چھوڑو سرکار اور حوروں والا ٹیکہ

812

موجودہ ‘ ٹیسٹ ٹیوب حکومت’ کو برسر ا قتدار آئے ہوئے ڈ یڑھ سال کی مدت ہونے کو ہے ، مگر جو چال بے ڈھنگی پہلے دن تھی وہی چال بے ڈھنگی آج بھی ہے۔
یہی بات حکومت بننے سے پہلے کچھ لوگ کہہ رہے تھے ، مگر ایک تو تبدیلی کی ہوا کا رخ اس جانب تھا جہاں کسی مخالف کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ دوسرے ‘ بڑے بزرگوں ‘ کی نظر انتخاب بھی ‘لاڈلے’ پر رہی کہ جس نے تخت نشینی سے پہلے ہی ‘ کھیلن کو چاند ‘ مانگ لیا۔ ان دنوں ہمارے ‘بڑے بزرگوں ‘ کے اعصاب پر شریفوں کا خوف ایسا سوار تھا کہ انہیں ‘لاڈلے’ کی ہر بات ‘لیلی کے کتے جیسی پیاری’ لگ رہی تھی۔
لاڈلے کی خواہش تھی کہ مضبوط اپوزیشن نہیں چاہیے ! چنانچہ مضبوط اپوزیشن کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا۔ اور مولویوں کی جیتی ہوئی سیٹوں پر ‘ نوسر بازوں اور شعبدہ بازوں ‘ کو بٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
لاڈلے نے کہا کہ ‘الکٹیبلز’ کے بناء حکومت سازی ناممکن ہے ، لہٰذا الیکٹیبلز اور سلیکٹبلز کو ایک ٹیبل پر گلے میں ‘دو رنگی پٹہ ڈال کر بٹھا دیا گیا۔
الغرض لاڈلے نے جو جو فرمائش کی وہ من و عن پوری کی گئی۔ اب مخالف لاکھ چیخیں چلائیں ، شور مچائیں کہ ‘ فارم۔45 ‘ کا چہرہ کروائیے ، پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کروائیں ، ووٹ کم از کم پولنگ ایجنٹ کے سامنے کھولیں ، مگر سب بے سود !
جو رات گیارہ بجے جیت رہے تھے ، تین دن کے بعد ہارے ہوئے لشکر میں دکھائی دئیے اور جو امیدوار شام چار بجے پولنگ اسٹیشن پر مایوس ہونے کے بعد گھر جاکر سو چکے تھے انہیں فون پر جگایا گیا ، جیتنے کی خوشخبری سنائی گئی۔
صاف اور شفاف الیکشن اور فوج کی زیر نگرانی ایسا ‘ چمتکار ‘ جنرل ایوب خان کے الیکشن کے بعد اس مرتبہ دکھائی دیا۔
خیر سے حکومت سازی کا عمل پورا ہوا۔ عرصہ دراز کے بعد چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ فوج اور سیاسی حکومت ‘ ایک پیج ‘ پر دکھائی دینے لگی۔ اس طرح کچھ امید بندھی کہ اب ملک کا پہیہ تیزی کے ساتھ چلے گا۔ مگر معلوم ہوا کہ گاڑی میں ‘ ڈیزل ‘ کا فقدان ہے بلکہ ڈیزل کی ٹنکی کی گنجائش بہت ہی کم رکھی گئی تھی۔ یقین نا آئے تو پارلیمنٹ کی تعداد سے موازنہ کرلیجئے۔ظاہر ہے بناء ڈیزل کے گاڑی کے آگے بڑھنے کے امکانات ویسے ہی زیرو ہوچکے تھے چنانچہ ‘ متبادل دستیاب وسائل ‘ تلاشے گئے۔ اب حاضر اسٹاک میں ڈیزل جیسی توانائی کہاں ؟ جیسے تیسے حکومتی گاڑی کھینچنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ دستیاب وسائل والا ایندھن گاڑی کھینچتا کم ہے اور ‘ شور ‘ زیادہ مچاتا ہے رکشے کی طرح !
شور پر یاد آیا ، حکومت سازی سے پہلے بھی بڑا شور اٹھا تھا آپ کو بھی یاد ہوگا کہ ‘ خان جس دن آئے گی ، اگلے دن دو سو ارب ڈالر پاکستان آجائیں گے ‘
اسی طرح کا شور تھا کہ” تما م گورنر ہا و س یونیور سٹی میں تبدیل ہو جائیں گے” ، ‘عوام کے لئے کھول دے جائیں گے ، ” ایک کروڑ نوکریاں ، غریبوں کے لئے پچاس لاکھ گھر ”، ”اسی روپے کے لیٹر پٹرول میں چالیس روپے شریف کھا رہے تھے ، اس لئے پٹرول چالیس روپے لیٹر فراہم ہوگا”۔ اسی طرح کے بیسیوں قسم کے بے سرو پا وعدے اور بڑے بڑے دعوے کے گئے اور یہ بھی کہ ہمیں صرف’ ایک سو دن دیجیے ، ملک کی تقدیر بدل دیں گے ‘، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوجائے گا ، وزیر اعظم نیو زی لینڈ کے وزیر اعظم کی طرح سائیکل یا ذاتی چھوٹی موٹی گاڑی پر دفتر آیا جایا کریں گے۔ ” وغیرہ وغیرہ
اس پر لگے ہاتھوں ایک لطیفہ بھی سن لیں ، دو چھوڑو ، لمبی لمبی چھوڑ رہے تھے ، ایک نے کہا کہ” میرے دادا جان کا گھوڑوں کا اصطبل تھا جو اتنا بڑا اتنا بڑا تھا کہ … کہ تم تصور نہیں کرسکتے ! ” دوسرے نے اس سے بھی زیادہ لمبی چھوڑی ” میرے نانا کے پاس اتنا بڑا بانس تھا کہ تم اندازہ نہیں کرسکتے ” پہلے والے نے اسے نیچا دکھانے کے لئے پوچھا “بتاؤ نا کتنا بڑا بانس تھا ؟” اس نے جواب دیا اتنا بڑا کہ جب بارش نہیں ہوتی تھی تو میرے نانا بانس سے بادلوں کو ہلاتے تھے اور بارش ہوجاتی تھی ” اب پہلے والے کی سٹی تو گم ہوچکی تھی پھر بھی پوچھا ‘ بتاؤ اتنا بڑا بانس تھا تو وہ رکھتے کہاں تھے ؟” اس کا خیال تھا کہ بانس والا دوست لاجواب ہوجائے گا ، مگر اس نے جواب دیا ” تمہارے دادا کے اصطبل میں اور کہاں ؟ ”
بالکل اسی طرح خان اعظم کی سرکار میں تمام وزیر با تدبیر ایک دوسرے کے دادا کے اصطبل میں اپنے اپنے بانس رکھ کر سمجھتے ہیں کہ حکومت چلارہے ہیں ، ان کے فرشتون کو بھی خبر نہیں کہ اصل میں ان کے پیچھے ‘ بانس ‘ چلانے وا لا آخر ہے کون ؟
ان کی انہی چھوڑیوں کو وجہ سے ہم اس سرکار بے وقار کو ‘چھوڑو سرکار’ کہتے ہیں۔ اس بے وقار سرکار کو چھوڑو سرکار کہنے کی وجہ بھی سب کے سامنے ہے کہ وزیر تو وزیر ان کے سردار صاحب یعنی خان اعظم بھی چھوڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان پر ترکوں نے چھ سو سال حکومت کی ( یہ بات ویسے اب تک ترکوں کو بھی معلوم نہ تھی ) ان کی زبان سے یہ بھی نکلا کہ درخت رات کو تازہ آکسیجن چھوڑتے ہیں ( اور یہ خو د کتنی بڑی چھوڑ رہے تھے ، کون سمجھائے)۔ ان کے ایک وزیر نے کہا کہ ہم اپنے وزیر اعظم پر سیکورٹی رسک لینا نہیں چاہتے اس لئے سستے ترین ‘ ہیلی کاپٹر میں ان کو دفتر بھیجتے ہیں ، اور یہ بھی کہ اس طرح سیکورٹی اخراجات میں بچت ہوتی ہے اور پھر فی لیٹر پنتالیس روپے سے بھی کم خرچہ آتا ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے ہیلی کاپٹر کے فیول پر جو بھی خرچہ آنا ہے وہ کونسا وزیر اعظم کی جیب سے جانا ہے ، چینی کے بڑھتی ہوئی قیمت اور کھاد کے آسمان چھوتے نرخ کی صورت میں میری اور آپ کی ہی جیب سے جانا ہے ، (تو جو منہ میں آئے بولنے میں ڈر خوف کیسا ؟ )
بات ہورہی تھی چھوڑنے کی ، تو ابتداء میں خان صاحب نے وزراء نے ایسی لمبی لمبی چھوڑیں کہ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ ایک طرف سے مسٹر اسد نیوٹن چھوڑتے تھے کہ آء ایم ایف کی ایسی کی تیسی ! دوسری جانب سے وزیر اعظم تان کھینچتے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے بہتر ہے بندہ خود کشی کرلے ‘ فواد چودھری کیسے پیچھے رہ سکتے تھے سو انہوں نے چھوڑنے کی حد کردی ہیلی کاپٹر اور پٹرول کی قیمتوں کا جو زمینی تخمینہ لگایا تو ہر موٹر سائیکل والے نے وہ پٹرول پمپ تلاش کرنا شروع کرد ئیے جہاں سے ہیلی کاپٹر کا ‘ سستا ترین ‘ فیول ملتا ہو !
ویسے چھوڑنے میں صدر مملکت کا بھی جواب نہیں تھا انہوں نے بھی زرداری صاحب کی طرح ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی لمبی چھوڑی تھی ، وہ تو اچھا ہوا ‘ بڑے بزرگوں ‘ نے ان کی دھمکی میں آنے سے پہلے ہی اقتدار کی خوشبو سنگھا دی ورنہ واقعی لگتا یہی تھا کہ وہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
میں نے ہنسی مذاق میں اپنے ایک دوست سے پوچھا ” یار ملک کی اینٹ سے اینٹ کیسے بجاتے ہیں ” ؟ دوست نے معصومیت سے کچھ کہے بنا قریبی رکھے دو پتھر اٹھائے اور ایک دوسرے سے بجا تے ہوئے کہا بالکل ایسی ہی ! ”
ویسے ایک بات تو ما ننی پڑے گی ہے کہ حکومت کی مستقل مزاجی قابل تعریف ہے کہ حکومتی چھو ڑم چھا ڑی کی جو رفتار ابتدائی دنوں میں تھی اب بھی اسی رفتار سے جاری ہے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے فرمایا ہے کہ ‘ہماری ایماندار قیادت کی بدولت ہی دنیا کے سامنے پاکستان کا تشخص اور دنیا کا اعتماد بحال ہوا،’ اب ان سے کون پوچھے کہ کہ کونسی ایماندار قیادت ؟ اور کونسا تشخص اور کس دنیا کا اعتماد ؟ ”
جو آتا ہے ہاتھ میں چونی رکھ کر آگے نکل جاتا ہے۔ اور ہمارے وزیراعظم ڈرائیوری کے مزے لینے میں ہی مصروف عمل ہیں۔ کاش کوئی انہیں بتائے کہ وزیر اعظم صاحب۔ ڈرائیوری ڈرائیور کو کرنے دیں اور آپ اپنی وزارتِ اعظمیٰ پر بیٹھیں ( وزارت اور اعظمیٰ کو الگ الگ اکائی تصور نہ کریں بلک ایک ہی سمجھیں )۔ ان ہی صاحبہ نے کچھ دن پہلے فرمایاتھا کہ” زلزلے کو مثبت لینا چاہیے۔ زمین بھی خان صاحب کی حکومت کو سلامی دے رہی ہے !”
ایک وزیر نے کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اصل میں پاکستان کا ہی فائدہ ہے ، جو رقم ہمارے بھائی اب پاکستان بھیجیں گے وہ زیادہ روپوں میں ہم کو ملے گی ، ا س بات سے آپ کو اندازہ ہورہا ہوگا کہ کہ ہمیشہ چندوں پر پلنے والوں کی سوچ کسی ہوتی ہے !
ویسے تو ہم شا عر ٹائپ کے لکھاری بات سے بات بنانا اور نکالنا خوب جانتے ہیں ، چھوڑو سرکار کی قافیہ سرائی پر آجائیں تو بات بہت آگے نکل جائے گی۔ لہٰذا میری مانیں تو آپ بھی اور ہم بھی دن میں دو مرتبہ صرف خان اعظم کی طرح ‘ حوروں وا لا ٹیکہ ‘ لگائیں تو بہتر رہے گا ، نا روپے پیسے کا غم نہ راشن آٹا چینی دال کے بھاؤ کی فکر نا ہی بجلی گیس کے بلوں کی ٹینشن۔ مست رہو اور حوروں والے ٹیکے کے اثر میں رہو۔

حصہ