سیدہ عنبرین عالم
۔’’اماں! کتنی بار سمجھایا ہے آپ کو کہ موبائل فون پر میسج کیسے پڑھتے ہیں، آپ پڑھ ہی نہیں پاتیں اور شور مچا دیتی ہیں۔ بیلنس نہیں تھا میرے پاس کال کرنے کا، تو میسج کردیا۔‘‘ سعدیہ نے تنگ آکر اماں سے کہا۔
’’ارے تو پہلے سے بیلنس کیوں نہیں ڈلواتیں، ایک ایک روپیہ ختم ہونے کا انتظار کیوں کرتی ہو؟ معلوم ہے کہ میں گھر پر اکیلی ہوتی ہوں، فکر رہتی ہے مجھے تم لوگوں کی، احساس ہی نہیں ہے تم لوگوں میں۔‘‘ اماں نے کہا۔
صباحت بیگم آج سے دس سال پہلے بیوہ ہوگئی تھیں، اسکول میں ہیڈ مسٹریس رہیں، 18 گریڈ سے ریٹائر ہوئیں، اور اب گھر پر ہوتی ہیں۔ دو بیٹیاں تھیں، سعدیہ 35 سال کی ہورہی تھیں، تو نادیہ بھی 30 سال کی ہوچکی تھیں، بیٹا نوید تھا جو 27 سال کا تھا۔ وہی پڑھے لکھے گھروں کا رونا کہ لڑکیوں کے لیے مناسب رشتے نہیں مل رہے تھے۔ خیر، دونوں بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں، دونوں کے پاس اپنی اپنی گاڑی تھی، بہترین نوکریاں تھیں، گھر والد صاحب کا تھا اور بڑا شان دار تھا۔ نوید بھی انجینئرنگ کرکے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوچکا تھا۔ گھر کا ہر فرد خوب کما رہا تھا۔ صباحت بیگم کی بھی اچھی خاصی پینشن آتی تھی۔ ملازمین بھی تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ صباحت بیگم ہر سائنسی ایجاد کے استعمال میں پریشان ہوجاتی تھیں۔ بس ٹی وی چلانا آتا تھا، سارا دن ڈرامے دیکھتی رہتی تھیں۔ باقی نہ AC چلا پاتیں، نہ مائیکرو ویو اوون۔ موبائل کے استعمال میں تو شدید پریشانی ہوتی۔
وہ اب تک نئے دور کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرپائی تھیں، حتیٰ کہ بچے شاپنگ کرکے آتے تو بل اُن سے چھپاتے۔ وہ خود تو مارکیٹ جاتی نہیں تھیں، اور آج کل کی قیمتوں پر انہیں یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اتنی معمولی استعمال کی چیزوں کے اتنے دام بھی ہوسکتے ہیں! وہ سمجھتیں بچے بے وقوف ہیں جو اتنے دام دے آئے، اور خوب ہنگامہ کرتیں۔ موازنہ اپنے دور سے کرتیں کہ یہ چیز تو ہم بچپن میں اتنے آنے، اتنے پائی کی لاتے تھے، تم ہزاروں روپے خرچ کر آئیں۔ عمر کا بھی تقاضا تھا کہ مشکل سے بات سمجھ میں آتی تھی۔ بچے نظرانداز کردیتے اور ماں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے۔
بچپن سے صباحت بیگم نے بچوں کو قیلولے کی عادت ڈالی تھی، اسکول سے واپس آنے پر کھانا کھلا کر سلا دیتیں، چونکہ خود بھی ملازمت کرتی تھیں اس لیے تھک ہارکر سوجاتیں۔ آج بچے عاقل وبالغ تھے، مگر وہ اپنے اصولوں کے مطابق ہی چلنا چاہتی تھیں۔ باقی دن تو بچے گھر پر ہی نہ ہوتے۔ ہفتہ، اتوار کو بھی فجر سے سب کو اٹھا دیتیں، سب کا ناشتا تک تیار کردیتیں۔ بچے فجر پڑھ کر سونا چاہتے، مگر ناشتا کرنا پڑتا۔ پھر سب کو قرآن اور ترجمہ تفسیر پڑھاتیں، اسی میں 8 بج جاتے۔ پھر کہاںکا سونا، کیسا سونا! صباحت بیگم تسلیم کرنے کو تیار ہی نہ تھیں کہ ان کے بچے بڑے ہوگئے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اب دوپہر کو دوست احباب سے پروگرام سیٹ ہوتے۔ کوئی ضروری کام ہوتے مگر ڈرائنگ روم میں بڑی سی چادر بچھاکر سب کو سلا دیتیں۔ نوید چھوٹا تھا، لاڈلا تھا، وہ اماں کو فون پر وڈیوز وغیرہ دکھاتا۔ اماں بہت خوش ہوتیں، مگر آدھے گھنٹے میں ہی فون چھین کر سونے کا حکم جاری کردیتیں۔ سعدیہ اور نادیہ سے ہر ہفتہ، اتوار روایتی کھانے پکواتیں، کڑھائیاں کرواتیں کہ ان کی بیٹیوں کو کوئی پھوہڑ نہ کہے۔
’’اماں! میری تنخواہ دو لاکھ روپے ہیں، میں ایک سے ایک کڑھائی والے لباس خرید سکتی ہوں، اچھے سے اچھا خانساماں رکھ سکتی ہوں، آپ نے کیوں میرا جینا حرام کررکھا ہے؟‘‘ نادیہ زچ ہوکر کہتی، اور صباحت بیگم کا ایک ہی جواب ہوتا ’’تم ماں نہیں ہوناں، تم نہیں سمجھ سکتیں، مجھ سے اللہ پوچھے گا تربیت کا کہ بچوں کی کیسی تربیت کی؟ میری ذمہ داری ہے۔ جب تک تم لوگوں کی شادی نہیں ہوتی، تم لوگ میری ذمہ داری ہو۔‘‘
سعدیہ، نادیہ، نوید کی ایک چچی تھیں، چچا کا تو انتقال ہوچکا تھا۔ چچی اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ اپنا بیوٹی پارلر چلاتی تھیں اور شہر کے ایک مہنگے علاقے میں رہتی تھیں۔ سعدیہ، نادیہ نے سوچا کہ ہمارے لیے تو ہمارے معیار کے رشتے مل نہیں رہے، چلو چچا کی بیٹیاں نوید کے لیے دیکھ آئیں۔ برسوں سے میل جول نہیں تھا، مگر فون کیا تو چچی نے فوراً خوش آمدید کہا۔ اب جانے کی تیاری تھی، صباحت بیگم کے بال ہیئر ڈائر سے سیٹ کرنا چاہے، تو انہوں نے ہنگامہ کردیا کہ اس میں سے تو گرم ہوا آرہی ہے، میرے بال جل جائیں گے۔ کپڑے بھی ہمیشہ سے بے کار والے ہی چنتیں، چاہے اعلیٰ ترین کپڑوں سے الماری بھری پڑی ہو، وہی غریبوں والی عادتیں تھیں، کیوں کہ عمر تنگی میں گزاری تھی۔ بڑا سمجھا بجھا کر بوتیک لے جایا گیا، قیمتی کپڑے دلائے گئے۔ ’’اماں! بزرگ قیمتی کپڑوں اور رکھ رکھائو میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ لوگ کیا سوچیں گے کہ صباحت بیگم کے بچے ان کا خیال نہیں رکھتے! آپ تو ہماری بے عزتی کرا دیتی ہیں۔‘‘ نوید نے کہا۔
چچی کے گھر کے قریب پہنچے تو ایک نہاری پائے وغیرہ کی دکان رستے میں پڑی، صباحت بیگم کا دل بے قرار ہوگیا، مگر چپ رہیں، کیوں کہ سری پائے وغیرہ کھانا ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کے نزدیک بدتہذیبی تھی۔ چچی اور ان کی بیٹیاں بڑے تپاک سے ملیں۔ دوپہر کی ملاقات رکھی گئی تھی کیوں کہ شام کو سب کو پارلر میں ڈیوٹی دینی ہوتی تھی۔ بہرحال کھانے میں پیزا، لزنیہ، چکن پاٹی، فروزن ڈیزرٹس سب کچھ تھا، مگر صباحت بیگم بیزار بیٹھی تھیں۔ ’’اس بے ذائقہ کھانے سے تو ایک املی والی دال، زیرے والے چاولوں کے ساتھ رکھ دیتیں، مزا آجاتا۔‘‘ انہوں نے سوچا۔
گھر میں جب بھی انگریزی کھانے بنتے صباحت بیگم اپنے لیے الگ سے کچھ بنا لیا کرتیں۔ چچی پریشان ہوگئیں۔ ’’بھابھی طبیعت خراب ہے کیا؟ کچھ اور منگا دوں آپ کے لیے؟‘‘ انہوں نے دریافت کیا۔ دو منٹ تکلف کرنے کے بعد صباحت بیگم نے آخر پایوں کا نام لے ہی دیا۔ بچے شرمندہ ہوکر رہ گئے، چچی اور اُن کی بیٹیوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ چند ہی لمحوں میں نلی والے پائے، کڑک نان، دودھ پتی سب حاضر۔ صباحت بیگم کی تو عید ہی ہوگئی۔ انہیں پتا تھا یہ سب دوبارہ نصیب نہیں ہوگا، سو ایسا دھاوا بولا کہ سب اکیلے ہی چٹ کر گئیں۔ رشتہ تو رہا ایک طرف… سعدیہ، نادیہ، نوید معذرت کرتے رہ گئے، مگر چچی نے اور پائے منگوا کر پارسل کرکے ان لوگوں کے ساتھ کیے۔
گھر آکر بچوں نے جو صباحت بیگم کو کھری کھری سنائیں، وہ دو گھنٹے اکیلی بیٹھی سسکتی رہیں اور فیصلہ کرلیا کہ آئندہ بچوں کے ساتھ کہیں نہیں جائیں گی۔ اگلا جھگڑا ہوا بیٹیوں کے ساتھ مہینے کے سودے پر۔ سعدیہ، نادیہ ایک سپر اسٹور سے پورے مہینے کا سودا کسی بھی اتوار کو جاکر لے آیا کرتی تھیں۔ چار افراد کے گھر میں 50 ہزار کا راشن! صباحت بیگم نے سودے کو فضول خرچی قرار دے دیا اور کہا کہ آدھے سے زیادہ سودا ایسا ہے جس کی ضرورت نہیں تھی، ہم تو آٹا، دال، چاول، نمک، مرچ، گھی شکر، صابن اور ٹوتھ پیسٹ لاتے تھے ہر مہینے، بس۔ بیٹا! اللہ میاں کے ہاں پوچھ ہے، رحم کرو۔‘‘ صباحت بیگم نے کہا۔
’’ہم افورڈ کرسکتے ہیں کیونکہ اَپر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، ہم ضروری نہیں سمجھتے کہ اپنی زندگی دال چاول تک محدد کرلیں، اسی طرح معیشت چلتی ہے، ہم غیر ضروری سامان خریدنا بند کردیں تو لاکھوں فیکٹریاں بند ہوجائیں، لوگوں کے چولہے بجھ جائیں۔ آپ تو بس پورے معاشرے کو بھکاری بنانا چاہتی ہیں، آپ مارکیٹ اکانومی کو نہیں سمجھ سکتیں۔‘‘ سعدیہ نے ایسا عالم فاضل بیان دیا کہ صباحت بیگم کو خاموش ہوتے ہی بنی۔ اب ان کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ ’’مارکیٹ اکانومی‘‘ کیا ہوتی ہے۔ ساری زندگی بس بچوں کو دس تک پہاڑے یاد کرائے، یا ہیڈ مسٹریس بنیں تو بچوں کے بال، ناخن، یونیفارم چیک کرلیتیں۔ اب سرکاری اسکول میں ٹیچر تو درکنار چوکیدار، چپراسی تک کو کچھ نہیں کہہ سکتے، سب پکی نوکریاں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
خیر جناب روز کی چخ چخ معمول بن چکی تھی۔ جہاں صباحت بیگم کو اولاد کے لباس اور اطوار سے لے کر احباب اور معمولات تک پر اعتراض تھا، وہیں بچے بھی 75 سال کی ماں کی عادتیں تبدیل کرنے کی سر توڑ کوششیں کررہے تھے تاکہ انہیں ماں کی وجہ سے اپنے سرکل میں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ صباحت بیگم نے شادی سے پہلے بھی ملازمتیں کر کرکے ماں باپ کا گھر چلایا، یہاں تک کہ شادی ہوئی تو گھر تو شوہر کی تنخواہ میں چل جاتا تھا، مگربچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا تھا، لہٰذا نوکری کے ساتھ چمٹنا ہمیشہ ان کی مجبوری ہی رہی۔ آج اولاد وہ بن چکی تھی جو وہ چاہتی تھیں۔ بڑی مشکل سے بچوں کو بیرونِ ملک جانے سے روکا ہوا تھا کہ میری زندگی تک رک جائو، پھر سب پُھر سے اُڑ جانا۔
نادیہ آج پھر صباحت بیگم سے لڑ کر بیٹھی ہوئی تھی، صباحت بیگم ماسیوں اور دیگر نوکروںکو اتنا تنگ کرتی تھیں کہ دو، چار مہینے میں سب نوکری چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ سرف تک اگر کوئی نوکر زیادہ استعمال کرلے تو فساد۔ جھاڑو ایک مہینے سے پہلے بے کار ہوجائے تو فساد۔ اگر نادیہ، سعدیہ جھگڑے کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کریں تو وہ سعدیہ، نادیہ سے لڑ پڑتیں کہ نوکر کی حمایت میں مجھ سے بحث کررہی ہو! بہرحال نادیہ نے اپنے کمرے میں آکر کمپیوٹر کھول لیا۔ اس کی آج کی چھٹی صباحت بیگم کے غصے کی نذر ہوچکی تھی۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھی کہ صباحت بیگم نے ساری زندگی جس تنگی کا سامنا کیا ہے، اب چاہے جتنا بھی پیسہ آجائے اُن کی سرشت سے کفایت کا عنصر نہیں نکالا جاسکتا۔ وہ اب کمپیوٹر میں محو ہوچکی تھی۔ اُس کی نظر ایک ریسرچ پر پڑی کہ دنیا کے سب سے زیادہ غلط فیصلے دوپہر دو سے پانچ بجے کے درمیان ہوتے ہیں۔ اس کو یہ معاملہ دل چسپ لگا اور وہ تفصیل سے ریسرچ پڑھنے لگی۔ اس میں لکھا تھا کہ صبح سے کام کرتے کرتے دوپہر میں لوگوں کی قوتِ فیصلہ ختم ہوجاتی ہے، دماغ اس لائق نہیں رہتا کہ صحیح فیصلے کرسکے۔ جنرل احمد شجاع پاشا کے متعلق بیان تھا کہ امریکی انہیں جب بھی کسی حساس میٹنگ کے لیے بلاتے تو رات کے دوسرے پہر میں بلاتے تاکہ یہ لوگ ذہنی طور پر تھکے ہوں اور صحیح فیصلہ نہ کرسکیں۔ اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ شام چھ بجے ہی سو جاتے، اور جب میٹنگ میں پہنچتے تو تازہ دم ہوتے۔ آج سے پچاس سال پہلے لوگ زیادہ خوش اور صحت مند ہوتے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صبح فجر میں اٹھتے تھے اور ظہر کے بعد کھانا کھا کر قیلولہ کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اپنے صحابہؓ کی زندگی میں داخل کردیا تھا کہ قیلولہ ضرور کرنا ہے۔ آج بھی کئی عرب ریاستوں میں یہ طریقہ رائج ہے۔ نادیہ حیران تھی کہ صباحت بیگم نے تو یہ ریسرچ نہیں پڑھی ہوگی، پھر وہ قیلولہ پر اس قدر زور کیوں دیتی تھیں؟ وہ حیران رہ گئی تھی۔
وہ کمپیوٹر میں مختلف پیج کھول رہی تھی، ایک جگہ اس نے گھٹنوں اور جوڑوں کی بیماری Arthritis کے بارے میں پڑھا۔ خواتین اس مسئلے کا زیادہ شکار ہوتی ہیں، گھٹنوں میں جو قدرتی چکنائی ہوتی ہے وہ دھیرے دھیرے ختم ہوجاتی ہے اور گھٹنوں کی ہڈیاں آپس میں گِھس گِھس کر بے کار ہوجاتی ہیں اور چلنے پھرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کا علاج ریسرچ میں یہ لکھا تھا کہ بچپن سے بچوں کو مہینے میں کم از کم ایک بار پائے ضرور کھلائے جائیں تاکہ بڑی عمر تک پہنچنے تک ان کے گھٹنوں کو چکنائی کی مناسب مقدار ملتی رہے اور یہ آخر عمر تک چلنے پھرنے سے معذور نہ ہوں۔ اب نادیہ پھر سے حیران… آخر یہ پرانے لوگ بغیر کسی علم، بغیر کسی ریسرچ کے تمام کام عین سائنس کے مطابق کیسے کرتے تھے! ہم ان پرانے لوگوں کو ہی جاہل سمجھتے ہیں، اور انہیں بغیر کسی ریسرچ کے ساری معلومات ہوتی تھیں۔
نادیہ نے اور کئی ریسرچ پڑھیں اور اسے لگنے لگا کہ اس کی ساری ڈگریاں بے کار ہیں۔ اس کی بی اے پاس ماں سب سے بڑی سائنس دان ہے۔ نادیہ نے سعدیہ اور نوید سے یہ ساری باتیں کیں۔ وہ دونوں بھی بے حد شرمندہ ہوئے۔ تینوں بچے مل کر صباحت بیگم کے پاس گئے، جو اس سوچ میں گم بیٹھی تھیں کہ اپنے بچوں کو راہِ راست پر کیسے لائیں۔ وہ تینوں بچوں کو ساتھ دیکھ کر ڈر گئیں ’’مجھ سے پھر کوئی غلطی ہوگئی کیا؟ بیٹا! میں آپ لوگوں جتنی پڑھی لکھی نہیں ہوں، مجھے زیادہ سمجھ بھی نہیں ہے، کوئی نہ کوئی غلطی مجھ سے ہو ہی جاتی ہے۔‘‘ وہ گھبرا کر بولیں۔
تینوں بچے مزید شرمندہ ہوگئے ’’نہیں امی! آپ سے غلطی نہیں ہوئی، غلطی ہم سے ہوئی ہے، آپ جو کہتی ہیں بالکل صحیح کہتی ہیں، ہم ہی جاہل تھے۔ ہم خود کو بہت ترقی یافتہ اور سائنس زدہ سمجھتے رہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ بزرگوں کا جو علم و تجربہ ہوتا ہے، اس کے آگے سائنس کچھ نہیں۔‘‘ سعدیہ نے کہا۔
صباحت بیگم کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ انقلاب کیسے آگیا! نادیہ نے انہیں پوری بات بتائی اور پھر تینوں بچوں نے صباحت بیگم سے معافی مانگی۔ صباحت بیگم کو خوش گوار حیرت ہوئی، انہوں نے بچوں کو معاف کردیا اور آئندہ کے لیے ماں اور بچوں کے تعلقات بہت اچھے ہوگئے۔ اس مہینے کے سودے میں صحت کے لیے نقصان دہ کوئی چیز شامل نہیں تھی، اب گھر میں تازہ پھلوں کی بہتات رہتی ہے، چپس کی جگہ ناریل اور پاپ کارن کھائے جاتے ہیں۔ معیشت تو ایسے بھی چل سکتی ہے، نقصان دہ چیزوں کا استعمال بڑھانے سے صرف ڈاکٹروں کا ہی فائدہ ہوگا۔