شاعر انہ تفاوت کی تیسری کڑی ہے ۔اسی کے حوالے سے چند اشعار پیش ِخدمت ہیں:۔

کُرتے کا کلف نُطق میںآیا تو نہیں تھا
توقیر کے لہجے میں رعونت تو نہیں تھی
روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں
اَشک بچوںکی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں
جیب ِدل میں کئی نقرئی یا دیں ہیں
غم خریدیں تو قیمت پہ مت جائیے

یہ اورایسے کئی اشعار پڑھنے پرتازگیٔ اسلوب کا احساس ہوتاہے۔لیکن تو قیر جدت برتنے میں روایت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا،اس لیے توقیرکا شعر جدت در آنے کا باوجود محض تجربہ نہیں بنتابل کہ شاعری کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے یہاں یہ بات بھی قابل ِغور ہے کہ توقیر کے وہ اشعار جو روایت کی نمائندگی کرتے ہیں بوسیدگی کا احساس نہیں ہونے دیتے ۔مثلاً

ترا خیال بھی تیری طرح اچھوتا ہے
ترا جمال بھی زیور کی دسترس میں نہیں
ہماری راہ میں بیٹھے گی کب تک تیری دنیا
کبھی تو اس زلیخاکی جوانی ختم ہوگی

روایتی موضوعات اور تلیحات کے استعمال کے باوجو د تو قیر ایک مختلف اور نئے انداز سے اپنی بات پیش کرتا ہے اور روایتی رہتے ہوئے یکسا نیت سے بچ جاتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ بڑی شاعری میں ایک تثلیث نمایاں ہوتی ہے یہ تثلیث آفاقیت، تاریخ اور فرد کی یکجائی کا نام ہے۔ ایک شاعرجب اپنے مسئلہ کی تعمیم کر کے اسے اجتمائی سطح پر اُجاگر کرتا ہے یا کسی اجتمائی مسئلہ کو احساس کی آنچ پر دہکا کر اپنے ذات کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو فرد اور آفاق کا اختلاط ہوتا ہے اور شاعر جب اُس مسئلے کو وقت کی قید سے آزادکر کے اسے انسانی تاریخ و تہذیب پر پھیلا دے تو یہ تثلیث نمودار ہوتی ہے۔کیا توقیر کی شاعری یہ تثلیث وجود کر نے کی صلاحیت رکھتی ہے اِس حوالے سے میں نے توقیر کے شعری موضوعات میں سے یاسیت اور دکھ کا انتخاب کیا ہے جو اس کی شاعری کاایک اہم پہلوہے۔کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

ہاتھ اپنے گل ِتازہ نہیں آنے والا
جس کو چاہا ہے وہ لمحہ نہیں آنے والا
کسی صندوق میں دیمک زدہ خط دیکھتے ہی
کہا دل نے اب اس کی ہرنشانی ختم ہوگی
سبز پیڑوں کو پتا تک نہیں چلتا شاید
زرد پتے بھرے منظر سے نکل جاتے ہیں
اور پھراُس کے تعقب میںہوئی عمرتمام
ایک تصویر اُڑی تیز ہوا میں ایسی

اِن اشعار میں وہ تثلیث جلوہ گر ہوئی یا نہیں،مَیں یہ بات نقادوںپر چھوڑتاہوں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ تو قیر اپنے غم کو آفاقیت بخشنے کی تگ ودو کرتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنی داخلیت کوخارجیت کی طرف لے جانے کی سعی ضرور کرتا ہے۔ اس کا شعر عصری قید سے آزادی کا متلاشی ہے۔ تو قیر کے اشعار میں تاریخ بھی جداگانہ حیثیت سے نظر آتی ہے۔مثلاً

ہر ایک موج میں صدیوں کی داستائیںلیے
مری زمین کا پہلا ادیب دریا ہے
کہیں شعور میںصدیوں کا خوف زندہ تھا
میںشاخِ عصر پہ بیٹھا ہوا پرندہ تھا

تو قیر اپنے دکھ کی تعمیم کر کے اسے اجتمائی اور آفاقی مسئلہ تو بناتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ وہ یہ کام بڑے غیر محسوس انداز میں کرتاہے۔ دکھ اجتمائی ہونے کے بعد بھی انفرادیت نہیں کھوتاجو توقیر کے شاعرانہ تفاوت کی ایک اور دلیل ہے۔پھر توقیر جب اپنا دکھ لکھتا ہے تو اس میں حزیمت نہیںہوتی۔ امید کی رمق اس کی یاسیت سے پنپتی ہے۔

آگے دریا ہے تعا قب میں عدو کا لشکر
خوف سارا یہ نئی راہ نکلنے تک ہے
خشک پیڑوں کو کٹناپڑتا ہے
اپنے ہی اشک پی ہرا ہوجا
آنکھ کے واسطے آرام نکل آیا ہے
آخری اشک سرِشام نکل آیا ہے

اگر یاسیت اتنی غالب ہوجائے کہ امید کا کوئی پہلونظر نہ آرہا ہو ایسے میں توقیر غم کی تلخی سے اپنی لہجے کو تلخ نہیں کرتا۔ گہرے سے گہرا زخم ،بڑے سے بڑا رنج،توقیر کے اِظہار میںچھبن یا افسرد گی پیدا نہیں کرپاتا۔مگر معاملے کی سنگینی قاری تک سفر کرتی ہے ۔یہی توقیر کے شاعرانہ تغاوت کی جلوہ گری ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کس شہ نے تو قیر کی شاعری کو یہ تغاوت بخشا۔ وہ سماج کے ناسور دکھاتا ہے تو ایک مشفِق معالج کی حیثیت سے، زمانے کی تلخی اس کے لہجہ تلخ کرنے سے قا صر ہے۔ اس کی شاعری روایت اور جدیدیت کے مابین سفر کر تی ہے ۔اس کا غم انفرادیت رکھنے کے باوجود اجتماعیت کا احساس دلاتا ہے۔ وہ درد سے چیختا یاکراہتا نہیں بلکہ خوش دلی سے ضبط کرتا ہے اور اپنے اظہار کی حلاوت بر قراررکھتاہے۔یہ تمام باتیں صرف اُس وقت ممکن ہیں جب کسی کے لاشعورمیں رجائیت سرائیت کر جائے ۔رجائیت کا منبع عشق ہے ،عشق زندگی کے ریگزار میں پھول کھلاتا ہے ،زمانے کی تیرگی میں دیپ جلاتا ہے، زخم پہ مرہم رکھتا ہے اورتلخی کو شیریں کردیتا ہے۔عشق کا انجذاب ہی ایسا شعری اظہار ایجاد کرسکتا ہے جو ہمیں توقیر تقی کے یہاںنظر آتا ہے۔اور یہی اظہار ُاس کے شعری مجموعے کے عنوان کا جواز بھی ہے۔ عشق توقیر کی شاعری میں درونِ شعر ایک لہرکی صورت رواںرہتاہے۔ اور جب عشق کاوفور ہوتو ایسے اشعار ُامڈ پڑتے ہیں۔

خواب ہی میں دیکھ لے تعبیرِ خواب
کون ایسا پیش بیں ہے عشق ہے
زندگی وقت پہ لکھی ہوئی نظم
عشق عنوان ہوا چاہتا ہے
خاک ہوتی ہوئی ہستی سے اُٹھا
عشق کا بوجھ بھی مٹی سے اٹھا
دیکھ دشت ِیاد کا اعجاز دیکھ
مَیں کہیں ہوں ، تُو کہیںہے عشق ہے
مَیں نہیں کچھ،مری نظر نہیں کچھ
اب تو بس عشق ہے دگر نہیں کچھ

تو قیر کے عشق میں بھی تفاوت ہے آپ اسے کسی ایک خانے میں نہیں رکھ سکتے ،عشقِ مجازی کیا ،عشق ِحقیقی کیا، توقیر کا عشق ایک جذبہ بھی ہے، ایک تعلق بھی، ایک دکھ بھی ہے ایک خوشی بھی ایک جہان بھی ہے جہانِ دگر بھی۔ توقیر اپنے تمام موضوعات ،ساری شاعری عشق کی کسوٹی پر پر کھتا ہے۔

اے عشق تیری خیر کہ تیرے ثبات نے
دنیا کو روز تازہ کہانی کی بھیک دی

حصہ