ہادیہ امین
۔”ماں، ماں سنو نا،صبح ریوڑ میں سب دوست کہہ رہے تھے کہ جب ہم تھوڑے بڑے اور مضبوط ہو جائینگے، تو ہمارے مالک ہمیں بیچ دینگے، ہم انسانوں کے ہاتھ فروخت ہو جائینگے، پھر وہ ہمارے ٹکرے کرینگے، ہماری تکہ بوٹی کھائینگے، ماں!کیا ایسا ہی ہوگا؟”
معصوم سے بکرے نے اپنی ماں سے معصوم سا سوال کیا۔
“بیٹا! تمہارے دوستوں نے تمہیں تھوڑی ہی بات بتائی ہے،ہاں یہ سچ ہے کہ رب نے ہمیں اور پوری کائنات کو انسانوں کے لیے مسخر کیا ہے، یہ انسان ہمیں اپنی خوراک بناتے ہیں، مگر تم یہ تو سوچو کہ ٹکڑوں میں کٹنے کے بعد، گرم آگ میں مزیدار مصالحوں سے ملنے کے بعد، تمہاری اہمیت بہت بڑھ جائیگی بیٹا، تم معزز ہو جاؤگے،تمہاری قیمت بہت بڑھ جائیگی، تم رزق بن جاؤ گے، با ادب لوگ تمہارا ادب کرینگے، تمہارے ایک ایک ٹکڑے کی قدر ہوگی، تمہیں نیچے گرنے سے بچایا جائے گا،تمہارے نت نئے نام ہونگے، تمہارے اوپر سجاوٹ کی جائیگی، تم مہنگے ہو جاؤگے بیٹا، یہ عزت، یہ نام، یونہی نہیں ملتا بیٹا، اس کے لیے ٹکڑوں میں کٹ کر گرم آگ میں جلنا پڑتا ہے، تمہیں تمہارے دوستوں نے تصویر کا محض ایک ہی رخ دکھایا ہے”
اتنی عزت اور اہمیت کا سن کر بکرے کا دل خوش ہوگیا، زیادہ ہی جذباتی ہوکر کہنے لگا،
“ماں! اگر میری اہمیت اتنی زیادہ بڑھ جائیگی، تو تم ہی مجھے ٹکڑوں میں کاٹ دو نا، کیا تمہارا دل نہیں چاہتا تمہارے بچے کو عزت ملے؟”
بکرے کی ماں مسکرانے لگی۔۔
“بیٹا، مجھے اپنی کہی ہر بات کا یقین ہے،مگر مائوں کو یقین بھی ہو، وہ اپنی اولاد کو کبھی ایسے حالات میں نہیں ڈال سکتیں، محبت کرنے والے کبھی کٹھن وقت میں نہیں ڈالتے، قدر کرنی چاہیے ان لوگوں کی، جو مشکل میں ڈال کر ہماری اہمیت بڑھاتے ہیں، تم بے زبان مخلوق ہو بیٹا، ان کے بارے میں برا نہ سوچو،ان کو اپنے حق میں بہتر ہی جانو، رہے محبت کرنے والے، وہ احسان کرتے ہیں، مشکل میں سہارا بنتے ہیں، حالات کو ہمارے سامنے مثبت بنا کر پیش کرتے ہیں، جیسے ابھی میں نے تمہارے سامنے کیا”
بکرا ماں کی باتیں سن کر بہت متاثر ہوا۔۔
“کتنی اچھی باتیں کرتی ہو ماں، کیا آپکے پاس بھی کوئی ڈگری تھی جسے بکرے کھا گئے؟”
بکرے کی ماں نے سر پہ ہاتھ مارنا چاہا، پھر جواب دیا۔
“میرے بچے! تجربات ہی زندگی میں بہت کچھ سکھاتے ہیں، جانور بھی ڈگریاں لے کے انسان تھوڑی بنتے ہیں، جب منڈی لگتی ہے، ہر طرح کے انسان جانور خریدنے آتے ہیں، پڑھے لکھے بھی، امیر بھی، خوبصورت بھی، ذہین بھی، مگر عزت اور خیال سے وہی رکھتے ہیں جنہیں رب کا خوف ہوتا ہے، وہی وقت پہ کھانے پینے کا خیال رکھتے ہیں، بیمار پڑنے پر ڈاکٹر کو بھی دکھاتے ہیں، ذبح کرنے کا وقت آئے تو چھڑی نظروں کے سامنے تیز نہیں کرتے، خواہ مخواہ راہ چلتے نہیں مارتے رہتے،ہمارے معالے میں اللہ سے ڈرتے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کے نام پہ ذبح کرتے ہیں،ایسے ہوتے ہیں نرم دل اور نیک دل لوگ، اللہ سب بکروں کو ایسے ہی لوگوں سے ملوائے”
بکرے کی سمجھ میں بات آگئی تھی۔۔
“ماں آج ہم نے جیسی باتیں کیں ہیں، ایسی باتیں پہلے کبھی بھی نہیں کیں نا، ماں مجھے مزا آیا، مجھے ڈر بھی نہیں لگا”۔۔
بکرے کی ماں خوش ہو کر بولی،
“ہاں بیٹا، بس ایک بات یاد رکھنا، توحید اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے، جب کوئی حلال جانور بھی غیر اللہ کے نام پہ ذبح ہوتا ہے نا، مسلمان اس کو حرام کہتے ہیں،وہ جائز نہیں ہوتا، ہم سب اس ایک اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، اللہ کرے،کوئی ہمیں غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کرے، آمین۔۔
اور پھر بکرا اور اسکی ماں اپنے اپنے کاموں پہ چل دیے۔۔