ماہم فیصل
بقول شان الحق حقی’’ہمیں ابھی اردو کے معیار تلاش کرنے ہیں۔‘‘
کتنا درست فرمایا کہ ہمیں واقعی ابھی اردو کے معیار تلاش کرنے ہیں۔ اردو زبان آج جس مقام پر کھڑی ہے اُس مقام سے کہیں انجان ہے جہاں اس کو ماضی کے اردودان دیکھنا چاہتے تھے۔ اس زبان میں کتنی ہی زبانوں کی آمیزش ہے، کتنے ہی ایسے الفاظ ہیں جو ہم اردو بولتے ہوئے اور اردو لکھتے ہوئے استعمال کرجاتے ہیں لیکن دراصل وہ اس زبان کے الفاظ ہی نہیں ہوتے، اور ہم شان سے اردو کے علَم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جبکہ اکثریت اس بات سے یکسر انجان ہے کہ اردو خود ترکی زبان کا لفظ ہے۔
ہمارے اسکولوں کے نصاب میں اردو زبان لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ ا۔و۔ی۔ے واولز کہلاتے ہیں۔ گویا ہمیں حروف ِعلت سمجھانے کے لیے بھی انگریزی لفظ واول کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آخر ہمارے اردو اساتذہ اور اردو کا معیار اتنا گرا ہوا کیوں ہے کہ انہیں دوسری زبانوں کا سہارا لینا پڑے!
آج کے دور میں جن ممالک کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے، کیا ان کو کبھی کوئی اور زبان بولتے یا سیکھتے دیکھا ہے؟ ان کی ترقی ان کی زبان میں پوشیدہ ہے، اور وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں، اسی لیے وہ تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے اپنا ہر قدم مضبوطی سے جما رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہم آج بھی غلام ذہنیت کی عکاس قوم ہیں۔ میں اپنے قارئین سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ہم یہ کیوں نہیں کرتے کہ بحیثیت ایک قوم اپنی الگ سیڑھی، شناخت بنائیں۔ اپنا راستہ اور اپنی منزل کا تعین خود کریں!
کہا جاتا ہے کہ کسی دوسری قوم کا محتاج بننے کے لیے اُس کی زبان کو اپنا لینا ہی کافی ہے۔ قومی زبان سے دوری کا مطلب اپنی پہچان، اپنی شناخت، اپنا وقار گروی رکھوانا ہے۔
ہماری زبان ہماری پہچان، ہمارا فخر ہونی چاہیے۔ مگر ہم اپنی زبان بولتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ افسوس ہم آج تک اپنی زبان کو مذکر مونث اور واحد جمع جیسے تضادات سے ہی نہیں نکال پائے۔ چلیے مثال لے لیجیے، ایک اردو بولنے والا کہتا ہے کہ ’’دہی‘‘ مذکر ہے تو’’دہی‘‘ ہوتا ہے، جبکہ دوسرے اردو دان کے بقول ’’دہی‘‘ مونث ہے اسی لیے ’’دہی‘‘ ہوتی ہے۔کیا قومیں زبانوں کو ایسے بناتی ہیں اپنا فخر؟ کیا ایسے تضادات کے ساتھ ہم اپنی زبان کو اس کا اصل مقام دے سکتے ہیں؟
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بڑے بڑے ناول نگار، کالم نگار اور دیگر ایسے لوگ جو اردو زبان کے خیرخواہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کہیں کوئی اردو کا بھاری لفظ آجائے تو وہ اس کے آگے انگریزی میں ترجمہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تو گویا اردو زبان میں کہی جانے والی کوئی بھی بات اُس وقت تک نہ تو سمجھی جاسکتی ہے اور نہ ہی سمجھائی جا سکتی ہے جب تک اس میں کسی اور زبان کا عمل دخل نہ ہو۔
وہ ممالک جو ہم سے آگے ہیں اُن کے سائنس دان یا کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، جب کوئی تحقیق یا کام کرتا ہے تو وہ اپنی ہی زبان میں لکھتا ہے۔ ہم تحقیق تو کرتے ہیں لیکن کاغذی کارروائی کے لیے اپنی زبان کے بجائے دوسری زبان کا سہارا لے لیتے ہیں۔
دوسری زبانوں پر عبور حاصل کرنا قطعاً غلط نہیں، لیکن اس سے قبل اگر اتنا ہی وقت اور صلاحیتیں اپنی زبان کو سیکھنے اور جاننے میں لگائی جائیں تو محض لفظی ہی نہیں بلکہ حقیقت میں اپنی زبان کو قابلِ فخر رتبہ اور اہمیت دینے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
حریم کا مجلہ شائع ہو گیا ہے
خواتین ادیبات اور شاعرات کی تخلیقات سے مزین حریم ادب کی روایتوں کا ترجمان مجلہ ’’حریم ادب‘‘ شائع ہوچکا ہے جس میں آپ پائیں گے دل کو چھوتی شاعری، احساس کو جگاتے افسانے، بہترین و پُر مغز مضامین، علاقائی و عالمی ادب سے انتخاب، سیر و سیاحت، ادبی سرگرمیاں اور بہت کچھ۔
اسٹاک محدود ہیے…آج ہی اپنا شمارہ حاصل کریں
قیمت:230 روپے (یکشمت 6 مجلے خریدنے پر ایک مجلہ بالکل مفت)۔
ملنے کا پتا: 242B، ایڈمن سوسائٹی، بلاک3 کراچی
رابطہ نمبر :03363332219