دادا جان کی عینک

890

صبا احمد
سب دوستوں نے مووی نائٹ کا پروگرام بنایا حاشر کے گھر کو چنا گیا۔ کیونکہ اس کے امی ابو ایک شادی میں شرکت کے لیے لاہور گئے ہوئے تھے حاشر دادا جان کے ساتھ گھر پر اکیلا تھا چھوٹا بھائی حسام امی ابو کے ساتھ چلا گیا۔ دادا جان سفر نہیں کر سکتے تھے اس لیے حاشر کو رکنا پڑا اور نہ وہ جانے کے لیے تیار تھا۔ انٹر کے اگزام ہو چکے تھے حاشر نے دوستوں سے کہا کہ میرے دادا جان گھر پر ہے وہ بولی وڈ کی مووی تو ہرگز نہ دیکھنے دیں گے اگر کوئی اصلاحی فلم تو وہ منع نہیں کریں گے۔
دوست مسکرانے لگے کہ تم ابھی تک بڑے نہیں ہوئے۔ تم ممی ڈیڈی ہی رہو گے۔
’’اچھا یار ٹھیک ہے۔ جو بھی ہولیکن مووی نائٹ تو ہو گئی اور تمہارے گھر ہی ہو گئی سرمد نے کہا۔
’’حمزہ نے حیرانگی سے کہا کہ تمہارے دادا جان بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں گے‘‘
حاشر نے کہا کہ ’’ہاں‘‘ کیونکہ ان کی نظر کمزور ہے۔ وہ بیٹھ کر صرف سنتے ہے چشمے سے بھی انہیں بہت کم نظر آتا ہے ان کی آنکھوں کا آپریشن ہو چکا ہے دونوں کا مگر پھر بھی اتنی نظر نہیں۔ بس باتھ روم میں چلے جاتے ہیں۔ نماز پڑھنے بھی چلے جاتے ہیں۔ مگر زیادہ تر ان کو اکیلا نہیں جانے دیتے۔
سرمد ہنسنے لگ گیا ’’اسپیشل کیس ہے تمہارے دادا کا‘‘ سرمد نے کہا۔
اچھا چلو دادا جان کے ساتھ کیا کرنا ہے یہ بعد میں سوچیں گے حمزہ نے کہا کہ ہفتے کی رات کو ہم آئیں گے صبح کو پراٹھا اور پائے کھائیں گے۔ ہیوی ہو جائے گا حمزہ نے خود ہی مشورہ دیا پھر خود ہی خیال آیا کہ نہیں‘‘۔
حارث پہلی مرتبہ بولاحمزہ پہلے تولو پھر بولو۔ بڑوں نے ایسے ہی نہیں کہا‘‘ سب دوست ہنسنے لگے۔
چلو اچھا فائنل ہو گیا۔ ہم ہفتے کو آئیں گے بریانی ہم لے کر آئیں گے۔ حاشر حمزہ نے کہا۔‘‘
’’ڈن۔ اوکے‘‘ حاشر نے کہا۔
سب دوست چلے گئے۔ دادا جان نے پوچھا چلے گئے دوست؟ حاشر نے کہا جی
’’مووی کا پروگرام ہے‘‘ دادا جانے نے پوچھا ’’جی‘‘ حاشر نے جواب دیا۔
دوسرے دن رات کو دس بجے سارے دوست آدھمکے پوری تیاری کے ساتھ دادا جان بھی نماز اور کھانے سے فارغ ہو چکے تھے۔ چشمہ اتار کر انہوں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے وہ صرف بچوں پر نظر رکھنا چاہتے تھے۔سب دوستوں کا منہ بن گیا حمزہ حارث اور سرمد نے کہا کہ ہم تو مذاق سمجھ رہے تھے ہمارا خیال تھا کہ دادا جان خود ہی چلے جائیں گے۔ مزا نہیں آئے گا۔ بڑا فارمل ہونا پڑے گا۔ سیریس رہ کر مووی دیکھنے کا مزہ نہیں آتا۔ سارا مزا کرکرا ہو گیا۔ ’’چھوڑو یار دادا جان بیچ میں درمیان میں اٹھ کر خود ہی چلے جاتے ہیں۔ فکر نہ کرو‘‘ حاشر نے کہا۔
تینوں دوستوں کے منہ پر بارہ بج رہے تھے کہ دادا جان نے کہا بچوں پہلے کھانا کھا لو پھر مووی لگانا کیونکہ گیارہ بجے تک مجھے نیند آجاتی ہے۔ پھر تہجد کے لیے اٹھنا ہوتا ہے۔‘‘
نو بجنے والے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ میں کھانا ختم کرنے کے بعد دس بجے مووی لگا لو۔ یہ تو دو گھنٹے تک ختم ہو جائے گی۔
دادا جان آکر سنگل صوفے پر بیٹھ گئے حاشر مووی لگانے لگا دادا جان نے اپنا چشمہ عینک سائیڈ ٹیبل پر اتار کر رکھ دیا مووی سیٹ نہیں ہو رہی تھی حمزہ نے کہاکہ ’’میں آکر سیٹ کرتا ہوں‘‘ وہ جلدی سے اٹھا وہ سائڈ ٹیبل کے پیچھے سیٹی پر بیٹھا تھا۔ وہ اٹھنے لگا تو اس کا ہاتھ لگا۔ عینک نیچے گر گیا۔ کارپٹ بچھا ہوا تھا گرنے کی آواز بھی نہ آئی وہ کدھر گیا حمزہ کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا حمزہ کو محسوس ہوا تھا کہ کوئی چیز گری ہے۔ مگر اس نے جلدی میں مووی لگانے کی فکر میں کوئی توجہ نہ دی مووی لگانے میں مصروف ہو گیا۔
مووی لگ گئی تو دادا جان نے پہلا سین دیکھنے کے لیے آگے ہاتھ بڑھایا عینک اٹھانے کے لیے تو جس جگہ انہوں نے رکھا تھا وہاں نہ پایا۔ پھر ٹٹولا مگر نہ ملا پھر انہوں نے حاشر سے کہا کہ ’’بیٹا میری عینک نہیں مل رہی۔ میں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔‘‘حاشر کو پتا تھا کہ دادا جان یہیں رکھتے ہیں۔ مگر یہاں نہیں تو اس نے ٹیبل کے ادھر ادھر دیکھا نیچے دیکھا اس کو نظر نہ آیا۔ عینک برائون رنگ کی بالکل کارپٹ کے کلر کی تھی۔ حاشر کو نظر نہ آیا۔ اس کی بھی نظر کمزور ہے وہ بھی عینک لگاتا ہے۔ اتنے میں دادا جان نے کہا کہ حاشر مجھے باتھ روم میں لے کر چلو۔ بغیر عینک کے ان کو اندازے سے چلایا۔ اب باتھ روم میں تو لے گئے۔اب حاشر کو فکر ہو رہی تھی کہ عینک کے بغیر دادا جان کیا کریں گے حاشر اور سرمد باہر کھڑے تھے۔ اتنے میں دادا جان کی ٹکرانے کی آواز آئی۔ دادا جان دروازہ سمجھ کر دیوار سے ٹکرا گئے۔ اور سر زور سے دیوار پر لگے شیشے سے ٹکرایا ان کے ماتھے پر نشان پڑگیا۔ شیشہ کریک ہو گیا شکر ہے کہ دادا جان کو چوٹ نہیں آئی۔
حاشر اور سرمد نے فوراً آواز سن کی دروازہ کھولا اور ان کو پکڑ لیا۔ وہ گرنے نہیں پائے۔ حاشر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ دادا جان کی طرح حمزہ اور حارث نے بھی آواز سنی تو وہ بھی ڈرائنگ روم سے بھاگتے ہوئے آئے۔ دادا جان بولے کم بخت عینک پتا نہیں کہاں چلی گئی سائیڈ ٹیبل سے میں نے وہاں رکھی تھی۔ حاشر نے حمزہ اور حارث سے پوچھا کہ تم نے کہیں عینک دیکھی ہے۔ تب حمزہ کو یاد آیا کہ وہ پیچھے سیٹی پر بیٹھا تھا مووی لگانے کے لیے آگے بڑھا تھا تو کچھ گرتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ اس نے سوچا احتیاطاً دیکھ لیتا ہوں۔ وہ دیکھنے چلا گیا۔ حاشر اور حارث نے ان کو بستر پر لیٹایا۔ حمزہ نے ٹیبل صوفے کے نیچے دیکھا عینک نظر نہ آئی۔ کافی فاصلے پر دیوار کے پاس نظر آئی۔ جب وہ واپس مڑنے لگا تھا۔ کلر کی وجہ سے وہ مل نہیں رہی تھی۔ کافی محنت و کوشش سے وہ کامیاب ہو گیا۔ ورنہ وہ شرمندہ ہی رہتا کہ ایک تو دل میں دادا جان کے مووی دیکھنے پر ناراض تھا۔ اگر عینک نہ ملتی تو وہ خود کو قصور وار سمجھتا کہ دوست سمجھیں گے میں نے جان بوجھ کر عینک گرادی یا چھپا دی۔ بہر حال اسے نے سوچا کہ اللہ تو میری نیت کو جانتا ہے دوست جو بھی سوچیں۔ اس نے عینک لا کر دادا جان کو دی اور کہا کہ ’’وہ صوفے کے پیچھے کافی فاصلے پر کونے میں دیوار کے پاس پڑی تھی کارپٹ جیسے برائون کلر کی وجہ سے مشکل سے نظر آئی‘‘۔ دادا جان بہت خوش ہوئے۔ کیونکہ ان کی آنکھوں کی روشنی تو عینک لگانے سے روشن ہوتی ہے۔
’’انہوں نے کہا کہ بچوں آنکھیں بڑی نعمت ہے۔ زیادہ موبائل اور ٹی وی نہیں دیکھنا چاہیے اندھیرے میں اور لیٹ کر بھی نہیں پڑھنا چاہیے۔ اسکرین سے نکلنے والی لائٹ انکھوں کے لیے خطرناک ہے مکمل روشنی میں پڑھنا چاہیے۔
’’حارث نے سرگوشی کی اس کے کان میں تم نے کہیں جان بوجھ کر تو عینک غائب نہیں کی‘‘۔
افسوس کی بات ہے دوست ہو کر تم میرے بارے میں ایسے خیالات رکھتے ہو‘‘ حمزہ نے کہا۔
معاف کرنا میں سمجھا شائد مذاق میں تم نے ایسا کیا ہو۔ حارث نے کہا۔
’’میں بزرگوں کے ساتھ شرارتیں نہیں کرنا تم جیسے بندوں سے کرتا ہوں‘‘ حمزہ نے جواب دیا سوری یار حارث سرمد اور حاشر نے کہا۔
’’دادا جان مووی دیکھیں اگر آپ کی طبیعت ٹھیک ہے‘‘ حاشر بولا دادا جان نے کہا ٹھیک ہے۔ اٹھنے کی کوشش کی کھڑے ہوئے تو پائوں پر زور نہیں پڑ رہا تھا۔ ’’انہوںنے کہا کہ ہلکی سی موچ آئی ہے۔
دادا جان نے کہا کہ بیٹا میں نے دیکھنی بھی نہیں بس میری نیند کا وقت ہو گیا ہے۔ تم لوگ دیکھ لو سب نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ دادا جان آواز تو پریشان نہیں کرے گی۔ آپ کو LEDکی۔ بیٹا مجھے اونچا سنائی دیتا ہے میں ڈسٹرب نہیں ہوں گا۔حمزہ اور حارث مووی لگانے لگ گئے حاشر اور سرمد کھانا یعنی بریانی لائے۔ کھانا کھانے کے بعد مووی دیکھی۔ اس دوران دادا جان سو گئے حاشر نے کہا کہ وہ مووی دیکھتے نہیں۔ بلکہ ہم پر نظر رکھتے ہیں کہ ہم کوئی غلط قسم کی مووی تو نہیں دیکھ رہے۔ بس خیال رکھتے ہیں بری صحبت میں نہ جائیں۔‘‘
حارث نےکہا ’’یار اچھی بات ہے کہ ہم سب دوستوں کو سگریٹ اللہ معاف کریں کسی نشے کی عادت نہیں ہمارے بزرگوں کی نظر رکھنے کی عادت خوف اور فرمانبرداری نے ہمیں اس بری لت یعنی عادت سے بچا رکھا ہے۔ موبائل پر Apps بھی چیک کرتے ہیں ہم غلط ویب سائڈ نہیں کھولتے۔ نماز و قرآن پڑھاتے ہیں۔ ہماری عادت بنا دی تو ہم بھی اللہ کے قریب ہے۔ اس کا خوف ہے کہ اللہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے ورنہ غلط صحبت میں رہ کر انسان دین و دنیا دونوں سے جاتا ہے۔ اپنی زندگی تو برباد کرتا ہے۔ والدین کی زندگی بھی جہنم بنا دیتا ہے۔ یار اچھی بات ہے ہمارے بزرگ ہم پر سختی کرتے ہیں‘‘۔
سب دوستوں نے سرہلایا ’’بالکل ٹھیک‘‘
سرمد نے کہا کہ اچھے دوست بھی نعمت ہیں۔ جو ہم ایک دوسرے کو اچھی بات اور کام کرنے کو کہتے ہیں ہمارے خاندان بھی ہم پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اعتبار کو قائم رکھنا ہمارا فرض ہے۔‘‘

حصہ