اعجاز اللہ خان
صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ امارت ضلع کی ذمہ داری… ابھی امارت ضلع جاری تھی کہ کراچی شہر کی امارت ان کے کاندھوں پر آگئی۔ یہ کام جاری تھا کہ کراچی کی نظامت (میئر) سنبھالی… اور کام شروع کردیا۔ نظامتِ کراچی اور اگلے الیکشن سے فارغ ہوئے بھی نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کے سپرد ایک اور کارِ جہاں کیا اور وہ تھا 2005 میں آنے والا قیامت خیز زلزلہ کے متاثرین کی بحالی۔ کشمیر کے ایک سرے سے صوبہ سرحد کے دوسرے سرے تک اللہ تعالیٰ کا کنبہ ایک آزمائش سے گزر گیا۔ آزمائش ایک جانب اللہ کے ان بندوں کے لیے جو اس زلزلے سے متاثر ہوئے‘ کہیں اموات اور کہیں زخمی تو کہیں تباہی ہی تباہی… اور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے بندوں کی آزمائش کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا غمگسار بنایا ہے‘ جن کو اپنے کنبے کی خدمت پر مامور کرنا تھا اور جن کو اپنے لیے چنا تھا… اور ایسا ہی ایک نام تھا ’’نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ۔‘‘
نظامتِ کراچی کی تھکاوٹ اتارنے کو ابھی ایک ماہ بھی میسر نہ آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو ایک نئی مہم کے لیے چن لیا اور محترم نعمت اللہ خان صاحب ایک لمحے تاخیر کیے بغیر اسلام آباد پہنچے اور اپنے امیر محترم قاضی حسین احمد (مرحوم) کی ہدایت پر الخدمت فائونڈیشن کی جانب سے ریلیف کوآرڈینیٹر مقرر ہوئے اور ریلیف اور بحالی کے کام میں مصروف ہوگئے۔
سخت ترین ایام تھے۔ رمضان‘ دور دراز کے دشوار گزار علاقے‘ بدترین تباہی… ہر جانب زخمی اور اموات‘ مگر ان سارے کام کو سنبھالنے والا ایک باہمت اور بلند نگاہ انسان تھا۔
محترم خان صاحب نے ریلیف کے کام کے ساتھ ساتھ اپنی ٹیم بنانی شروع کردی… سب سے پہلے محترم عبدالرشید بیگ صاحب کو اپنے ساتھ اسلام آباد میں مقیم کیا اور پاکستان بھر سے آنے والی امداد راولپنڈی کے بیس کیمپ سے متاثرہ علاقوں تک بھیجنے کی ذمہ داری سونپی۔ اس کے بعد مظفر آباد‘ باغ‘ راولا کوٹ‘ نیلم‘ بٹ گرام‘ مانسہرہ‘ بالا کوٹ اور دیگر مقامات پر امدادی مراکز کا قیام عمل میں لائے۔ غرض یہ کہ محترم خان صاحب نے اگلے چند دنوں میں نہ صرف ایک بڑی ٹیم میدان میں اتاری دی بلکہ ہر جگہ ایک شان دار نیٹ ورک کھڑا کر دیا جس نے اگلے دس سال زلزلہ اور متاثرین کی بحالی کے لیے کام کیے۔
خان صاحب محترم کے لیے بہت ساری تحریریں ہمارے سامنے سے گزری ہیں اور ابھی اور بھی پڑھنے کو ملیں گی لیکن میری کوشش ہے کہ میں خان صاحب کے بارے میں وہ تحریر کروں جو براہِ راست مشاہدے کا نتیجہ ہوں۔ ویسے تو خان صاحب سے ہمارا تعلق بہت پرانا تھا بطور امیر شہر کراچی‘ لیکن 2005ء کے زلزلے میں کراچی الخدمت کی جانب سے مجھے اس وقت کے سیکرٹری ڈاکٹر تبسم جعفری کی جانب سے ریلیف ورک کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس ناتے میں خود بخود محترم خان صاحب کا معاون اور ان کی ٹیم کا حصہ بن گیا۔
الحمدللہ وسائل کے اعتبار سے کراچی نے اس کام کو سب سے بڑھ کر کیا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اس کام کو لے کر چلنے والا فرد بھی کراچی سے ہی طے ہوا لہٰذا ہم کو خان صاحب کی رہنمائی میں کام کا موقع مل گیا۔ خان صاحب کے ساتھ کام کرکے ہم نے بہت کچھ سیکھا لیکن ایک بات ہمیں بہت تنگ کرتی تھی اور یہ کہ اکثر لوگ ہم پر غصہ کرتے تھے کہ تم لوگ خان صاحب جیسے بزرگ کو اتنا تھکا دیتے ہو‘ تم لوگ ان پر ظلم کرتے ہو۔ تو میں ان لوگوں کو جواب دیتا تھا کہ ظلم ہم نہیں بلکہ ظلم تو خان صاحب ہم پر کرتے ہیں اور وہ اس طرح کہ کام کے دوران‘ سفر کے دوران ہم تھک جاتے اور آرام کرنے اور سفر کو مختصر کرنے کے خواہش مند ہوتے تھے مگر خان صاحب کام مکمل ہونے تک‘ سفر مکمل ہونے تک کہتے تھے کہ آرام کراچی پہنچ کر کرنا ہے۔
زلزلہ کے بعد بحالی کے کام میں ہر 15 روز پر محترم خان صاحب‘ راشد قریشی صاحب اور راقم الحروف کراچی سے جمعہ کی صبح 7 بجے کی فلائٹ سے اسلام پہنچتے تھے اور پھر کشمیر کے مختلف اضلاع اور وہاں سے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے مختلف اضلاع سفر اور پروگرامات اور کام کی نگرانی‘ سامان کی تقسیم‘ بحالی کے پراجیکٹ کی منصوبہ بندی میں اگلے تین دن گزرتے تھے اور دن میں اجلاس‘ میٹنگ‘ پروگرام‘ وزٹ اور رات میں سفر اور اتوار رات دس بجے اسلام ائرپورٹ پہنچ کر کراچی واپسی۔ اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ خان صاحب کو کراچی کے بستر کے بعد دوبارہ کراچی میں ہی بستر میسر آیا۔ اس دوران تین دن ہم سفر کے دوران نیند مکمل کرتے تھے۔ محترم خان صاحب گاڑی میں بیٹھ کر بہت اچھی نیند کر لیتے تھے کیوں کہ خان صاحب کہتے تھے کہ ’’میری خواہش ہے کہ زلزلہ متاثرین کے آخری فرد کی بحالی تک ہم کام کرتے رہیں۔‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔ الخدمت فائونڈیشن پاکستان نے زلزلہ متاثرین کے لیے آخری مکانات چکوٹھی کے ایک گائوں میں تعمیر کیے جو کہ 2015ء میں مکمل ہوئے۔ الخدمت نے خان صاحب کی نگرانی میں 17,000 مکان (چھوٹے بڑے) بنائے اور کمال یہ ہے کہ اس میں سے 80 فیصد مقامات کا خان صاحب نے خود وزٹ کیے اور خود اطمینان کیا کہ امانت مستحق تک پہنچ گئی ہے۔ کیوں کہ وہ امانت اور دیانت کے معاملے میں بہت سخت انسان تھے۔ میں نے اتنے طویل عرصے میں اگر کسی بات پر ان کو ناراض دکھا ہے تو وسائل میں کسی قسم کی کوتاہی کرنے پر وہ ہمیشہ برہم ہوئے اور اپنے قریبی فرد کو بھی اس بات کی گنجائش نہیں دیتے تھے کہ وہ کسی قسم کی کوتاہی کرے اور امانت و دیانت کے معاملے میں ہم نے خان صاحب کو اپنی ذات کے حوالے سے بھی بہت محتاط پایا۔
کسی موقع پر انہوں نے مجھ سے مبلغ 500 روپے اپنے ذاتی کام سے لیے اور پھر انہوں نے وہ رقم کراچی پہنچتے ہی مجھے واپس لوٹائی۔ ایک مرتبہ ہم راولا کوٹ کشمیر میں سارا دن مصروف رہے۔ برف باری شدید تھی خان صاحب کو شام سے ہی بخار ہوگیا تھا اور رات ہوتے ہوتے بخار شدید ہوگیا۔ ہم سب اور مقامی ساتھی رات بھر جاگتے رہے اور خان صاحب کو دوا اور ان کے بخار کم کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ فجر کی نماز کے بعد بخار کچھ کم ہوا تو خان صاحب کو نیند آگئی‘ ہم بھی سو گئے۔ کچھ دیر بعد قریشی نے اٹھایا کہ خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ اٹھ جائو کیا آگے نہیں جانا… ’’آگے‘‘ کا مطلب باغ تھا جو کہ وہاںسے تقریباً (اس موسم میں) آٹھ گھنٹے کا سفر تھا۔ مقامی دوستوں نے بہت کہا کہ خان صاحب آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور موسم بھی خراب ہے سفر مشکل ہے آپ آگے نہ جائیں۔ سچی بات ہے کہ میری اور راشد قریشی کی بھی یہی مرضی تھی کہ آگے نہ جائیں موسم بہت سخت ہے۔ لیکن خان صاحب نے کہا کہ میری فکر نہ کرو اور موسم سخت ہے تو کیا لوگوں نے باغ سے ہجرت کر لی ہے؟ ہم لاجواب ہوگئے۔ ہم نے کہا کہ لوگ وہیں پر ہیں مگر راستے بند ہیں تو انہوں نے حتمی طور پر کہا کہ ہم چلیں گے اور اگرآگے راستہ بند ہے تو ہم وہاں تک ضرور جائیں گے جہاں تک راستہ کھلا ہے۔ جہاں راستہ بند ہوگا وہاں سے ہم واپس آجائیں گے۔ اس بات کے بعد ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ہم نے سفر کی تیاری کی اور روانہ ہوگئے۔ وہ سفر ہمارے لیے بہت مشکل تھا مگر اللہ تعالیٰ خان صاحب کو اجر دے کہ انہوں نے راستے میں ایک بار بھی ہمیں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ہمارے ساتھ کوئی 80 سالہ بوڑھا شخص بھی سفر کررہا ہے۔
ہم رات گیارہ بجے باغ سے بھی آگے چھتر (محترم عبدالرشید ترابی کے گائوں) پہنچے تو وہاں عبدالرشید ترابی صاحب اور ان کے بھائی نے ہمارا استقبال کیا اور محترم خان صاحب کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور شکریہ بھی ادا کیا کہ وہ اس موسم میں یہاں پہنچے۔
تھکاوٹ کی وجہ سے رات کب نیند آئی کچھ پتا نہ چلا البتہ فجر کے لیے اٹھے تو دیکھا کہ محترم خان صاحب تہجد کے وقت اٹھ گئے تھے اور حسب روایت اپنی کرسی پر براجمان تھے۔ خان صاحب صبح ٹھنڈے پانی سے نہانے کے عادی تھے لہٰذا آج بھی وہ اس کی تیاری کرتے نظر آئے مگر مقامی میزبان نے بتایا کہ نہانے کے لیے پانی حاصل کرنے کے لیے ہمیں پانی کی لائن کے نیچ آگ جلانا پڑے گی تو پانی پگھل کر آئے گا تو خان صاحب نے فرمایا آگ جلا دیں۔ بہرحال اس دن جب ہم اس گائوں میں امدادی سامان کی تقسیم کے لیے وہاں گئے تو ایک مقامی فرد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے درمیان ایک ’’80 سال کا نوجوان‘‘ موجود ہے۔
یہ 2010 کی بات ہے کہ ہم نیلم میں شاردھا کے مقام پر تھے یہ اٹھمقام سے بھی آگے کا ایک مقام ہے۔ دو دن امدادی سرگرمیوں کے بعد ہم واپسی کے سفر میں تھے کہ راستے میں شدید بارش و سیلاب کی وجہ سے سڑک بہہ گئی تو رات ہم کو کسی گائوں میں قیام کرنا پڑا۔ گائوں کے دشوار گزار راستے کی وجہ سے مقامی لوگوں نے خان صاحب کو چارپائی پر لٹا کر اوپر تک کاندھا دے کر پہنچایا۔ اس موقع پر خان صاحب نے فرمایا کہ ’’تم لوگوں نے میرے جنازے کی بھی پریکٹس کرلی ہے۔‘‘ یہ وہی بارش تھی کہ جس کے نتیجے میں پورے ملک میں 2010 ء کا بدترین سیلاب آیا۔
خان صاحب پہاڑوں سے اترے اور میدانوں میں سرگرم عمل ہوگئے۔ پہلے صوبہ سرحد (کے پی کے) اور پھر پنجاب اور بعدازاں سندھ۔ محترم خان صاحب نے اسی اسپرٹ کے ساتھ جو کہ 2005 میں زلزلے کے موقع پر تھی‘ امدادی کاموں کے لیے پورے ملک میں ایک لاکھ سے زائد رضا کاروں کا ایک جال بچھا دیا۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے کو اپنی مخلوق کی خدمت میں مصروف ہی رکھنا چاہتا تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کہیں مظفر گڑھ میں کشتی کا سفر ہو یا پھر لیہ میں موٹر سائیکل پر سفر کرکے گائوں گائوں جانا ہو‘ محترم خان صاحب سیلابی پانی کے ساتھ ساتھ اوپر سے نیچے کی جانب اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے ٹھٹھہ کے مقام پر پہنچ گئے اگلے ایک سال خان صاحب نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ملک کے طول و عرض پر اپنی نگرانی میں اس کام کو جلدازجلد مکمل کیا۔ ابھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ 2012 میں ہی دریائے سندھ کے بائیں جانب بارشوں نے تباہی مچا دی اور پھر کیا بدین ‘کیا میرپور خاص‘ کیا سانگھڑ ہر جگہ خان صاحب اسی رفتار اور ہمت کے ساتھ موجود تھے۔ ایک بار پھر ہم اب 85 سال کے نوجوان کے پچھے چل رہے تھے کیوں کہ خان صاحب سے آگے نکلنے کا تصور ہی نہیں تھا۔ چاہے جیکب آباد کے جنگلات ہوں یا سندھ کی نیشنل ہائی وے‘ کئی بار بڑے بڑے حادثات سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو ایسے محفوظ رکھا کہ عقل حیران ہے کیوں کہ محترم خان صاحب نے ایک حدیث مبارکہ اپنے کمرے میں بہت بڑے سائز میں آویزاں کر رکھی تھی اور وہ اس کا ذکر اکثر ہم سے کرتے تھے کہ (مفہوم) ’’جب تک کوئی بندہ اللہ کے بندوں کی مدد میں لگا رہتا ہے اُس وقت تک اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
اور اس حدیث کی عملی شکل ہم نے بے شمار مرتبہ خان صاحب کی زندگی میں دیکھا کہ وہ اس مدد اور خدمت کے سفر میں کن کن حادثات سے محفوظ رہے۔
ایک بار جیپ کے اوپر پہاڑ کا پتھر گرا۔ ایک بار ڈاکوئوں نے گھیر لیا‘ ایک سے زائد بار گاڑی کا حادثہ اور پھر ایک فرد جو روزانہ دس سے زائد ادویات لیتا ہو‘ انسولین لیتا ہو‘ شوگر کا مرض ہو اور اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے کام میں سب سے آگے آگے… کسی کو کام پر آمادہ کرنا خان صاحب کے لیے اس وجہ سے آسان ہوتا تھا کہ وہ خود سارے کام کر رہے ہوتے تھے۔ خان صاحب فرماتے تھے کہ ’’ہم تو اللہ کا کام کر رہے ہیں‘ یہ کیسے ہوگا یہ ہمارے سوچنے کا کام نہیں‘ ہم کو تو بس شروع کرنا ہے‘ باقی اللہ تعالیٰ مکمل کروا دے گا۔‘‘
ایک بات اور فرماتے تھے کہ ’’ہم کسی کو کچھ نہیں دیتے‘ ہم تو ذریعہ ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے دینے والے اور لینے والے کے درمیان ہم کو ذریعہ بنایا کہ بس اپنا کام امانت داری سے کیا کروں۔‘‘
خان صاحب کو ویسے تو خدمت کے کام سے ہی پیار تھا مگر ہم نے دیکھا کہ خان صاحب کو تھرپارکر سے ایسی ہی محبت تھی کہ جیسے کسی کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ تھرپارکر پاکستان کا امیر ترین خطہ ہے جس کو ہم نے نظر انداز کر رکھا ہے۔
خان صاحب 1998ء میں پہلی بار اس وقت کے امیر جماعت اسلامی سندھ جان محمد عباسی (مرحوم) کی ہدایت پر پانی کا ایک کنواں کھدوانے گئے تھے۔ سات یا آٹھ گھنٹے کا سفر کرکے جھڈو میں قیام کیا پھر وہاں سے اگلے روز مٹھی روانہ ہوئے اور وہاں پہلے روز ایک مسجد میں قیام کیا۔ اجنبی مسافر کو مسجد کے امام نے روکھی سوکھی پیش کرکے میزبانی کا شرف حاصل کیا اور پھر خان صاحب نے تھرپارکر کے طول و عرض میں خدمت کے نشانِ راہ چھوڑے۔ آج بھی بے شمار کنویں ایسے موجود ہیں جو خان صاحب نے دو رکعت پڑھ کر شروع کیے اور اس کڑوے پانی کی سرزمین میں میٹھے پانی کے سوتے پھوٹ پڑے۔
اس موقع پر میں چند افراد کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے محترم خان صاحب کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر خان صاحب کی رفاقت کا حق ادا کیا جس میں محترم عبدالرشید بیگ صاحب مرحوم اور راشد قریشی صاحب ہیں کہ جنہوں نے محترم خان صاحب کی رفاقت کا حق ادا کیا۔ بیگ صاحب مرحوم نے خان صاحب کے ہر حکم کی اطاعت دینی فریضہ سمجھ کر کی اور ہم نے دیکھا کہ محترم بیگ صاحب آخری دم تک محترم خان صاحب کے معتمد ترین فرد رہے جب کہ محترم راشد قریشی نے اگر میں مبالغہ سے کام نہ لوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ راشد قریشی صاحب نے محترم خان صاحب کی خدمت کرنے میں کسی اولاد کے مقابلے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایک بات اور قابل ہے کہ محترم خان صاحب اپنے اللہ سے جو گہرا تعلق رکھتے تھے وہ ان کے کام اور ان کی زندگی میں بہت گہرا اثر رکھتا تھا۔ مثلاً محترم خان صاحب کی دعا قبول ہوتے ہم نے دیکھا۔
خان صاحب کے آسٹریلیا کے ایک دوست ایک شہر میں اپنی مسجد کی جگہ اور اس کی منظوری کے لیے بڑے عرصے سے کوشاں تھے خان صاحب کو وہ لوگ اپنی مطلوبہ جگہ پر لے کر گئے اور خان صاحب سے دعا کی گزارش کی ہم سب نے خان صاحب کی دعا پر آمین کہا یہ وقت تھا صبح گیارہ بجے کا شام تک اس جگہ کو بطور مسجد بنانے کا کیس منظور ہوگیا۔ خان صاضب جہاں نماز پڑھ کر کنواں کھدواتے تو وہاں میٹھا پانی یقینی ہوتا تھا۔ یہ تعلق باللہ ہی کی نشانی تھی۔ میں ذاتی طور پر بھی خان صاحب کا ذکر گزار ہوںٍ کہ انہوں نے ہمیشہ کام کرنے اور خدمت کے کام کو آگے بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی اور اعتماد دیا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اتنی بڑی شخصیت کے ساتھ نہ صرف وقت گزارا بلکہ ان کے ساتھ کام کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ محترم نعمت اللہ خان صاحب کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے درجات بلند فرمائے‘ آمین۔