وزیراعظم عمران خان جمعہ 27 دسمبر کو چوتھی بار کراچی آئے، اور بغیر کوئی اعلان اور خوش خبری سنائے واپس چلے گئے۔ اس طرح کراچی کے مسائل جوں کے توں رہ گئے اور شہری مایوس ہوگئے۔
عمران خان کے مایوس کن دورۂ کراچی کی بازگشت میں پاکستان تحریک انصاف نے معاشی بدحالی اور تبدیلیوں کی ’’قوالی‘‘ سے پورا سال 2019ء گزار دیا۔ 2019ء عمران کی حکومت میں آیا اور اُن ہی کی حکمرانی میں ’’نئے پاکستان‘‘ کے مثبت آثار دکھائے بغیر بالکل اسی طرح رخصت ہوگیا جیسے وزیراعظم عمران خان کراچی آکر تقریبات میں شرکت کرکے، گفتگو و تقاریر کرکے اسلام آباد کے لیے رخصت ہوجاتے ہیں۔ تبدیلیوں اور کچھ نیا سننے کے خواہش مند کراچی والے اُن کی روانگی کے بعد ایک دوسرے سے پوچھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ’’وزیراعظم نے کوئی اعلان کیا ہے شہر کے لیے؟‘‘ کوئی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ یوں زبان کھولتا ہے ’’وزیراعظم عمران آخر کراچی کیوں آتے ہیں؟‘‘
قوم توقعات کی عادی ہوگئی ہے اور حکمران سمجھنے لگے ہیں کہ کراچی والوں کو حکمرانوں کے مایوس کن دوروں کی عادت پڑگئی ہے۔
عمران خان نے اپنے دورۂ کراچی میں اہم ملاقاتوں میں مصروف دن گزارا۔ پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی تقریب سے خطاب بھی کیا اور کہا کہ نئے سال میں حالات کی بہتری کی امید ہے، مگر ساتھ ہی مجموعی حالات کی بہتری کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ 2023ء تک عوام کو یاد کراتے رہیں گے کہ انہیں ملک کن حالات میں ملا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی کوئی اور بات پوری ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، مگر نیا سال 2020ء شروع ہوتے ہی یکم جنوری سے پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کو یاد دلادیا گیا کہ ’’ملک تحریک انصاف کو کیسے حالات میں ملا تھا‘‘۔ گو کہ عمران خان نے قائداعظم کے شہر کے چوتھے دورے کے دوران جس بات کا اظہار کیا وہ محض 3 دنوں میں ہی پوری کردکھائی۔ اتنے کم وقت میں صرف پیٹرول، بجلی اور ایل پی جی کی قیمتیں بڑھائی جاسکتی تھیں، سو بڑھا دی گئیں۔ موقع ملا تو وہ سب کچھ کر دکھائیں گے جس سے قوم کو یاد آتا رہے گا کہ ’’عمران خان کو کن حالات میں ملک ملا تھا‘‘۔ اس طرح پوری قوم یقین کرنے لگے گی کہ وزیراعظم عمران خان اچھے کھلاڑی اور سیاست دان ہونے کے ساتھ ملک پر بیتے سنگین حالات کو ’’ری پروڈیوس‘‘ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ’’چربہ سیاست‘‘ کے بہترین پروڈیوسر بھی ہیں۔ اچھا پروڈیوسر وہی ہوتا ہے جو سیاسی حالات کو کری ایٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مطلب یہ کہ وہ کری ایٹو ذہن کا سیاست دان ہوتا ہے۔ دورِ حاضر میں عمران خان اور اُن کے ساتھیوں سے بہتر حالات کا تخلیق کار بھلا اور کون ہوسکتا ہے! ’’آئی رے آئی رے تبدیلی آئی رے‘‘ تخلیق کار فلم کی نمائش تو جاری ہے۔ یہ کہیں بھی، بلکہ ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔ لوگ گھروں سے نکلے بغیر بھی اس فلم کو دیکھ کر اس کے ’’مزے‘‘ لے سکتے ہیں۔ بس اس کے لیے ہر ایک کو انتخابات سے قبل اور ان کے حکومت سے باہر رہنے کے دوران کی تقاریر کو ذہن میں لانا ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ عمران خان کراچی کا دورہ کیوں کرتے ہیں؟ کسی نے اس سوال کا جواب یہ دیا کہ وہ وفاق کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اب کراچی کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ کراچی کو کچھ دیں یا نہ دیں، اپنے اتحادیوں کو بہت کچھ دینے پر آمادہ لگتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کراچی کے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ’’ایک ارب روپے دینے کا اشارہ بھی دیا‘‘۔ متحدہ کے ایک رہنما نے اس ایک ارب روپے دینے کی بات پر کہا کہ اس سے تو کراچی کیا، اس کی ایک یونین کونسل کے بھی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں متحدہ کے لوگ اس طرح کی گفتگو پر جس طرح ’’چراغ پا‘‘ ہوجایا کرتے تھے اب اس سارے عمل کو بھول گئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ متحدہ کے لوگوں کو وزیراعظم عمران خان ’’نفیس لوگ‘‘ کہا کرتے ہیں۔
اگر ہم تصور کرلیں کہ پی ٹی آئی سنجیدگی سے کراچی کی میئر شپ حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ اُس کے لیے مشکل مرحلہ نہیں ہوگا، وہ بآسانی وفاقی حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم کے ساتھ اپنے اتحاد کو مستحکم کرتے ہوئے کراچی کا میئر اپنی جماعت کا لاسکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایم کیو ایم ڈپٹی میئر اور چھ ڈسٹرکٹس چیئرمین میں سے چیئرمین کی پانچ نشستیں لے کر بھی خوش ہوجائے گی۔ اس طرح میئر تحریک انصاف کا ہوجائے گا۔ سنا ہے اس مقصد کے لیے فیصل واوڈا اور عالمگیر خان کمر کس کر امیدواروں کی فہرست میں ٹاپ پر ہیں۔ اگر ملک کے وزیراعظم کی طرح میئر کراچی بھی تحریک انصاف کا ہوگیا تو مجھے پورا یقین ہے کہ ’’تبدیلی کا سفر ‘‘ بغیر کسی بہتر تبدیلی کے جاری رہے گا۔ ویسے تو اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی جو کراچی میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں لیاری کی اپنی مخصوص سیٹ بھی گزشتہ انتخابات میں حاصل نہیں کرسکی تھی وہ اب ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کراچی میں اپنا میئر نہیں تو ڈپٹی میئر لانے کی تیاری ضرور کرنے لگی ہے۔ اس مقصد کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے ایم کیو ایم کو تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے اُس سے صوبے میں اتحاد کی پیشکش کردی ہے۔ اس پیشکش کے ساتھ بلاول نے متحدہ قومی موومنٹ کو صوبے میں اتنی ہی وزارتیں دینے کا اعلان بھی کردیا جتنی اب وفاقی حکومت میں ہیں۔ گو کہ بلاول نے اپنی سیاسی بصیرت کا اظہار ایم کیو ایم کو صوبے میں دو وزارتیں دینے کا وعدہ کرکے کیا ہے۔ یقین ہے کہ ایم کیو ایم نے اس پیشکش کو ایک مذاق سمجھ کر ٹال دیا ہوگا، تاہم چونکہ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اس لیے متحدہ کسی بھی وقت اس پیش کش پر غور بھی کرسکتی ہے۔ مگر اس بات کے امکانات کم ہیں۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اِس سال سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں میئر کراچی کس کا ہوگا؟ اگر کراچی کے لوگ ’’تبدیلی‘‘کے نعرے کو نظرانداز کرکے شہر کو بدلنا چاہتے ہیں، اسے عزت دلانا اور دینا چاہتے ہیں تو انہیں شہر اور شہر کے لوگوں سے محبت اور ان کی مسلسل خدمت کرنے والے ’’الخدمت‘‘ کے نامزد کردہ امیدواروں کا چنائو کرنا پڑے گا۔
کراچی کے شہریوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے یہاں انجینئر حافظ نعیم الرحمن جیسی شخصیت کو میئر منتخب کرنا ضروری ہوگا۔ حافظ نعیم الرحمن، ان کی ٹیم اور جماعت اسلامی کراچی کی پبلک ایڈ کمیٹی جس محنت اور جذبے کے ساتھ شہری مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور بغیر کسی اختیار کے کررہے ہیں اُس کا تقاضا ہے کہ شہر کے لوگ کراچی کو واپس جماعت اسلامی کو لوٹا دیں۔ کراچی کو میئر عبدالستار افغانی، سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور والا شہر بنادیں۔ خیال رہے کہ جماعت اسلامی کے منتخب نمائندوں نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جب جب نظامت سنبھالی یہاں کرپشن سے پاک ترقیاتی کام اور دیگر امور انجام دے کر پورے شہر کو مثالی بلدیاتی نظام حکمرانی دیا۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی والے اپنی سوچوں کو بدل کر نظریۂ ضرورت کے تحت 2020ء میں اگست تک ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کو عزت دینے، اس کی خدمت کرنے اور کرانے کے لیے صرف جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت کے امیدواروں کا انتخاب کریں۔ یاد رکھیں ’’کراچی بدلا تو ملک بدل جائے گا۔‘‘۔