ماہم فیصل
‘ردا! میں آپ کو کب سے کہہ رہى ہوں کہ جا کر بچوں کے ساتھ کھيليے… لیکن آپ سن ہی نہیں رہی،افشین نے بالآخر ردا کو سب کے سامنے ٹوکاردا افشین کے بڑے بھائی کی بیٹی تھی اور اسے اتنی ہی عزیز تھی جتنی اسے اپنی بیٹی لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ چاچی، تائى،مامی اور پھوپھی جیسے رشتوں کو جانچا اور پرکھا ہی جاتا ہے يہاں تک کہ ان کے خلوص کو مطلب پرستی کا نام ديا جاتا ہے۔
افشین چاہتی تھی اس کے بچے (ردا کو بھی وہ اپنی ہی بچی سمجھتی تھی ) اپنے وقت کے ساتھ بڑے ہوں، نہ کہ بڑوں کے بیچ میں بیٹھ کر وقت سے پہلے بڑے ہو جائیں۔ _
“افشین کیا ہوگیا ہے بھئ بیٹھے رہنے دو ناں، اچھا ہے نہ کچھ عقل آ جائے گی اسے بھی۔۔۔”
” عقل وقت کے ساتھ ساتھ آجاتی ہے بھابی، اب دیکھئے ناں میں جب سے آئی ہوں ديکھ رہی ہوں کہ ردا کچھ بدلی بدلی سی ہے”
آپ نے غور نہیں کیا اپنى عمر سے بڑی بڑی باتیں کر رہی ہے اور اپنے چھوٹوں کی تو پوری دادی اماں بنی ہوئی ہے۔ایسے نہیں کرو ویسے نہیں کرو یہ مت بولو یہ نہیں کرتے۔۔۔ یہ کوئی عمر ہے بھلا اس طرح کی باتیں کرنے کی۔”
“کلاس تھری کی بچی ہوتی ہی کتنی بڑی ہے۔پہلے میں جب بھی آتی تھی تواس کے پاس اسکول کی اتنی ڈھیروں باتیں ہوتی تھیں اور اب جب دیکھو بڑوں کے معاملے میں بولتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کبھی چاچی کی شکایتیں تو کبھی تائی کی۔”
“ردا چلیں آئیں آج میں آپ کو ہوم ورک کروا دوں،”افشین پڑھائی کے معاملے میں بہت سخت تھی اور سب بچے اس وجہ سے اس سے بہت ڈرتے تھے۔ ردا کے چہرے کا بھی رنگ اڑ گیا۔
افشین ردا کو لے کر اس کے کمرے میں چلی آئی۔کمرے میں داخل ہوئی تو حیران رہ گئی، اس کا کمرہ جو ہر وقت کلرز اسٹوری بکس اور پینٹنگز سے بھرا ہوتا تھا اب اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔
“ردا آپ کو کیا ہوگیا ہے گڑیا!!!”،افشين نے ردا کى طرف ديکھا ۔
“پھوپھو میرا دل نہیں چاہتا کلرنگ یا پینٹنگ کرنے کو…. مجھے سکول میں بھی مزہ نہیں آتا اور پڑھنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔”،ردا نے فوراً ابنى پریشانی بتائى۔
“تو بیٹا آپ کو کون کہہ رہا ہے کہ آپ ان کے ساتھ مت بیٹھو؟؟؟ بلکل بیٹھو!!! باتیں بھی کرو… لیکن جب سب بڑے ایک ساتھ بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں۔ تب آپ بچوں کے ساتھ بیٹھا کریں ان کے ساتھ کھیلا کریں۔۔۔ جب آپ بڑی ہو جاؤ گی تو اس ٹائم کو مس کروں گی۔ويسے بھی ابھی آپ کے پڑھنے اور کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔”
“لیکن پھوپھو سب کہتے ہیں کہ اب تم بڑی ہو گئی ہو گھر کے کام کیا کرو ہر وقت اچھلا کودا مت کرو۔۔۔”
ردا اپنی سب پریشانیاں اپنی پھوپھو سے ڈسکس کر رہی تھی۔
“لیکن پھوپھو ماما کے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا کہ وہ مجھے ایکٹیویٹیز کرائیں یا پھر میرے ساتھ کھیلیں۔۔۔”
” تو بیٹا اگر ماما کے پاس ٹائم نہیں ہوتا تو گھر میں اور لوگ بھی تو ہیں ناں۔آپ کسی کے پاس بھی بیٹھ جایا کریں اور ریکویسٹ کیا کریں کہ وہ آپ کو کہانیاں سنائیں یا پھر کسی کے پاس بھی جا کر کہیں کہ وہ آپ کو ایکٹیویٹی کرائیں۔”
ردا افشين کی باتيں غور سے سن رہی تھی
” آپ کے دادا دادی، نانا نانی، چاچو چاچی، مامو مامی، تایا تائى سب آپ سے بہت پیار کرتے ہیں بالکل آپ کے ماما پاپا کی طرح۔”
“اگلى دفعہ جب میں آؤں تو میں اپنی ردا کو پڑھتے ہوئے یا کوئی اور اچھی سی ایکٹیویٹی کرتے ہوئے دیکھوں۔ٹھیک ہے ناں میری گڑیا۔۔۔۔؟؟؟”
ردا بھی اب خوشی سے مسکرا رہی تھی ۔