عقل مند تیمور

470

عشرت زاہد
روزانہ عشاء کی نماز کے بعد بچوں کی محفل دادی جان کے کمرے میں ہی سجتی اور جب سے عائشہ آئی ہوئی تھی اس رونق میں خوب اضافہ ہوا تھا۔ اس دن بھی جب دادی جان کی نماز مکمل ہوئی اور وہ بیڈ پر آکر بیٹھیں، تو عائشہ نے انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا۔
“دادی جان آپ جب چھوٹی تھیں، بالکل میری جیسی تو آپ کو کون کہانی سناتا تھا؟کیا آپ کی دادی جان سناتی تھی؟”
” نہیں تو ۔۔ ہماری دادی جان تو گاؤں میں رہتی تھیں۔ ہمارا کبھی کبھار ہی وہاں جانا ہوتا تھا۔ اس لئے ہمارے امی ابو ہی کہانی سنایا کرتے تھے”
“پھر آپ ہمیں ان کی سنائی ہوئی کوئی کہانی سنا دیجئے نا!”
” اچھا ۔۔ چلو ٹھیک ہے۔ ہمارے ابا جان نے ایک مرتبہ ایک بہت اچھی کہانی سنائ تھی وہی سناتی ہوں۔ یہ ایک خوبصورت بچے کی کہانی ہے۔ اس کا نام تیمور رکھ لیتے ہیں۔ وہ بہت خوبصورت تھا۔ گورا چٹا، نیلی نیلی آنکھیں اور سنہری بالوں والا بہت پیارا بچہ تھا۔ وہ جب چھوٹا سا تھا، تبھی اس کے والدین کسی حادثے میں انتقال کر گئے تھے۔ اس اکیلے بچے کو اس کے چچا چچی نے پالا تھا۔ ان کی اپنی کوئ اولاد نہیں تھی۔ اب وہ گیارہ بارہ سال کا ہوگیا تھا۔ وہ بہت ذہین تھا۔ اپنی کلاس میں ہمیشہ اچھے نمبر سے پاس ہوتا تھا۔ لیکن ساتھ ہی شرارتی بھی بہت تھا۔ اس کی وجہ سے سارے پڑوسی، گاؤں والے اور اسکول کے بچے، یہاں تک کہ استاد بھی عاجز آگئے تھے۔ کوئی بھی حرکت کرتا پھر بالکل معصوم شکل بنا کر بیٹھ جاتا۔ جیسے اس نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔
چچا اور چچی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن جب وہ کوئ شرارت کرتا تو بہت پریشان ہوتے، کیونکہ گاؤں والے اور پڑوسی شکایت لے کر انہیں کے پاس آتے تھے۔ اور وہ لوگ شرمندہ ہو جاتے تھے۔ پھر اس کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کرتے مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرنا چاہیے۔ وہ بس دعا کرتے کہ کوئ ایسا لمحہ آئے جب اس کو نیک ہدایت مل جائے۔
خیر ایک دن چچی کو کسی کام سے پڑوس کے گاؤں جانا تھا۔ وہ اگلے دن صبح صبح چچا کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئیں۔ اس دن تیمور کی چھٹی تھی۔ انہوں نے اس کو بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ لیکن تیمور نے صاف منع کر دیا۔
کیونکہ جب بھی چچی اس طرح کہیں جاتیں، تو اس کو سارا دن کھیلنے کا موقع مل جاتا۔ اور کوئی منع کرنے والا بھی نہیں ہوتا۔ لیکن چچی جان بھی بہت عقلمند تھیں۔ انہوں نے سوچا، اگر یہ نہیں جائے گا تو دن بھر بہت ساری شرارتیں کرے گا۔ پھر مجھے گھر آ کر بہت ساری شکائتیں سننے کو ملیںگی۔ اس لیے اس کو کسی کام میں مصروف کر دینا چاہئے۔ تا کہ شرارت کرنے کا وقت ہی نہ مل سکے۔
ان کے گھر کے باہر باغیچہ بنا ہوا تھا۔ جس کے چاروں طرف چھوٹی سی دیوار بنی ہوئی تھی۔ اس کے اوپر دو فٹ کے لکڑی کے پھٹے بہت خوبصورتی سے جوڑ کر جنگلہ سا بنایا گیا تھا۔ اس کو رنگ کروانا کافی دنوں سے باقی تھا۔
چچی نے چچا سے مشورہ کیا اور تیمور سے یہ کام کروانے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے اسٹور روم سے سفید کلر کا پینٹ اور برش نکالا۔ اور باہر آ کر تیمور سے کہا،
“بیٹا، اگر تم ساتھ چلتے تو اچھا ہوتا۔ لیکن تم نہیں آنا چاہتے تو میرا یہ کام کر دینا۔ یہ لو پینٹ اور برش اور اب تم پوری باؤنڈری کو رنگ کر لینا ۔ میرے آنے تک یہ کام ہو جانا چاہیے۔ میں عصر تک واپس آ جاؤں گی۔ لیکن اگر یہ کام نہ ہوا تو۔۔۔ پھر کم سے کم ایک ہفتے تک آپ کا باہر نکلنا بالکل بند کردوں گی۔ یہاں تک کہ کھیلنے کے لئے بھی وقت نہیں دوں گی۔ بس آپ کو گھر میں بیٹھ کر پڑھائ کرنی ہوگی۔ آپ کو تو پتا ہے نا کہ، میں جو کہتی ہوں اس پر عمل ضرور کرتی ہوں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جلدی جلدی پوری باؤنڈری کا رنگ مکمل کر دو۔ میں آکر دیکھونگی۔ اور ہاں، کام بہت اچھا ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ جلدی میں الٹے سیدھے ہاتھ مارے اور کھیلنے نکل گئے۔ ٹھیک ہے؟؟ کام مکمل ہو جائے گا اس کے بعد کھیل لینا۔ کھانا بنا ہوا ہے دوپہر میں کھانا بھی کھا لینا۔ اللہ حافظ”
یہ کہہ کر چچی اور چچا اطمینان سے چل دیئے۔ اور وہ بےبسی سے ان کو جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
باونڈری اچھی خاصی بڑی تھی اور اس کو پینٹ کرنے کے لئے پورا دن چاہئے تھا۔
لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔۔ چچی کی دھمکی یاد کر کےاس نے رنگ کی بالٹی اٹھائی اور بے دلی سے کام شروع کیا۔ وہ دل ہی دل میں اس بات سے بھی ڈر رہا تھا کہ اس کے دوست خوب مذاق اڑائیں گے۔۔
تیمور نے آہستہ آہستہ ایک جانب سے رنگ کرنا شروع کیا۔ اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن چچی کی دھمکی یاد آتی اور اس کا ہاتھ چلنے لگ جاتا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دور سے حارث آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے ہاتھ میں بڑا سا سرخ رنگ کا سیب تھا۔
“او میرے خدا یہ ابھی کیوں آ گیا! کل میں نے اس کا کتنا مذاق اڑایا تھا۔ وہ بیچارا اپنے ابو کی گاڑی صاف کر رہا تھا۔۔اب پتا نہیں کیا کیا کہے گا۔۔ ” تیمور کو شرمندگی کا احساس ہوا کیونکہ اس سے ہمیشہ لڑائی ہوتی تھی۔ اور تیمور اس کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ آج جب وہ اس کو رنگ کرتا ہوں کرتا ہوا دیکھے گا تو وہ بھی مذاق اڑائےگا۔ تیمور یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے دماغ میں ایک بہت اچھا سا آئیڈیا آیا۔
اس نے بہت اچھی طرح سے دل لگا کر رنگ کرنا شروع کیا۔ ایسے جیسے کوئی شاہکار تخلیق کر رہا ہو۔ جیسے کوئی بہت حسین تصویر بنا رہا ہو۔۔۔ وہ بہت احتیاط سے کام کر رہا تھا جیسے ہی حارث قریب آیا تیمور نے، اس کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔
“کیا کر رہے ہو بھئ؟ چچی نے کام پر لگا دیا ہوگا۔ اب تو کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن یار یہ تو مزدوروں والا کام ہے نا؟” اس نے مزے سے سیب کھاتے ہوئے کہا۔
“ارے نہیں۔ چچی نے مجھے مزدور سے کروانے کا کہا تھا، لیکن میں نے خود ہی چچی سے کہا کہ میں خود کرونگا۔ مجھے یہ کام بہت پسند ہے”
” کوئی نہیں! تم مذاق کر رہے ہو نا ؟”
“میں مذاق کیوں کروں گا؟” اب وہ مزید اچھی طرح سے پینٹ کرنے لگا۔ کچھ دور جا کر اپنے کام کا جائزہ بھی لیتا۔
یہ دیکھ حارث کچھ سوچ میں پڑ گیا ۔
اس نے کہا، “تیمور، میں بھی تھوڑا رنگ کر لوں؟”
“ارے نہیں بھائی، تمہیں تو پتا ہے، چچی کتنی نفاست پسند ہیں۔۔ میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ اگر تم نے کچھ غلط کر دیا یا گندا کام کر دیا یا رنگ کی بوندیں ادھر ادھر گرائیں تو چچی تو مجھے بہت ڈانٹیں گی۔ دراصل یہ کام جب ختم ہوتا ہے نا، تب صاف ستھرا ماحول اچھا لگتا ہے اور ہم نے جو محنت کی ہے، اسکو دیکھ کر دل کو جو اطمینان محسوس ہوتا ہے، اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ۔۔میں تو اس لئے یہ سب کرتا ہوں”
حارث نے بہت منایا۔ خوش آمدی انداز میں کہا ،” بھائی پلیز مجھے کرنے دو ۔ میرا بھی دل چاہ رہا ہے رنگ کرنے کو۔ اچھا تم یہ سیب لے لو اور مجھے رنگ کرنے دے دو پلیز ۔۔”
تیمور نے بھی احسان جتانے والے انداز میں اس کے ہاتھ سے سیب لے لیا اور اس کو برش تھما دیا۔ اور کہا کہ “تم اتنا کہہ رہے ہو تو لے لو۔۔ مگر دیکھو بہت احتیاط سے” اور خود مزے سے ایک طرف بیٹھ کر سیب کھانے لگا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد حارث کو ہدایت بھی دیتا، کہ ادھر سے کرو یہاں سے چھوٹ رہا ہے یہاں ٹھیک سے نہیں ہوا۔۔
تھوڑی دیر میں اس کے دوسرے دوست بھی آئے۔ ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا کہ بہت مشکل سے وہ اجازت دیتا۔ وہ اس کے بدلے تیمور کو کوئی نہ کوئی چیز پکڑا دیتے۔ جو وہ کھا رہے ہوتے یا کوئی کھلونا ہوتا۔
تیمور کچھ پس و پیش کرتا۔ پھر مان جاتا۔ ساتھ ساتھ ان کو رنگ کرنا سیکھاتا بھی رہا۔ ” دیکھو پہلے برش کو رنگ میں ڈبو کر اسکو ڈبے کے کنارے سے دبا کر باہر نکالو۔ اس سے زائد رنگ دبے میں گر جائےگا۔ اور باہر نہیں ٹپکے گا۔ پھر پہلے اوپر سے نیچے کی جانب برش چلانا ہے۔ پھر دائیں سے بائیں طرف ۔ پھر دوبارہ اوپر سے نیچے کی جانب ۔ ایسا کرنے سے کوئ جگہ رنگ کرنے رہتی نہیں ہے۔
اس طرح سے دیکھتے ہی دیکھتے باغیچے کی پوری دیوار اور لکڑی کے پھٹے پر رنگ مکمل ہوگیا۔ اور بہت ہی خوبصورتی سے، بہت ہی احتیاط سے، بہت عمدہ کام ہو چکا تھا۔ اور تیمور کے پاس بہت سارے کھلونے اور پھل فروٹ وغیرہ بھی جمع ہو چکے تھے۔ جنھیں وہ دن بھر کھاتا بھی رہا۔ اور کھلونوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ پورا دن بہت زبردست گزرا تھا۔ نہ کوئی شرارت ہوئی، نہ کوئی شکایت ہوئی اور کام بھی مکمل ہو گیا۔ نا تیمور کو تھکن ہوئ۔ نا کسی دوست کو۔ سب نے باری باری سارا کام نمٹا دیا تھا۔ سب ہی خوش تھے۔ گاوں والے بھی سکون سے تھے۔ آج نا کسی نے درختوں سے پھل توڑے نا ہی ان کو ستایا تھا۔
شام میں جب چچا اور چچی لوٹے۔ تو یہ کارنامہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ اس قدر صاف ستھرا کام ہوا تھا، کہ کوئ مزدور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ چچی نے تیمور کو گلے لگا کر خوب پیار کیا۔ کہنے لگیں تیمور یہ کیسے کر لیا؟ اتنا سارا کام تم نے اکیلے کیا؟ میں تو سمجھی تھی کچھ دیر کرنے کے بعد ہی تم اکتا جاوگے۔لیکن تم نے تو کمال ہی کر دیا۔”
چچا کم گو انسان تھے۔ لیکن آج تو انھوں نے بھی خوب تعریف کی۔
“بہت اچھا لگ رہا تھا مجھے یہ کام کرنا۔ آپ کو تو پتا ہے مجھے رنگ کرنا کتنا اچھا لگتا ہے۔ کام تو ٹھیک ہوگیا ہے نا؟” تیمور کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔
چچا بےحد خوش تھے۔
“بیٹے بہت شاندار کارکردگی ہے آپ کی۔ نا اپنے کپڑے خراب کئے ، نا نیچے رنگ ٹپکایا۔ ارے بھئی ، کسی ماہر مزدور سے بھی اچھا کام ہو گیا۔ واہ بھائی واہ تیمور۔۔ تمہیں مان گئے بہت اچھے۔۔ شاباش
میرے بیٹے۔ اب اس بات پر تمہیں انعام ضرور ملے گا۔ یہ دیکھو ہم تمھارے لئے کتنی اچھی کتابیں لائے ہیں۔ اسی طرح سے سے ہمیشہ دل لگا کر کام کرو تو کتنا اچھا ہو۔”
“جزاک اللہ چچا جان، اب میں سمجھ گیا ہوں کہ کوئی بھی کام دل لگا کر کرنے سے کام بھی اچھا ہوتا ہے۔ اور اس سے سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اب میں آپ کو شکایت کا موقع کبھی نہیں دوں گا۔ اور ہاں، ایک راز کی بات بتاؤں؟ یہ کام میں نے اکیلے نہیں کیا۔ میرے سب دوستوں نے مل کر کیا ہے۔ آج ہم نے کھیل کود کی بجائے یہ کیا”
چچا نے اس کو گلے لگاکر خوب پیار کیا اور کہا کہ آئندہ بھی ایسے ہی اچھے اچھے کام کرنا اور یہ بھی خیال رکھنا کہ کوئی تمہاری شکایت نہ کرے”
“جی چچا جان۔”
“ایک اور کام کی بات سنو۔۔ جب ہمیں کوئ کام مشکل لگ رہا ہو، تو اس کام کو بہت توجہ اور دل لگا کر کرنے سے ،خود بہ خود اس میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اور جب کام دلچسپ لگتا ہے تو آسان ہو جاتا ہے۔ یہ ٹپ بتا رہا ہوں” چچا نے مسکراتے ہوئے کہا” اور تیمور کا ہاتھ پکڑ کر گھر میں داخل ہو گئے۔

حصہ