عینی شاہ
انا آج پھر اپنی دادی سے کہانی سنتے سنتے سو گئی تھی۔یہ اسکا روز کا معمول تھا کہ وہ اپنے باباکے آنے کا انتظار کرتے کرتے سوجاتی۔اُس کی آج چھٹی سالگرہ تھی اور ہر سال کی طرح وہ اپنے بابا کا انتظار کرتی رہ گئی۔انا چھ سال کی خوبصورت بچی تھی ،بالکل گڑیا جیسی ۔اس کے بابا اور دادی اسے گڑیا ہی کہتے تھے ۔انا کی ماماکا انتقال اسکی پیدائش کےوقت ہی ہوگیا تھا اسکی پرورش اسکی دادی کر رہی تھیں اوراسکے بابا کام کے سلسلے میں ملک سے باہر رہتے تھے۔ گزشتہ چھ سالوں میں انھوں نے پاکستان کے گنتی کے چکر لگائے تھے۔ وہ جب بھی پاکستان آتے ،انا کے لیے بہت سے تحفے لے کر آتے۔انا کو تحفے نہیں چاہیے تھے وہ تو بس اپنے بابا کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔جو اسکے لیے ایک خواب بن گیا تھا ۔ماما تو دنیا میں تھیں ہی نہیں، بابا تھے۔۔۔ تو وہ بھی اس سے دور۔
جب تک وہ چھو ٹی تھی تو دادی اسکو آسانی سے منا لیتی تھیں مگر جب سے اس نے اسکول جانا شروع کیا تھا تب سے اسکے سوالات بہت زیادہ ہو گئے تھے ۔جن کا دادی کے پاس جواب نہ ہوتا تھا۔ اسکول میں زیادہ تر بچے اپنے امی یا ابو کے ساتھ آتے تھے تو اس کا دل بھی چاہتا کہ وہ اپنے بابا کے ساتھ اسکول جائے۔وہ اکثر اللہ تعالٰی سے یہ دعا مانگتی تھی کہ اسکے بابا ہمیشہ کے لیے اسکے پاس آجا ئیں۔انا نے سوچ رکھا تھا کہ اب بابا جب آئیں گے تو وہ انھیں جانے نہیں دے گی۔ آج بھی اس نے دادی سے یہی سوال کیا تھا کہ بابا کب آئیں گے ۔دادی کو معلوم نہ تھا سو انھوں نے جواب دینے کے بجا ئے کہا نی سنا نا شروع کردی ۔آج انھوں نے کہانی ایک ایسی بچی کی سنائی جس کو گڑیا سے کھیلنے کا بہت شوق تھا اور اس نے بابا سے فرمائش کی تھی کہ اسے بولنے والی گڑیا چا ہیے ۔مگر اسکے بابا کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی بیٹی کی فرمائش پوری کر سکتے ۔
انا نے دادی سے پوچھا کہ “کیا اس بچی کے بابا اسکے پاس رہتے ہیں ؟” دادی نے جب ہاں میں جواب دیا تو انا اور بھی
اداس ہوگئی اور اسکی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ۔اس نے دادی سے کہا کہ اپنی کہانی والی بچی سے کہیں کہ بابا سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت ہوتی ہے کیا ؟ مجھے دیکھو میرے پاس ڈھیر ساری گڑیا ہیں پھر بھی میں اداس ہوں ۔اصل میں دادی کہانی کے ذریعے انا کو یہ بات سمجھانا چاہتی تھیں کہ اسکے بابا اسکے آرام کے لیے اس سے دور ہیں مگر اب انھیں احساس ہوا کہ انکی کہانی کی وجہ سے انا اور بھی افسردہ ہوگئی ہے ۔دادی نے پیار سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے سمجھایا کہ”بیٹا بابا کوئی ہمیشہ کے لیے تھوڑی آپ سے دور ہیں ،وہ بہت جلد واپس آئیں گے اور پھر ہم سب ایک ساتھ رہیں گے “۔ آخر وہ وقت کب آئے گا ؟ انا نے سوال کیا ۔” ان شاءاللہ بہت جلد ” دادی نے کہا۔ انا نے پوری کہانی بھی نہیں سنی اور سوگئی ۔اس نے خواب دیکھا کہ وہ ایک بہت خوب صورت وادی میں ہے جو برف سے ڈھکی ہوئی ہے اور وہ اپنے گھر کے سامنے کھیل رہی ہے کہ اچانک اسکو کوئی گھڑ سوار آتا دکھا ئی دیتا ہے ۔ اسکی حیرت کی انتہا نہ تھی جب اس نے دیکھا کہ گھوڑے پر سوار آدمی اسکے بابا ہیں ۔وہ گھوڑے سے اتر تے ہیں اور انا کے پاس آتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ میں ایک بہت پیاری گڑیا بھی ہے۔ مگر انا تو صرف اپنے بابا کو دیکھتی رہتی ہے اور سوچتی ہے ،کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہی ۔ پھر وہ خوشی سے بھاگتی ہوئی اپنے بابا کے پاس جاتی ہے اور بابا اسے گود میں اٹھا لیتے ہیں اور بہت پیار کرتے ہیں ۔انا کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اسکے بابا واپس آگئے ہیں ۔
صبح جب انا اٹھی تو خلافِ معمول بہت خوش تھی کیونکہ آج وہ خواب میں اپنے بابا سے ملی تھی ۔ دادی نے اس کو اتنا خوش دیکھا تو وجہ پوچھی ۔ انا نے الٹا دادی سے سوال کردیا کہ “کیا خواب سچے ہو سکتے ہیں؟ ” دادی نے کہا کہ ہاں ہوسکتے ہیں ۔ پھر اس نے اپنا پورا خواب دادی کو سنایا ۔ دادی کے پاس اسکے لیے ایک بہت بڑا سرپرائز تھا اور وہ یہ تھا کہ صبح ہی انا کے بابا نے انھیں کال پربتایا تھا کہ وہ شام کی فلائٹ سے اپنے ملک واپس آرہے ہیں ،ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔ دادی نے انا سے کہا کہ “بیٹا آپ کا خواب تو واقعی میں سچا ہوگیا ۔ انا نے پوچھا ” کیا مطلب “۔ مطلب یہ کہ آپ کے بابا آج واپس آرہے ہیں ہمیشہ کے لیے ،دادی نے بتایا ۔ انا کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اللہ تعالٰی نے اتنی جلدی اس کی خواہش پوری کردی۔اس نے فورا اپنے رب کا شکر ادا کیا اور دادی کے ساتھ مل کر گھر کو سجانے کی تیاری کرنے لگی تاکہ اپنے بابا کا شاندار استقبال کر سکے۔