ایران تو ایران، یہاں 5G انٹرنیٹ لائسنس ہولڈر ثابت کرنے کے لیے بھی سوشل میڈیا پر ایک کارپوریٹ جنگ چلی۔ Jazz نے اپنے پاس مذکورہ انٹرنیٹ اسپیڈ ٹیکنالوجی کے لائسنس یافتہ ہونے کا پرچار بھی کیا، ساتھ ہی Zongکے خلاف بھی ZongExposedکا ٹاپ ٹرینڈ بنوایا جنہوں نے 5G ٹیکنالوجی کے حامل ہونے کا غلط دعویٰ مشتہر کیا تھا۔ ویسے ایران اور امریکا کے مابین ظاہری سخت حالات پر بھی پاکستانی سوشل میڈیا خاصا گرم رہا۔ بھارت میں جاری شہریت بل کے خلاف ملک گیر پھیلتے احتجاج پر ہندوتوا سوچ کا انتہا پسند ردعمل سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ بدترین بدامنی و پرتشدد انداز میں بھی سامنے آیا۔ یہ اس حد تک آگے بڑھا کہ ایک بھارتی اداکارہ ’دپیکا پیڈاکون‘ نے ایک مظاہرے میں اظہارِ یکجہتی کیا کردیا کہ ان کے خلاف ردعمل میں ان کی متوقع فلم ’چھپاک‘ کی ریلیز پر پابندی لگانے کا مطالبہ شروع ہوگیا۔ سوشل میڈیا پر ایسی مہم شروع ہوئی کہ اُن کے جملوں سے انڈیا میں مخصوص تربیت کے حامل ہندوؤں کے اندر بڑھتی ہوئی بلکہ دلوں میں بھری نفرت کا اظہار دیکھ کر ضرور وہاںکے مسلمانوں کے لیے آپ میں اظہار ہمدردی پیدا ہوگا۔ وہ بار بار پاکستان سے کہہ تو رہے ہیں کہ ہماری فکر نہ کریں، لیکن اندر سے وہ خود جانتے ہیں کہ پاکستان کا لفظ ’پ‘ بولنا ان پر کتنا بھاری پڑے گا ان حالات میں، اس لیے وہ فوراً یہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ صرف اللہ ہی ہے، وہی ہماری مدد کرے گا۔‘‘ ہم بھی یہی دعا کرتے ہیں، کیونکہ پاکستان کشمیر کے لیے کچھ نہیں کر پارہا، جو بے چارے 70سال سے چیخ چیخ کر چلّا چلّا کر مدد کے لیے ہمیں پکار رہے ہیں۔
خیر بات ہورہی تھی ایران کی، جہاں کا قصہ عراق میں تعینات امریکی ’کنٹریکٹر‘ (کرائے کے قاتل) نورِس کے مارے جانے سے شروع ہوا (27دسمبر راکٹ حملہ)، اس کے بعد امریکہ نے عراق و شام میں بمباری کرکے حزب اللہ کو مورد الزام ٹھیرایا اور ایک کے بدلے 25 مارکر بدلہ لیا (29 دسمبر)۔ اس کے جواب میں بغداد میں 31 دسمبر کو امریکی ایمبیسی پر شدید مظاہرے کے صورت ردعمل آیا۔ پھر3 جنوری کو ایرانی جنرل کو مار دیا گیا۔ بات ختم نہیں ہوئی۔ پھر ایران کی جانب سے شدید ردعمل آیا اور سپر پاور، طاقت کے نشے میں چُور امریکہ سے بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا۔ اپنے جنرل کی تدفین کے اگلے روز ہی عراق میں امریکی ہوائی بیڑوں پر میزائل حملہ کیا گیا، بغداد میں کچھ مبینہ امریکی مفادات کی حامل جگہوں پر میزائل حملے کیے گئے۔ امریکہ کے مطابق اُس کا اِن حملوں میں کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا، پھر بھی ایران نے جاتے جاتے دھمکی لگائی کہ اب اگر امریکہ نے مزید ردعمل دیا تو پھر ایران جوابی کارروائی کے لیے اسرائیل کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ تادم تحریر بیان بازیاں، سوشل میڈیا تجزیے، تبصرے اور گپ شپ جاری ہے۔ پاکستان میں دلچسپ صورت حال رہی۔ اب معاملہ امریکہ بمقابلہ ایران تھا۔ یہاں لوگ یہ بات انتہائی کم جانتے تھے کہ عراق بنیادی طور پر تختۂ مشق بنا ہوا ہے۔ دو خلیجی جنگیں، پھر امریکی یلغار، پھر داعش کے بعد اب وہاں امریکہ، ایران کے سب سے زیادہ مفادات ہیں۔ ان کے بعد عرب ممالک کے مفادات ہیں جو کہ تمام کے تمام عسکری، مالی وسیاسی نوعیت کے ہیں۔ ایسے میں صرف ایک مدعا تھا جس پر بات ہونی، کرنی یا کی جانی چاہیے تھی، وہ یہ کہ امریکہ نے اپنی روایتی بدمعاشی دکھاتے ہوئے، عالمی قوانین کو روندتے ہوئے ایرانی فوجی سربراہ کو عراق میں میزائل حملے میں کیسے جاں بحق کر ڈالا؟ لیکن سوشل میڈیا پر بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ کچھ امریکی لابی میں چلے گئے اور ایران و ایرانی جنرل کے خلاف معلومات نکال کر اس کی موت کو درست ثابت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے خلاف مبینہ ایرانی اقدامات کو بھی جواز بنانے لگے۔ جواب میں لوگ امریکی نفرت میں ایران کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اس کو ’نورا کُشتی‘ بھی قرار دیا گیا۔ اہلِ تشیع حضرات تو تمام اس میں شامل تھے، پھر ان کے فالوورز، دوست احباب نے بھی دل کھول کر لائیک شیئر کیا۔ ایران کے پاکستان سے رابطے کے تناظر میں یہ ٹوئٹ بہت مقبول رہی جس کے مطابق ’’ایران کا پاکستان سے رابطہ، پاکستان نے ثالث کا کردار نبھاتے ہوئے زبردست قسم کی تقریر، دو تین فلموں کے اسکرپٹ اور ’’امریکہ جا جا عراق سے نکل جا‘‘ کے ترانے کا فارسی ورژن تھما دیا‘‘۔ اسی طرح امریکی میزائل حملے کے بعد لوگوں نے اس عمل کو اس انداز سے بھی لیا’’اگر آپ کسی کے گھر بندوق اٹھاکر چلے جائیں اور وہاں جاکر اس کے گھر کے باہر ہوائی فائرنگ کردیں۔ بندے نہ بھی مریں، نقصان نہ بھی ہو تو اِسے عزت پر حملہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ ایران امریکہ کے مقابلے میں ہر لحاظ سے چھوٹا سا ملک ہے، مگر اس نے دُنیا کے بدمعاش نمبر 1کے سامنے ڈٹ کر اُس کا غرور ضرور خاک میں ملا دیا۔‘‘ ڈاکٹر اسامہ شفیق لکھتے ہیں ’’اُسامہ بن لادن کو امریکہ نے نمبر 1 دہشت گرد قرار دیا اور ہلاکت پر جشن۔ ایران میں آج قاسم سلیمانی نمبر1 دہشت گرد اور جشن۔ شام میں آپ سب کا جرم مسلمان ہونا ہے۔ اب بھی وقت ہے مذہبی فرقہ پرستی سے نکل کر اُمت کے تصور کا احیاء کریں، ورنہ نہ سنی بچے گا نہ شیعہ۔‘‘ کوئی اس انداز سے توجہ دلا رہا تھا کہ ’’آپ کے گھر کے سربراہ کو دشمن مار دے اورآپ ہوائی فائرنگ کرکے کہیں کہ ہم نے بدلہ لے لیا ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ آپ خاموش رہتے اور وقت کا انتظار کرتے۔‘‘اس کے علاوہ امریکی دشمنی میں ایک اور بیانیہ بھی یہ پھیلا رہا کہ ’’امریکا کا اصل کھیل۔ ایران تو بہانہ ہے، عراق ٹھکانہ، اور پاکستان نشانہ ہے۔‘‘
#PakistanPeaceEffortsکا ہیش ٹیگ بھی اس دوران ٹاپ ٹرینڈ بنا جس میں پاکستان کے وظائف اس بیانیے کے ساتھ پھیلائے گئے کہ ’’پاکستان ہر جگہ امن کے لیے کردار ادا کررہا ہے۔ ایران سعودی تنازع میں کردار۔ سعودی ترکی تنازع میں کردار۔ ایران امریکہ تنازع میں کردار۔ امریکہ طالبان مذاکرات۔ آج کے ٹرینڈ سے دنیا کو پاکستان کا پُرامن چہرہ دکھایا جارہا ہے کہ پاکستان امن کے لیے کیا کچھ کررہا ہے۔ سب مل کر ساتھ دیں۔‘‘اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک اور مقبول بیانیہ پاکستان کے تناظرمیں یہ تھا ’’ایران کا جرنیل اڑا دیا امریکہ نے، اور اب ایران کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ وہ وقت یاد کرو جب آپ کے وزیراعظم نے بھارت کو کہا تھا کہ ہم ضرور جواب دیں گے، اور پھر اگلے روز دن کی روشنی میں ان کے دو جہازوں، اسلحہ کے ڈپو اور تمام ہائی رینک جرنیلوں کو بھی نشانہ بنالیا تھا اور پوری دنیا میں بھارت کوذلیل کردیا۔ شکر کرو اور فخر کرو اپنی فوج پر۔‘‘ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی والز پر کیا کچھ چل رہا تھا۔
بہرحال اس ہفتے سوشل میڈیا پر دوسرا اہم ترین موضوع ’افواج پاکستان کے سربراہ کی مدت ملازمت کا بل‘ تھا۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ ’جوتوں‘ (فوجی بوٹ) کی تصاویر وائرل رہیں، لیکن کوئی بھی شاہد ہاشمی کی جانب سے پوچھی گئی یہ بات بتانے کو تیار نہیں کہ ’آئندہ‘ کون سا آرمی چیف ہوگا… جو ایکسٹینشن سے بھاگے گا؟ اور کس وزیراعظم میں ہمت ہوگی کہ وہ ایکسٹینشن دینے سے انکار کرے؟ ہاں نیول اور ایئرچیفس کے معاملے میں وزیراعظم اپنی ’’اتھارٹی‘‘ کا جھنڈا لہرا سکتا ہے، وہ بھی اِس صورت میں کہ آرمی چیف اُن کے معاملے کو اُس وقت کے وزیراعظم پر چھوڑ دے۔‘‘ یہ اور اس جیسے بے شمار اہم نوعیت کے سوالات کے جوابات کی بھرمار بھی تھی، تنقید و بوٹ پالش کے سخت نشتر بھی چلتے رہے۔ ایک فلم کا سین تو بے حد پسند کیا گیا جس میں ایک بچہ پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے احتجاجاً کہہ رہا ہوتا ہے کہ ’’مجھے بوٹ پالش کرنی نہیں آتی۔ میں پالش نہیں کروں گا۔ مجھ سے پالش نہیں ہوتی۔‘‘ تو اس بھولے کو دلاسا دیتی معصوم سی ایک بچی تاریخی الفاظ کہتی ہے ’’آجائے گا بھولا۔ سب لوگوں کو تھوڑا تھوڑا آتا ہے۔ اپنے کو بھی آجائے گا۔‘‘ گوکہ یہ ایک فلم کا منظر تھا لیکن پاکستانی سیاسی منظرنامے پر اتنا فٹ بیٹھا کہ مت پوچھیں۔ ویسے یہ سین ڈھونڈ کر لانے والوں کو سلام کہ اس کے ذریعے اس ایشو پر جتنی اچھی تفہیم ہوئی ویسی عام پوسٹ میں ممکن نہیں ہورہی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی اپنا دفاع عجیب انداز سے کرتی نظر آئی، جس میں درپردہ اُس کا یہ اقرار بھی شامل نظر آیا کہ گرفتاریوں سے بچنے کے لیے یہ کیا گیا۔ بل کی مخالفت واک آؤٹ کی صورت میں صرف جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام(ف)، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے کی۔ اہم بات یہ بھی تھی کہ بل جتنی عجلت میں پیش ہوا اتنی تیزی سے ریکارڈ وقت میں منظور بھی ہوگیا۔ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی بھی، ایک انٹرویو کی چھوٹی سی ویڈیو خاصی وائرل رہی جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ ’’میں جوتے پالش نہیں کرتی اور اُس کو برا سمجھتی ہوں۔‘‘ اس کلپ کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی بل کی حمایت میں جاری ہونے والی فوری پالیسی نے ساری پارٹی کا رنگ جما دیا۔ بنائی گئی کئی مقبول پوسٹوں میں سے ایک یہ والا پیروڈی شعر بھی وائرل رہا:۔
۔’’چاٹا کچھ اِس ادا سے کہ پالش اُتر گئی
اک پٹواری فوجی بوٹ کے تسمے بھی کھا گیا‘‘۔
اسی طرح نواز لیگ کا مقبول نعرہ کچھ اس طرح طویل ہوگیا ’’ووٹ کو عزت دو، اور بوٹ کو پالش دو۔ مسلم لیگ نون‘‘۔ ’’مولانا ڈٹ گئے، باقی دب گئے‘‘ کا ہیش ٹیگ بناکر ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں جے یو آئی (ف) نے بھی اپنا قد اونچا کیا۔ ان کا بیانیہ تھا: ’’ہمارا اصولی مؤقف ہے کہ یہ اسمبلی دھاندلی زدہ ہے، اس کو قانون سازی کا اختیار نہیں، اس لیے ہم اس قانون سازی کا حصہ نہیں بن سکتے، عوام جان چکے جمہوریت کی خاطر کون ڈٹ کے کھڑا رہا۔‘‘ اسی طرح یہ بھی تنقید کی گئی کہ ’’آج پارلیمنٹ کو خصوصی رنگ دیا گیا۔ پی ٹی آئی، نواز لیگ، پی پی پی، اے این پی، ایم کیو ایم وغیرہ کو مبارک ہو۔ نیز یہ تمام اگر وردی پہن کر اسمبلی اجلاس میں شرکت فرمائیں اور اجلاس سے پہلے ارکانِ اسمبلی ریہرسل پریڈ کا بھی اہتمام کرلیں تو مناسب ہوگا۔‘‘ صہیب جمال لکھتے ہیں کہ ’’ہم سب شاید عمران خان اور اس کی پوری ٹیم کو نااہل اور بوٹ پالشی سمجھ رہے ہیں، اب میں آپ کو سناتا ہوں اصل کہانی جو صرف میرے دماغ میں آئی تھی۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے اس پر بوٹ پالش کی چھاپ الیکشن سے پہلے ہی لگ چکی تھی۔ عمران خان نے ایک پلان کے تحت اپنی پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ یا آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کے منظورِ نظر شامل کیے، اس دوران محکمہ زراعت نے باقی ماندہ کو پی ٹی آئی کا مفلر پہنوایا اور الیکٹ ایبلز جمع ہوگئے۔ اب اس نے پلان کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی چھری سے ہی اسٹیبلشمنٹ کو حلال کیا جائے۔ باجوہ کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آگیا۔ بس! یہاں سے خان نے کرکٹ جیسی بساط بچھائی، خود ہی توسیع کا آرڈر جاری کیا، خود ہی درخواست لگوائی اور ججوں کو کہہ دیا کہ اگر درخواست گزار کہیں غائب ہوجائے تو ازخود نوٹس لے لیں۔ پلان کے مطابق صدر عارف علوی نے سمری پر دستخط کردیے، سمری کابینہ کی ووٹنگ کے بغیر ہی فائل میں لگا دی گئی، دوبارہ صدر کو نہیں بھیجی گئی۔ یہ بے وقوفانہ حرکت بھی پلان کا حصہ تھی۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، مدعی خوف کے مارے بھاگ نکلا۔ کورٹ نے آرڈر کے ڈاکومنٹس کو بار بار مسترد کیا، ورنہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ فروغ نسیم جیسا ماہرِ قانون ایسی غلطی کرے؟ کیس کا فیصلہ بھی پلان کے مطابق ہوا۔ دوسری طرف خان نے اپوزیشن کو بھی راضی کرلیا اور اپنا پلان بتادیا کہ میں آرمی چیف کو سپریم کورٹ کے فیصلے اور پارلیمنٹ کا محتاج بنادوں گا، بس آپ لوگ تھوڑا معاملے کو طول دیں، آسانی سے نہیں مانیے گا۔ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے معاملے کی نزاکت کو سمجھ لیا۔یہ سب بھی پلان کے مطابق ہوا، ایک دن میں ہی پاس ہونے والا آرمی ترمیمی آرڈی نینس بل پانچ چھ دنوں کے لیے طول پکڑ گیا اور کل یہ بل کثرتِ رائے سے پاس ہوگیا۔ خان نے اپنے اوپر لگنے والی بوٹ پالش چھاپ کو ہی استعمال کرتے ہوئے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی آرمی چیف کو سویلین اداروں کا مرہونِ منت کردیا، اس نے فوجیوں کو بتادیا کہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ وزارتِ دفاع کے اس محکمے کے اوپر ہیں۔ اس دوران اپنے وزراء کو ہدایت کی کہ سپریم کورٹ پر تنقید جاری رکھیں، اور پرویزمشرف کے کیس کو بھی ہلکا کردیا اور فیصلہ اس کے خلاف آیا، اور اپنے آپ کو یہ شو کیا کہ ہم سابق چیف کی بھی موجودہ چیف کی طرح خدمت کرسکتے ہیں، ہم سے بڑا کوئی وفادار نہیں۔ یہ بھی ٹریپ کرنے کا حربہ تھا۔ خان بہت چالاک ہے۔ یوں اس مردِ آہن نے پوری فوج کو، حکومت اور اپوزیشن کا زندگی بھر کے لیے احسان مند کردیا۔ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع بھی ہوگئی، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی بالادستی بھی قائم ہوگئی۔ اب خان کو کوئی بوٹ پالشی نہ کہے، اس نے اور اس کی قانونی ٹیم نے واقعی پہلی دفعہ فوجیوں کو ’عوام کے ملازم‘‘ ثابت کردیا۔ جب بھی تاریخ لکھی جائے گی اس میں لکھا جائے گا کہ ’’پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں کسی آرمی چیف کو پارلیمنٹ نے اپنی مرضی سے توسیع دی اور پہلی دفعہ اسی دور میں کسی آرمی چیف کو آئین توڑنے پر پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ ورنہ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ، جو یہ کہتا ہو کہ آرٹیکل 6 کے تحت پرویزمشرف کو پھانسی دی جائے اور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت نہ بڑھائی جائے، وہ یکدم یوٹرن لے لے؟ نہیں، یہ سب پلان تھا، اس کو میں ’’نیازی پلان‘‘ کا نام دیتا ہوں۔ بس اب معیشت کی بہتری پر خان کی توجہ ہوگی، چند دنوں میں ایسا گیم پلان خان امریکہ کے ساتھ کھیلے گا کہ ڈالر برسیں گے۔‘‘
’میرے پاس تم ہو‘ ، ’بول چیمپئنز‘ اور ’عہدِ وفا‘ یوٹیوب کی ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں بدستور چھائے رہے۔ ان کے ساتھ ہی اقرا عزیز اور یاسر کے نکاح، ولیمہ و شادی کی تقریب کی ویڈیوز بھی خوب وائرل رہیں۔ انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں جہاں خوشیوں کے، موج مستیوں کے شادیانے تھے وہاں اچانک سے ایک تھپڑ کی گونج نے بھی جگہ بنائی۔ تھپڑ مارا وفاقی وزیر فواد چودھری نے، اور وہ بھی ایسی ہی ایک شادی کی تقریب میں، اور تھپڑ جسے کچھ لوگ پٹائی بھی قرار دے رہے ہیں، کھایا سابق اینکر، فلمساز و موجودہ یوٹیوبر مبشر لقمان نے۔ ہوا یہ کہ بدنام زمانہ موبائل ایپلی کیشن ٹک ٹاک سے (بدنامی والی) شہرت پانے والی حریم شاہ اور صندل خٹک کی اصل دستاویزات جس میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے عکس شامل تھے، سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ کس نے کہاں کا غصہ نکالا یہ آپ نہیں جان سکیں گے۔ اسی دوران وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید اور پھر صوبائی وزیر اطلاعات (پنجاب) فیاض الحسن چوہان کی خاتون کے ساتھ کی گئی فون کال کی لائیو بنائی گئی ویڈیو لیک کردی گئی۔ مبشر لقمان نے اپنے یوٹیوب چینل پر لاہور کے ایک صحافی کو بٹھا کر حریم شاہ کی مزید ویڈیوز سے متعلق انکشاف کروا کر فواد چودھری کا نام بھی کہلوا دیا۔ اس پروگرام کی پروموشن کے لیے اس نے جو ٹیگ لائن استعمال کی وہ یہ تھی ’’کن کن وفاقی وزیروں کی ویڈیوز حریم شاہ کے پاس ہیں؟‘‘ اس ٹائٹل کے ساتھ مبشر لقمان نے سوشل میڈیا پر بمبارٹمنٹ کرا دی۔ مبشر لقمان کے یو ٹیوب چینل کے ساڑھے نو لاکھ سے زائد سبسکرائبر ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ویوز والی ویڈیوز اسی موضوع سے متعلق ہیں۔ اس دوران اگلے ایک دو دن میں ایک شادی میں دونوں کی ملاقات گفتگو سے کہیں آگے نکل گئی اور میڈیا کے لیے سنسنی خیز خبر بن گئی۔ فواد چودھری اس سے قبل ایسی ہی کسی شادی کی تقریب میں اینکر سمیع ابراہیم کو بھی تشدد کا نشانہ بنا چکے تھے۔ اس لیے شروع میں ان کے خوب لتے لیے گئے، لیکن چونکہ مبشرلقمان کی شہرت بھی ویسی ہی ہے اس لیے دونوں طرف سے ملا جلا رجحان رہا شائقین کا۔ اب سب کا ایک ہی سوال تھا کہ جو الزام لگایا ہے مبشرلقمان نے، اُسے وہ ثابت کریں اور مذکورہ غیر اخلاقی ویڈیوز کو منظرعام پر لائیں۔ معاملہ قومی اسمبلی میں بحث تک چلا گیا۔ خاصا شور ہوا، زرتاج گل آبدیدہ ہوگئیں۔ مگر معاملہ جوں کا توں رہا۔ بات یہاں تک نہ رکی، حریم شاہ کے والد کی ایک ویڈیو آئی اور اُس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک مجبور، شریف النفس بے بس باپ اپنی نافرمان بیٹی کے عمل پر لاتعلقی، معافی، قطع تعلق کے ساتھ جو کچھ کہہ سکتا تھا کہہ گیا۔ حریم شاہ منظر سے غائب رہیں، پھر تادم تحریر کینیڈا کے مشہور یوٹیوبر شاہویر جعفری کے ساتھ ان کی تصویر منظرعام پر آئی اور وہ ایک بار پھر گفتگو کا حصہ بن گئیں۔ بول ٹی وی پر جاری وقار ذکا کے چیمپئنز کے شو میں بھی وہ منتخب ہوچکی تھیں لیکن اس کے اہم پروگرام میں بھی وہ دونوں غائب رہیں۔ حریم شاہ اور صندل خٹک کی طویل داستان ہے جو مستقل ریٹنگ کے لیے مختلف زاویوں سے پھیل رہی ہے۔ آئے دن ویڈیوز جاری ہوتی ہیں، تجزیے تبصرے ہورہے ہیں، لیکن چیزوں کو کنکریٹ ہونا ابھی باقی ہے۔ چلتے چلتے ایک اورتصویر، جس میں فواد چودھری مبشر لقمان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سیلفی بنا رہے ہیں وہ بھی وائرل رہی، بس کیپشن یہ تھا کہ ’’اینکر پرسن مبشر لقمان اور وفاقی وزیر چولیات فواد ڈبو کسی وقت جگری یار تھے۔ ایک تھالی میں کھاتے تھے، اچانک چوتھے فلور پر حریم شاہ زندگی میں آگئی اور یہ دونوں پی ٹی آئی مجاہد آپس میں لترولتری ہوگئے۔‘‘
معروف کینیڈین بائیک رائیڈر سیاح، روزی گیبرئیل کا قبول اسلام
معروف کینیڈین بائیک رائیڈر سیاح روزی گیبرئیل نے قبول اسلام کی اطلاع اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ظاہر کی تو سب کا دل باغ باغ ہوگیا۔ اس جنتی انسان کا خیال آیا جس نے اسے اس جانب دعوت دی، کیونکہ تادم تحریر کوئی اور نام، حوالہ سامنے نہیں آیا، ماسوائے اس جملے کہ “کائنات مجھے پاکستان لے آئی۔‘‘ ٹویٹر پر ایک گھنٹے میں روزی گیبرئیل ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں ابھرا۔ ہر جانب سے مبارک باد، خوشی کا اظہار، استقامت کی دعائیں۔ یہ عظیم خبر عین اسی گھنٹے میں ریلیز ہوئی جب محترم وزیر اعظم عمران خان ہنر مند پاکستان پروگرام کی لانچنگ تقریب میں نوجوانوں کو واضح کر رہے تھے کہ، “ہنسی خوشی رہنے کی باتیں کہانیوں میں ہی ہوتی ہیں۔ سکون کی زندگی صرف قبر میں ہوتی ہے۔‘‘
اس پر عوامی رد عمل جاری تھا کہ روزی آئی اور سب پر بازی لے گئی۔
اہم بات یہ محسوس ہوئی کہ اس نے کیوں؟ کیسے؟ اسلام قبول کیا یہ وضاحت اس کے طویل مبہم پوسٹ سے سامنے نہیں آئی۔