سیمان کی ڈائری
۔19فروری کی شام آرٹس کونسل آف کراچی کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام معروف شاعر اور صحافی خالد معین کے پانچویںشعری مجموعے ’’نئی حیرتوں کے خمار میں‘‘ کی تقریب ِ رونمائی ہوئی۔اس تقریب کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے سابقہ روایات میں ایک نئی طرز پیدا کی اور میرے خیال میں ایسا پہلی بار ہوا ہوگا اور اگر واقعی میں درست ہوں تو یہ تقریب اس نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور جدید طرز کی حامل پہلی تقریب کہی جا سکتی ہے۔تقریب کی صدارت معروف استاد شاعر جناب پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ اس تقریب کا انوکھا پن کیا ہے ؟ میری کوشش ہوگی کہ اس کا چیدہ چیدہ احوال اپنی تحریر میں بیان کر سکوں۔
خالد معین صاحب سے میرا پہلا اور باقاعدہ تعارف غالباً سن دو ہزار سات میں معروف سماجی شخصیت طارق جمیل کے دولت کدے میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ہوا۔ اس سے پہلے بھی ہماری ملاقاتیں ہو چکی تھیں لیکن اس میں اتنی قربت حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اُس مشاعرے کی صدارت معروف سینئر شاعر جناب خواجہ رضی حیدر نے کی ۔اس مشاعرے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ معروف کہانی کار جناب ذکاالرحمان (مرحوم) بھی موجود تھے۔ جناب صابر وسیم ،اجمل سراج،عرفان ستار ، سید کاشف رضا ، وجیہ ثانی اور دیگر ہم عصرین کی بھرپور تعداد موجود تھی۔ اس مشاعرے میں باقاعدہ کچھ احباب سے تعارف ہوا جو آگے چل کر ایک حلقے کی شکل اختیار کرگیا۔ اس بات کو ایسے ہی سمجھیے کہ میری اس حلقے میں آمد تھی۔ میں ان دنوں روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین کے علاوہ معروف ڈائجسٹ سب رنگ میں بھی نوکری کر رہا تھا ۔
دوہزار آٹھ کے اوائل میں مجھے ایک نجی ٹی وی میں بہ طور اسائنمنٹ ایڈیٹر کی نوکری مل گئی اور یہ سب اسی درج بالا مشاعرے کی بہ دولت تھا۔ اس مشاعرے میں مجھے بھرپور پذیرائی ملی جس پر کاشف رضا نے مجھے اپنے ساتھ ایک نیوز ٹی وی میں نوکری کی آفر کی۔ خالد معین بھائی بھی اسی ٹی وی چینل سے وابستہ تھے۔یوں ہماری ملاقاتوں کے سلسلے بڑھتے چلے گئے۔ ادبی اور نجی نشستوں کے علاوہ مختلف اداروں میں بھی ہم ساتھ رہے۔جسارت کے میگزین کے لیے اُن کا ایک انٹرویو بھی کیا جو شائع ہوا۔اس کے علاوہ بھی ادب کی موجودہ صورتِ حال اور مختلف موضوعات پر اُن سے گفتگو ہوتی رہی جسے مضامین کی شکل میں شائع بھی کیا۔یہ سب وہ محبتیں ہیں جن کا ذکرتو بھرپور انداز میں ہونا چاہیے لیکن یہاں اپنے کالم میں خالد معین بھائی کے پانچویں شعری مجموعے’’نئی حیرتوں کے خمار میں‘‘ کی تقریب ِ پذیرائی کا ذکر کرنازیادہ اہم ہے۔
خالد معین کے پانچویں شعری مجموعے’’ نئی حیرتوں کے خمار میں‘‘ کی تقریب پذیرائی کی خصوصیت یہ تھی کہ کسی مقرر یاصاحب صدر کو اسٹیج پر نہیں بٹھایا گیاجیسا عام طور پر ہوتا ہے۔ تقریب کا باقاعدہ کوئی ناظم نہیں تھا۔صاحبِ شام خالد معین نے خود تقریب کا آغاز کیااور نوجوان شاعر ہدایت سائر کو اسٹیج پر مدعو کیا۔ہدایت سائرنے ’’نئی حیرتوں کے خمار میں‘‘شائع مضمون ’’میں اور وہ‘‘سے کچھ اقتباس سنائے اور خالد معین بھائی سے اپنے تعلق کے حوالے سے گفتگو کی۔ کیوں کہ دونوں احباب ایک طویل عرصے تک مختلف ٹی وی چینلز میں بہ طور رائٹر اور پروڈیوسر کی حیثیت سے ساتھ رہے اور بہت اچھے ٹی وی پروگرامز،شوز پروڈیوس کیے۔ ہدایت سائر نے اپنی گفتگو کے بعد جناب زاہد حسین صاحب کو اسٹیج پر مدعو کیا ۔ زاہد حسین صاحب نے خالد معین کے شعری مجموعے میں شامل غزلوں، نظموں اور ان کے اسلوب پر اظہارِ خیال کیا۔ اُن کے بعد دو بچوں سمان اور شاداب نے گٹار پر تیز بیٹ کے ساتھ خالد معین کی غزل ’الٹا سیدھا سوچا مت کر‘پیش کی۔ اس شاندار پرفارمنس کے بعد سمان نے سینئرمعروف گلوکاراور موسیقارساجد علی خان کو اسٹیج پرمدعو کیا ۔ انھوں نے مجموعے میں شامل غزل:۔
اک خواب کے روپ بدلتا ہو اور بارش ہو
تو مجھ میں سمٹ کر چلتا ہو اور بارش ہو
اور
وہ دریا سو گیا اپنی روانی ختم کرکے
مجھے بھی گھر پلٹنا ہے روانی ختم کرکے
اپنی خوب صورت آواز کے سروں میں سجا کر سنائیںجسے حاضرینِ محفل نے پسند کیا۔
ساجد علی خان نے چیئرپرسن ادبی کمیٹی ( شعرو سخن)ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر کو اسٹیج پر مدعو کیا۔ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے نظامت سنبھالی اور خالد معین کے ساتھ اُن کے شعری مجموعے ’’نئی حیرتوں ے خمار میں‘‘ پر گفتگو کی۔ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے صاحبِ شام خالد معین سے اُن کے نئے شعری مجموعے سے متعلق کچھ سوالات کیے ۔کتاب میں شامل غزلوں اور نظموں میں اسلوب اور موضوعات کی سطح پرنیا پن کیا ہے؟ طویل بحروں کے استعمال اور اس کا پس منظر کیا ہے؟نئی زمینوں کی اختراع بہت زیادہ دکھائی دیتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ خالد معین نے جواب دیتے ہوئے کہا طویل بحریں اتفاقی طور پر ہوئی ہیں۔ میں اپنی بات کی طوالت چاہ رہا تھا۔نئی زمینوں کے اختراع سے مجھے جہاں نئے پن اور تازگی کا احساس ہوا، وہیں انھیں ذمے داری کے ساتھ نباہنے کا بھی احساس ہوا۔ گفتگو کے دوران ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے خالد معین کی تین نثری کتابوں کے حوالے سے بھی سوال کیے کہ آپ کی تین نثر کی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، اس طرف آنے کی وجہ کیا ہے؟ خالد معین نے اپنے جواب میں بتایا کہ نثرشاعری کے درمیان اس لیے آئی کہ اپنے ہم عصر جن میں سینئرزاورجونیئر سے دوستی رہی اُن کی تخلیقی سطح کو نمایاں کر سکوں ۔کتاب ’’رفاقتیں کیا کیا ‘‘اسی سلسلے کی ایک کوشش تھی۔ اس کا دوسرا حصہ تقریباً مکمل ہے کچھ عرصے بعد اسے شائع کروں گابلکہ اب میں یہ بھی محسوس کر رہا ہوںاور انشااللہ ارادہ ہے کہ اس کتاب کا تیسرا حصہ بھی آئے۔prose poetry کے حوالے سے سوال پر انھوں نے بتایا کہ جب ہم شعر کہہ رہے تھے تب نثری شاعری کی مخالفت عروج پر تھی۔ سینئرز شعرا اس کے شدید مخالفت میں پیش پیش تھے۔میں نثری نظم کو ایک صنف سمجھتا ہوں۔ آپ دیکھیں کہ اس حوالے سے کتنے نمایاں نام سامنے آئے جن میں احمد ہمیش، قمر جمیل، افضال احمد سید، ثروت حسین،ذیشان ساحل، عذرا عباس، تنویر انجم، نسرین انجم بھٹی وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے بھی کچھ نثری نظمیں ردِعمل کے طور پر کہیں جنھیں کچھ دوستوں نے پسندیدگی اور کچھ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ہو سکتا ہے میرا نثری نظموں کے حوالے سے مجموعہ آئے۔دونوں شخصیات کے درمیان دیگر موضوعات پر بھی بات ہوئی۔ اسی دوران صدر آرٹس کونسل کراچی احمد شاہ ہال میں تشریف لائے۔ڈاکٹرعنبرین حسیب عنبر اور خالدمعین کے درمیان مکالمہ ختم ہواتواحمد شاہ صاحب کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ خالد معین سے تیس پینتیس برس کی دوستی ہے۔ خالدمعین بہت اچھا لکھ رہے ہیںاور اُن کے کام کی بنیاد پر ہی آج کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس میریٹ کا انتخاب آرٹس کونسل نے کیا جو درست ہے۔ اُن کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کا انتخاب میں نے نہ صرف آرٹس کونسل بلکہ اسے احمد شاہ ہال میں کیا تاکہ ہماری دوستی کا رنگ اس میں پیدا ہو۔ معروف افسانہ نگاراور سینئرصحافی زیب اذکار نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آج کی تقریب میں روایت سے ہٹ کر جدت کا رنگ نمایاں ہے۔ خالد معین نے اپنی شاعری میں بات کرنے کی کوشش کی۔ اُن کی شاعری میںانسان دوستی اور جمہوریت کا رنگ نمایاں ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتاہے۔ جو بات ہمیں مستقبل میں کہنی ہے اسے لمحۂ موجود میں بھی کہنا چاہیے۔اظہارِ خیال کے بعد انھوں نے کتاب سے میں شامل کچھ نظمیں سنائیںاور کتاب کی اشاعت کو خوش آئند قرار دیا۔
اُن کے بعد خالد معین بارِدگر اسٹیج پر آئے اوراپنے اشعار نذرِسامعین کیے۔ خالد معین نے اپنی مشہور غزل جو تازہ مجموعے میں شامل بھی ہے:۔
خود میں خاک اُڑانے والو شاد رہو آباد رہو
روز تماشا بننے والو شاد رہو آباد رہو
تیرہ شبی کی سفّاکی میں تیز ہوا کے بیچوں بیچ
اپنا دیپ جلانے والو شاد رہو آباد رہو
پیش کی۔یہ غزل خالد معین کی پرانی غزل ہے۔ اس غزل میں انھوں نے تازہ اشعار کا اضافہ کیا۔تقریب کے اختتام پر صدرِ محفل پروفیسرسحر انصاری صاحب کو مدعو کیا گیا جو پوری تقریب کے دوران سامعین میں موجود رہے۔ خالد معین نے انھیں اور دیگرمقررین کو اسٹیج پر مدعو کیا ۔جس کے بعد کتاب کی رونمائی کا مرحلہ شروع ہوا ۔صاحب ِصدر جناب سحر انصاری صاحب نے ایک نئی روایت کا آغاز کیا۔ اس کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے خالد معین سے اُن کے نئے شعری مجموعے کے حوالے سے سوالات کیے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی صدارتی اور تجزیاتی گفتگو کی۔تقریب کے اس نئے انداز پر پسندیدگی کا اظہار کیا اوراپنی گفتگو میں کتاب میں موجود شاعری کے حوالے سے حوصلہ افزا کلمات ادا کیے۔یو ںیہ تقریب ناظم کے بغیر منفرداور بھرپور انداز میں اختتام کو پہنچی۔
خالد معین کے شعری مجموعے’’بےموسم وحشت‘‘(1990)میں، ’’انہماک‘‘(1999)’’پسِ عشق‘‘(2005)’’ناگہاں‘‘(2012)اور تازہ اورپانچواںشعری مجموعہ ’’نئی حیرتوں کے خمار میں‘‘رواں برس جنوری(2020) شائع ہوا۔ نثری کتابوں میں’’رفاقتیں کیا کیا‘‘(2016)میں شائع ہوا جس میں ہم عصر ادب اور شخصیات کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا۔ اسٹریٹ تھیٹر اور تنقیدی جائزہ پر مشتمل کتاب’’اب سب دیکھیں گے‘‘(2017) میں اور(2018) میں ’’مصورانِ خوش خیال‘‘کتاب شائع ہوئی جس میں کراچی کے پانچ اہم مصوروں کے فن اور شخصیات کا جائزہ شامل ہے۔ تازہ شعری مجموعے’’نئی حیرتوں کے خمار میں‘‘ کی تقریبِ رونمائی کا مختصر سا احوال آپ پڑھ چکے ہیں تاہم اس کتاب پر تفصیلی گفتگو ہونا ابھی باقی ہے۔
درد کی کائنات میں مجھ سے بھی روشنی رہی
ویسے مری بساط کیا اک دیا بجھا ہوا
پیرزادہ قاسم