گول گپے

821

رابعہ شاہین
علی اور صبا چھٹی کے بعد اسکول سے نکلے گیٹ کے باہر انہیں ایک گول گپے والا دکھائی دیا۔ ایک ٹھیلے کے اوپر بہت سارے گول گپے سجائے وہ آواز لگا رہا تھا۔ گول گپے والا آیا… گول گپے لایا… گول گپے والا آیا… گول گپے لایا… گول گپے کھالو… آئو بچو! آئو اس کی آواز سن کر بہت سارے بچے اس کے ٹھیلے کے گرد جمع ہو گئے اور اس سے گول گپے خرید کر کھانے لگے۔
علی اور صبا کا بھی گول گپے کھانے کو دل چاہا۔ وہ دونوں بھی ٹھیلے کی طرف بڑھے ’’علی بھائی! امی نے منع کیا ہے نا ٹھیلے سے چیزیں لے کر کھانے سے نا‘‘ صبا نے بھائی کو سمجھانا چاہا ’’ہاں کیا تو ہے مگر دیکھو نا سب بچے بھی تو کھا رہے ہیں۔ اتنے مزے کے ہوتے ہیں یہ گول گپے‘‘ علی نے یہ کہا تو صبا کے منہ میں بھی پانی آگیا۔ پھر کیا تھا دونوں امی کی نصیحت پس پشت ڈال کے گول گپے خرید کے کھانے لگے گول گپوں کا املی والا کھٹا پانی دونوں کو بہت اچھا لگا۔ انہوں نے کتنے ہی کٹورے وہ کھٹا پانی پیا اور گھر کے راستے یہ ہو لیے۔
گھر آکر انہوں نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ امی نے کھانے کے لیے کہا تو دونوں ٹال مٹول کرنے لگے کہ ہمیں بھوک نہیں رہی مگر دونوں نے امی کو گول گپوں کے متعلق نہیں بتایا۔ اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ دونوں چھٹی کے بعد اسکول کے گیٹ سے نکلے تو وہی گول گپے والا ٹھیلا اسکول کے گیٹ پہ موجود تھا۔ اسکول کے بچے ٹھیلے کے ارد گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ گول گپے والا تھا لیوں میں گول گپے سجا کر انہیں پیش کر رہا تھا۔ علی اور صبا کا بھی دل للچایا۔ دونوں ٹھیلے کی طرف بڑھے اور گول گپے خرید کے کھانے لگے۔ آج بھی دونوں کو امی کی نصیحت یاد نہ رہی۔ امی ان دونوں کو سمجھاتیں تھیں کہ ہمیشہ صاف ستھری چیزیں کھانی چاہئیں۔ انہوں نے دونوں کو منع کیا تھا کہ کبھی بھی بازار میں ٹھیلوں پر فروخت ہونے والی چیزیں مثلاً گولا گنڈا، چاٹ، گول گپے، یا قلفیاں خرید کر مت کھانا۔ یہ چیزیں کھانا بیماریوں کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ یہ چیزیں نہ تو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کی جاتی ہیں اور نہ ہی ان کے تازہ ہونے کی کوئی ضمانت ہوتی ہے۔ دونوں بہن بھائی امی کی ہر نصیحت غور سے سنتے اور اس پہ عمل کرتے تھے مگر گول گپے دیکھ کر دونوں نے امی کی نصیحتیں بھلا دیں۔
گول گپے کھا کر دونوں گھر کی طرف بڑھے۔ راستے میں ہی علی کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ صبا کو بھی چکر آنے لگے۔ یہ دونوں بڑی مشکل سے گھر پہنچے۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی صبا بے ہوش ہو گئی۔ امی صبا کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔ علی کے پیٹ میں بھی سخت درد ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں اس کی بھی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔ امی کا تو پریشانی سے برا حال ہو گیا وہ کبھی صبا کو دیکھتیں تو کبھی علی کو۔ صبا کو اٹھا کر انہوں نے بستر پہ لٹایا اور الٹے پیر ہمسایوں کے گھر دوڑیں۔ ان کی مدد سے علی اور صبا کو ہسپتال پہنچایا۔
علی اور صبا کو جب ہوش آیا تو دونوں نے خود کو ہسپتال کے بستر پہ پایا۔ علی نے آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھا۔ اس کے بائیں طرف صبا کا بستر تھا۔ وہ بھی ہوش میں آ چکی تھی۔ اتنے میں ڈاکٹر صاحب آگئے انہیں ہوش میں دیکھ بہت خوش ہوئے۔ ’’اب تم دونوں بالکل ٹھیک ہو‘‘ ڈاکٹر صاحب ہمیں کیا ہوا تھا؟‘‘ علی نے پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ انہیں فوڈ پوائزن ہو گیا تھا۔ یعنی ان دونوں نے کوئی باسی چیز کھا لی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں بتایا کہ انہوں نے جو چیز کھائی تھی وہ انتہائی زیریلی تھی کہ ان دونوں بہن بھائی کا معدہ واش کرنا پڑا۔ اگر دونوں کو بروقت ہسپتال نہ پہنچایا جاتا تو ان کی جان بھی جاسکتی تھی یہ سن کر علی اور صبا دونوں بہت گھبرائے انہیں کیا معلوم تھا کہ ٹھیلے سے گول گپے کھانے کا یہ نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ابھی یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ علی اور صبا کے امی ابو بھی آگئے۔ دونوں انہیں ہوش میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ امی نے دونوں کو گلے سے لگا لیا۔ ’’بیٹا آپ نے ایسی کیا چیز کھائی تھی کہ طبیعت اتنی خراب ہوئی؟‘‘ ابو نے ان سے پوچھا تو صبا نے ساری بات بتا دی کہ انہوں نے اسکول کے باہر سے ایک ٹھیلے والے سے گول گپے خرید کے کھائے تھے۔ یہ سن کر امی سخت ناراض ہوئیں ’’میں نے تم دونوں کو کتنا سمجھایا تھا کہ بازار میں اس طرح کی چیزیں لے کر نہیں کھانی ہیں‘‘ علی اور صبا دونوں بہت شرمندہ تھے۔ ’’بیٹے! آپ دونوں نے امی کی نصیحت کی پروا نہیں کی ہمارے رسول اللہؐ کا فرمان ہے ’’مائوں کی نافرمانی نہ کرو‘‘ بیٹے! ماں باپ اپنے بچوں کو جس بات سے منع کرتے ہیں۔ اس میں ان کی بھلائی ہوتی ہے۔ تم دونوں کو اپنی امی کی نافرمانی کی سزا ملی ہے۔ اگر تم دونوں امی کی بات مانتے تو اتنی تکلیف میں مبتلا نہ ہوتے‘‘ دونوں بہن بھائی نظریں جھکائے ابو کی بات سنتے رہے واقعی اگر وہ اپنی امی کی نصیحت کو اہمیت دیتے تو ہسپتال میں نہ پڑے ہوتے۔
’’جی ابو! ہمیں احساس ہوگیا ہے کہ بڑوں کی بات ماننے میں ہی ہماری بھلائی ہے‘‘ علی نے شرمندگی سے کہا تو صبا بھی بولی ’’امی ہمیں معاف کردیں۔ ہم آئندہ کبھی بھی آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے۔‘‘ یہ سن کر امی نے دونوں کو گلے سے لگا لیا۔
ہسپتال سے گھر آکر دونوں نے ایک دن آرام کیا طبیعت بہتر ہونے پر امی دونوں کو خود اسکول چھوڑنے گئیں۔ اسکول کے گیٹ کے باہر گول گپے والا موجود تھا۔ گول گپے تو اس نے ٹھیلے پہ خوب صورتی سے سجائے ہوتے تھے مگر اس کے برتن انتہائی گندے تھے۔ ان پہ مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ گول گپے والا گندے ہاتھوں سے بچوں کو گول گپے کی تھالی سجا کر دے رہا تھا۔ ’’دیکھا بچو! ان برتنوں پہ لگے جراثیم گول گپوں کے ساتھ کھانے والے کے معدے میں پہنچتے ہیں اور اسے بیمار کرتے ہیں‘‘ امی نے صبا اور علی سے کہا تو دونوں سوچنے لگے کہ گول گپے کھانے کے شوق میں انہوں نے گول گپے والے کے ہاتھوں اور گندے برتنوں پہ کبھی توجہ ہی نہیں دی۔
امی نے اسکول کی ہیڈ مسٹریس کو بھی اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بھی بتایا کہ کئی بچوں کے گھروں سے اس طرح کی شکایت آچکی ہیں وہ ٹھیلے والوں سے چیزیں خرید کے کھانے سے قے، دست، اور اسی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسکول کی ہیڈ مسٹریس نے اسی وقت حکم دیا کہ اسکول کے گیٹ سے تمام ٹھیلے والوں کو ہٹا دیا جائے۔
امی نے ہیڈ مسٹریس کا شکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف روانہ ہوئیں علی اور صبا امی سے اپنا اپنا لنچ بکس لے کر اپنے کلاس رومز کی طرف بڑھے۔ انہوں نے دل میں پکا عہد کر لیا تھا کہ وہ گول گپے تو کیا ٹھیلے والے سے کوئی بھی چیز لے کر نہیں کھائیں گے۔

حصہ