بھارت کے مسلمانوں کے لیے ایک بار پھر یہ جال پھینکا جارہا ہے کہ تمہاری نجات ایک سیکولر معاشرے اور سیکولر نظامِ حکومت میں ہے۔ یہ سیکولر معاشرہ کیا آسمان سے فرشتے یا خلا سے جنات نازل ہوکر ترتیب دیتے ہیں! اسے زمین پر بسنے والے انسانوں کی اکثریت ہی ترتیب دیتی ہے۔ اسی اکثریت کا نام جمہوریت ہے، اور اسی جمہوریت کا مکروہ ترین چہرہ صرف نریندر مودی نہیں بلکہ اس کے پیچھے 1925ء میں قائم ہونے والی راشٹریا سیوک سنگھ کے نظریات کی جیت ہے۔
پچانوے سال کی مسلسل جدوجہد یہ ثابت کرتی ہے کہ سیکولرازم نام کی فاختہ، جو دوسرے مذاہب کے احترام کا دعویٰ کرتی ہے، اس کا ہندو طرزِ معاشرت و تہذیب میں گزر ممکن نہیں، اور یہ بھارت کوئی پاکستان بھی نہیں ہے کہ فوج کے بل بوتے پر کوئی پرویزمشرف اٹھے اور روشن خیالی کے نام پر سیکولر اخلاقیات نافذ کردے۔
جب سے بھارت میں ہنگامے شروع ہوئے ہیں، میرے ملک کے دانشوروں کو فکر لگی ہوئی ہے کہ اگر ایک دفعہ بھارتی معاشرے سے سیکولر منافقت کا لبادہ اتر گیا اور ہندوؤں کا تعصب اُن کے جمہوری ووٹ سے مکمل طور پر نافذ ہوگیا، پچیس کروڑ بھارتی مسلمان اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہوگئے تو دو قومی نظریے کی حقیقت یوں روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ پھر اسے غلط ثابت کرنے کے لیے کسی ابوالکلام آزاد کی پیش گوئیوں کا سہارا نہیں لیا جا سکے گا۔
لیکن اب تو ہوگیا، اور میرے سیکولر نواز مذہبی اسکالر اور خالص سیکولر لبرل لکھاری بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ہمارا ایمان اس دو قومی نظریے پر متزلزل کیا جاتا تھا، ہمارے قائدین کی سیاسی بصیرت پر سوال اٹھائے جاتے تھے۔ پاکستان ستّر برس سے اس بدترین اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈے کی زد پر تھا جس کے سرخیل پہلے کمیونسٹ دانشور، شاعر، ادیب تھے، اور آج سیکولر دانشور، شاعر، ادیب، صحافی، اور کچھ مذہبی دانشور اس کے نقیب ہیں۔ لیکن بھارت میں مسلمان دشمنی کا جو آتش فشاں پھٹا ہے اس نے 75 سالہ سیکولرازم، لبرل ازم اور جمہوریت کے غلیظ چہرے سے نقاب الٹ کر رکھ دیا ہے، اور اندر سے ڈریکولا کی طرح کا خون پینے والا مسلمان دشمن چہرہ برآمد ہوا ہے۔
کیا یہ صرف آر ایس ایس، بھارتیہ جنتا پارٹی یا بجرنگ دل جیسی تنظیموں اور پارٹیوں کا کیا دھرا ہے؟ ان سب کو شدت پسند بتاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے 1947ء سے لے کر اب تک سیکولر لبرل کانگریس کے ادوار میں بھارت کے مسلمان بہت سُکھ کا سانس لیتے تھے اور یہ اچانک معاشرے میں شدت پسندی بی جے پی کی وجہ سے آگئی ہے۔ کانگریس کا بیج بھی اسی ہندو معاشرت سے اٹھا تھا، فرق صرف یہ ہے کہ چانکیہ کے افکار پر عمل کرتے ہوئے کانگریس رہنماؤں نے اپنے چہرے پر سیکولرازم کی منافقت کا غلاف چڑھا رکھا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے تمام مغربی معاشرے جو 1095ء سے لے کر 1270ء تک لڑی جانے والی صلیبی جنگوں کی نفرت سینوں میں چھپاکر اسلام اور مسلمان دشمنی کی روایت آج بھی لیے ہوئے ہیں، مگر انہوں نے چہروں پر سیکولرازم، لبرل ازم اور جمہوریت کی منافقت کا غلاف چڑھایا ہوا ہے۔
زمانہ بدل چکا، بھارت میں نریندر مودی کی جیت نے یہ نقاب الٹا، ویسے ہی امریکا اور یورپ کے ممالک میں اسلام فوبیا کی پرچارک اور مسلمان دشمن سیاسی پارٹیوں کی فتح نے بھی سیکولر نظریے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
برصغیر میں نہ صرف مسلمان دشمنی بلکہ ہر دوسرے دھرم سے دشمنی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو اس سرزمین پر صرف اپنا حق سمجھتے ہیں اور دوسروں کو ناپاک۔ ہر بڑے مندر کی بنیادوں میں کسی دوسرے دھرم اور مذہب کی عمارت دفن ہے۔ اجنتا اور ایلورا کی غاروں کی دیواروں پر بدھ مت کے جاتکاز کی تصویریں تو ہیں لیکن درمیان میں شیولنگ اور دیگر دیوتاؤں اور دیویوں کے مجسمے رکھ کر انہیں ہندو مندروں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
ہندومت کا دوسرا بڑا مقدس مقام کٹاس راج بدھ مت کے مندروں کو گرا کر بنایا گیا تھا، اور آج بھی اس کے ایک طرف بدھ مت کے دور کے آثار ملتے ہیں۔ دوسرے مذاہب سے نفرت ہندوستان کی تاریخ میں بار بار ابھرتی رہی اور گپتا کے سنہری ہندو دور کو واپس لانے کی کوشش بار بار ہوتی رہی۔ احمد شاہ ابدالی سے مرہٹوں کی شکست کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد1886ء میں بنگال قومیت کے ساتھ ہندومت کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا تو ہندو میلوں کے تصور نے جنم لیا۔ پہلی دفعہ ان میلوں میں ہندوؤں کو عسکری مہارتیں یعنی شمشیر سازی، خنجر چلانا، لٹھ بازی وغیرہ سکھائے گئے۔
سوامی دیانند سرسوتی نے اسی دوران ’’شدھی‘‘ کی تحریک شروع کی، جس کا مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانا تھا۔ اس کے ساتھ مہاراشٹر میں بال گنگا دھر تلک نے گنپتی اور شیوجی کے تہواروں کو منانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر گاؤں کی سطح پر انوسلان سمپتیاں یعنی انتظامی کمیٹیاں بنائی جاتیں جن میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ تمام کمیٹیاں 1922ء تک ایک ہندو مہاسبھا میں ڈھل گئیں اور اس کا صدر ساورکر کو منتخب کیا گیا تو اُس نے اگلے سال اپنی کتاب ’’ہندوتوا‘‘ شائع کی۔ ’’ہندوتوا‘‘ کے مطابق بھارت میں پیدا ہونے والے فرد کے لیے یہ زمین پترو بھومی (Fathers land) ہی نہیں، پنیا بھومی (مقدس سرزمین) بھی ہے۔ اس لیے یہاں پیدا ہونے والا ہر شخص پیدائشی طور پر ہندو ہے اور یہاں کسی کو کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
’’واپس ہندو ہوجاؤ یا بھارت چھوڑ دو‘‘۔ اس نظریے کی گونج ایک مکمل صدی سے جاری ہے جس کی فتح آج جمہوری طور پر نریندر مودی کی حکومت کی صورت میں مکمل ہوچکی ہے۔ لیکن آزادی کے بعد سے آج تک کے 72 برسوں میں کانگریس اور دیگر سیکولر حکومتوں میں بھی مسلمان اور اسلام دشمنی اسی طرح پروان چڑھتی رہی۔
احمدآباد کے 1969ء کے مسلم کُش فسادات جس میں ہزاروں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا، جو آزادی کی صرف دو دہائیوں کے بعد ہوئے تھے، پورے ہندوستان میں نفرت کی آگ سلگائی گئی، 1970ء میں بھیوانڈی اور جل گاؤں میں ہونے والے مسلم کُش فسادات کے بارے میں جوڈیشل رپورٹ اس دور کی ظالم، مسلمان دشمن سیکولر حکومت کا ایک بھیانک نقشہ کھینچتی ہے۔
رپورٹ کہتی ہے ’’یہ نفرت اور تشدد، تعصب اور دروغ حلفی کی سرزمین پر ایک تنہا، مشقت طلب اور تھکا دینے والا سفر تھا۔ راستے میں ملنے والے لوگ شقی القلب اور انسانوں کے خون کے پیاسے تھے۔ اس سفر میں وہ سیاست دان ملے جو فرقہ واریت، نفرت اور مذہبی جنونیت کا دھندا کرتے ہیں۔ ایسے مقامی رہنما ملے جو تفرقہ اور تلخی کے بیج بو کر اقتدار تک رسائی پاتے ہیں۔ ایسے پولیس افسر اور سپاہی ملے، جھوٹ اور فریب پر کاربند لوگ اور قتل و خونریزی کا کاروبار کرنے والے ملے۔‘‘
یہ پچاس سال پہلے کے عظیم سیکولر بھارت کا نقشہ ہے۔ وہ سیکولر کانگریس جس کے چہرے پر ایک لاکھ کشمیریوں کا خون اور ہزاروں مسلم کُش فسادات کی رنگولی ہے۔ اس کے باوجود میرے ملک کا دانشور بھارتی مسلمانوں کو ایک اور فریب دینا چاہتا ہے کہ تمہاری نجات صرف سیکولرازم میں ہے۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کردیا کہ ’’کفر ایک ملتِ واحدہ ہے۔‘‘ (ترمذی) اور سیکولرازم تو آج کے دور کا کفر نہیں بلکہ منافقت ہے۔ امریکا سے لے کر بھارت تک صرف اسلام دشمنی کو خوب صورت لبادے میں چھپانے کا دوسرا نام سیکولرازم ہے۔ لیکن بھارت کا مسلمان خوب جانتا ہے کہ وہ سیکولر نعرے کو ستّر سال سے بھگت رہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بی جے پی کی مسلمان دشمنی اور کانگریس کی سیکولرحکومت صرف اسی کا خون بہاتے ہیں۔ لیکن بی جے پی کی مسلمان دشمنی اسے احساسِ غیرت دلا کر متحد کرتی ہے، اور کانگریس کا سیکولرازم اسے پست کردار اور بزدل بناتا ہے۔