بیری کے کانٹے

478

عطیہ اکرام
احمد یار نے آپا حسن آراء سے کہا یہ تو بتائیں کہ نواب بنے میاں کا ہمارے خاندان سے کیا تعلق ہے اور یہ کہ ان کا ہم سے کیا رشتہ ہے اور ان کو سارا خاندان ’’بنے میاں‘‘ کیوں کہا کرتا ہے۔ جہاں آراء کون تھیں اور بنے میاں سے جہاں آرا کا کیا رشتہ تھا۔60 سالہ حسن آراء نے ایک ٹھنڈی اور لمبی سی سانس لی اور ہوں کو لمبا کر دیا۔ قریب رکھے پاندان کو مزید قریب کیا اور تازہ گلوری کلے میں دباکر گائو تکیے سے کمر لگا دی اور یوں احمد یار سے مخاطب ہوئیں کہ آج سارے خاندان بھر کا تاریخ و جغرافیہ ان کے گوش گزار کردیں گی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے احمد یار جب تم تقریباً تین برس کے ہو گے۔ اس وقت ہمارا سارا خاندان ہندوستان یو پی کے علاقے کے ایک دیہی علاقے میں رہتا تھا۔ ابا میاں معاش کے چکر میں شہر اور گائوں آیا جایا کرتے تھے اس وقت قحط کی صورت حال تھی اور اس قحط کی وجہ سے سارے علاقے میں جگہ جگہ بھوک سے بلکتے اور مرتے لوگ نظر آتے تھے۔ جہاں نظر پڑتی افلاس ہی افلاس تھا‘ کسی کی مالی حالت اچھی نہ تھی۔ قحط اور بیماریوں نے ساری آبادی کو غم اور پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا تھا۔
ابا میاں جب گائوں سے واپس آرہے تھے تو ایک نوجوان عورت نے اپنے تین سالہ بچے کے ساتھ سڑک کے کنارے ابا میاں کی موٹر کو روکا۔ تاریک رات تھی اور عورت کا سارا وجو برقع میں چھپا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ ہلا کر ابا میاں کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ابا نے معاملہ معلوم کرنے کی غرض سے گاڑی روک دی۔ برقع پوش عورت نے کہا بھائی! میرے پاس تین دن سے کھانے کو کچھ نہیں‘ تم اس بچے کو لے جائو میری زندگی کی خیر ہے‘ یہ بچہ بھوکا مر جائے گا تو میرے لیے یہ صدمہ ہوگا۔ابا میاں نے ان حالات میں اس عورت کو گاڑی میں بٹھا لیا اور گھر لے آئے۔ اماںسے سارا حال کہا۔
احمد یار دیکھو غور سے سنو ان دنوں لوگوں کے دلوں میں رحم اور خوفِ خدا بھی تھا‘ آج کل جیسے حالات نہ تھے۔ احمد یار قصہ سننے محو تھے‘ ہوں ہوں کرتے جاتے تھے پھر آگے کیا ہوا بتائیں ابھی بہت قصہ باقی ہے احمد یار… آپا حسن آرا نے کہا۔اور یوں جمیلہ‘ جن کو تم جہاں آراء کے نام سے جانتے ہو‘ ہمارے خاندان کا حصہ بن گئیں اور بنے میاں تمہارے ہم جولی۔
اماں کی فراست دیکھو اپنے نام کے قافیے چمن آرا کے نام پر ان کا نام جہاں آراء رکھا اور کسی کو نہ بتایا کہ غیر ہیں‘ بالکل اپنوں کی طرح سلوک کیا۔ رہا بنے میاں کا سوال تو وہ ان کا پیار کا نام تھا اصل نام تو فراست مرزا تھا۔
فراست مرزا کے باپ ان کی پیدائش سے چند ماہ قبل وفات پا چکے تھے۔ جمیلہ‘ جہاں آرا کا سارا سسرال اور میکے والے قحط اور طاعون کی بیماری کی نذر ہوگئے تھے یوں جمیلہ جہاں آرا کے نام سے ہمارے خاندان کا حصہ بن گئیں۔
اور ہاں یہ تمہیں آج پرانی تاریخ دہرانے کا خیال کیوں آگیا۔ مجھے بھی تو پتا چلے۔ حسن آرا نے گائو تکیے پر پشت ٹکا دی اور ماضی کے جھرکوںسے جھانکتے ہوئے یادوں کے ووہ موتی جو ان کی آنکھوں سے بہہ نکلی تھے‘ اپنے دوپٹے میں جذب کرنے لگی۔احمد یار کی یکسوئی ٹوٹی‘ کیا کہا آپ نے؟ آپا کہانی سنانا جاری رکھیں۔ احمد یار بس ضرور کوئی بات ہے بتائو بھلا کیا معاملہ ہے؟
صبح کے دس بج رہے ہیں اور تم ابھی تک آفس کیوں نہیں گئے‘ کہا جی اچھا نہیں ہے؟ احمدیار بالکل اچھا ہوں دیکھیں بھلا چنگا ہوں اتنا وقت گزر گیا اس قصے میں۔ احمد یار‘ آپا حسن آرا‘ فراست مرزا کے باپ کا کیا نام تھا۔
احمد یار اس وقت اتنا ہی سنو باقی کل کے لیے رکھو اور یہ بتائو کہ بنے میاں کل سے نظر کیوں نہیں آرہے‘ ہمارا تین افراد کا کنبہ ہے پھر ایک بھی کم ہو تو بڑا احساس ہوتا ہے۔احمد یار نے بڑی توجہ سے ان کی بات سنی اور کہا آپا جہاں آرا ہمیں اپنے رشتے دار ’’بڑو میاں‘‘ کا قصہ سناتی تھیں جو فراست مرزا کے تایا کے بیٹے تھی اور یو پی کے کسی شہری علاقے میں رہائش رکھتے تھے ایک بڑی اماں ہی ان کا خیال رکھتی تھیں ورنہ سارا خاندان ان کی عادتوں کی وجہ سے ان سے پریشان تھا۔ کبوتر بازی اور اسی طرح کی غیر اخلاقی سرگرمیاں ان کے شب و روز اسی طرح بسر ہوتے تھے۔ تائی کو اپنے شوہر کے ورثے کا حصہ ملا تھا جس میں بڑو میاں کا حصہ بھی تھا۔ تائی نے کہا جو حصہ تمہیںملا ہے اس کا قرآن کے احکام کے مطابق تقسیم کرو اور میرے پاکستان جانے کا انتظام بھی کرو بلکہ سارا انتظام قرآن کے احکام کے مطابق کرو اور تم بھی میرے ساتھ چلو جس پر بڑو میاں نے کہایہ ساری دولت مجھے باپ سے ملی ہے میں اس میں سے کسی کو کوئی حصہ نہیں دوں گا اس پر صرف میرا حق ہے۔ (جب کہ تایا کے دو بھائی بھی تھے) میں اسے دوسروں میں نہیں بانٹ سکتا۔
اماں سے بے ادبی الگ کی غصہ اور فرعونیت والا کردار دکھایا‘ تائی عورت ذات تھیں اس دن چپ ہو گئیں مہینے دو مہینے بعد پھر ذکر نکالا وہی جواب تھا میں ایک پیسہ بھی کسی کو نہیں دوں گا نہ ہی پاکستان جائوں گا۔ میں ساری دولت کا مالک ہوں جس طرح چاہوں خرچ کروں۔ غصے کے مارے اول فول بکنا شروع کر دیا۔ تم سارا غصہ مجھے دکھا رہے ہو‘ ماں نے اتنا کہا تم کو خدا سمجھے۔
اگلے ہفتے پھر یہی قصہ نکلا آج ان کا پارہ بالکل ہائی تھا۔ چولھے کی جلتی لکڑی ماں کے ہاتھ پر دے ماری۔ ماں نے انہیں بد دعا دے ڈالی کہ خدا کرے تمہارے ہاتھوں میں کیڑے پڑ جائیں۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے‘ بد دعا پوری ہو گئی۔ رحم و کرم انسانی دل کی اچھی خوبی ہے احمد یار آپا حسن آرا نے کہا ان کو محو دیکھ کر کہا جو یہ قصہ سننے میں مگن تھے ساری رات تکلیف میں رہے صبح ہوتے ہی کیڑے نظر آنے لگے۔ دل ہلا دینے کے لیے کافی تھا مگر وہ خدا کو بھولے ہوئے تھے‘ کسی طور سمجھ کر نہ دیا۔
حسن آرا ہمارے ابا اور میاں کا حسن سلوک اور اچھا رویہ دیکھ کر یہ قصہ جہاں آرا اپنے بیٹے بنے میاں کو سنایا کرتی تھیں اور کہتی تھیں یہ لوگ غیرہیں اور ان کا سلوک دیکھو اور وہ سگی اولاد کو دیکھو جس کا رویہ ماں کے لیے دل کو دکھانے کا سبب بنا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ نیک اولاد صدقہ جاریہ اور بری اولا بیری کے کانٹے ہیں جو سراسر نقصان کا سبب ہے۔

حصہ