شرفِ ہمسائیگی

618

توقیر عائشہ
بھرپور ہنسی کی آوازیں سن کر حماد سے رہا نہ گیا۔ وہ بھی اپنے کمرے سے نکل کر اپنی امی کے کمرے کی طرف چل دیا۔ وہاں دونوں بہنوں کی ماں کے ساتھ محفل جمی ہوئی تھی۔ حماد سے چھوٹی سارہ، جس کی شادی چند ماہ قبل ہوئی تھی، جب میکے آتی تو بڑی بہن کو بھی فون کرکے آنے کی دعوت دے ڈالتی، اور موقع ملنے پر حماد اور سارہ کی صبیحہ آپا بھی اپنے بچوں کے ہمراہ آجاتیں۔ والد کے انتقال کے بعد صبیحہ آپا نے بڑی محبت اور حوصلے سے امی اور دونوں چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالا، حالانکہ وہ خود بھی بہت بڑی تو نہ تھیں۔ بڑے تو زاہد بھائی تھے جنہوں نے احسن طریقے سے معاش کی ذمہ داری سنبھالی۔ وہ اب لندن میں اپنی فیملی کے ساتھ مقیم تھے۔
بھائی کو کمرے میں آتا دیکھ کر دونوں بہنوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ صبیحہ آپا گویا ہوئیں ’’بھئی! آج تو بتادو کب تک ٹالتے رہو گے؟‘‘
امی نے بے چارگی سے کہا ’’سوچ کے بتائوں گا سنتے سنتے ہم تھک چکے ہیں بیٹا۔‘‘
سارہ کیوں پیچھے رہتی ’’بھیا! کوئی خاندان میں، کوئی آفس میں ہو، کسی کا تو نام لو، ہم وہیں پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’یہ مجھے دیکھتے ہی تم لوگ ساری باتیں بھول کر اسی موضوع کو کیوں لے بیٹھتی ہو؟‘‘ حماد مسکراتے ہوئے وہیں ماں کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ یہ اس کا مخصوص انداز تھا اور ہولے ہولے ماں کے پائوں دبانے لگا اور کہنے لگا:
’’ارے تمہارا بھائی ہی جان چھڑاتا ہے، ورنہ لڑکیاں تو بہت آگے پیچھے پھرتی ہیں۔‘‘ خالدہ نے محبت سے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا ’’یہ تو ہے، خاندان کی سب مائیں میرے بچے کی آس لگائے بیٹھی ہیں۔ اشاروں، اشاروں میں پوچھتی بھی ہیں مگر…‘‘
آپا نے کہا ’’اچھا تو ایسا کرو خود ہی بتادو، تمہاری ڈیمانڈ کیا ہے؟ کیسی لڑکی چاہیے تمہیں؟‘‘
’’آپا! اصل میں آپ لوگ سب ان کا نام لیتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے میری جاننے والی ہوتی ہیں۔ بس میں چاہتا ہوں لڑکی ایسی ہو جسے میں جانتا نہ ہوں۔‘‘ حماد نے وضاحت کردی۔
’’ہائیں… کیا مطلب…؟‘‘ سب حیرانی سے اس کا منہ دیکھنے لگے۔
بالآخر آپا نے کہا ’’یہ کیا بات ہوئی؟ اب تو لڑکے، لڑکی کی آپس میں جان پہچان سے ہی بات آگے بڑھتی ہے۔ بڑے تو بس رسماً رشتہ لینے پہنچ جاتے ہیں۔‘‘
اب حماد نے قدرے سنجیدگی سے کہا ’’اصل میں میرے دوستوں میں سے جس نے بھی پسند کی شادی کی ہے وہ اپنے آپس کے جھگڑے ہی سناتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ہی سبق پڑھایا ہے کہ اگر ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے ہوں تو زندگی کا چارم ختم ہوجاتا ہے۔‘‘
’’اوہ…‘‘سب نے ایک ساتھ کہا۔ صبیحہ آپا نے ساتھ ہی ایک دھپ لگا دی اور کہنے لگیں ’’بڑے سیانے نکلے تم تو۔ اب تک کیوں نہیں بتایا؟ اب دیکھنا ہم کیسی اچھی لڑکی ڈھونڈتے ہیں تمہارے لیے۔‘‘
ابتدائی سرا ہاتھ میں آنے کے بعد تینوں ماں بیٹیاں ایسے گھرانوں میں نگاہیں دوڑانے لگیں جن کو حماد نہ جانتا ہو، اس شغل میں ان کا انہماک دیکھ کر حماد کو اپنا وجود نظر انداز ہوتا محسوس ہوا اور وہ وہاں سے اٹھ گیا۔
اب اپنے اپنے سسرالوں، سہیلیوں اور دیگر حوالوں سے ملنے جلنے والی لڑکیوں پر غوروفکر شروع ہوگیا تھا۔
’’ایک فیملی بھول رہے ہیں آپ؟‘‘ سارہ نے توجہ دلائی۔
’’زبیدہ آنٹی ہیں ناں… امی کی سہیلی، جو کبھی کبھار آتی ہیں، اُن کی بیٹیاں بھی تو ہیں، بس انہی کو نہیں دیکھا ہے بھائی جان نے۔‘‘
ان کی امی خالدہ نے کہا ’’اچھا، ہاں… مگر وہ ماں بیٹیاں تو سخت پردہ دار ہوگئی ہیں، پھر ان کا ماحول بھی ہم سے مختلف ہوگیا ہے، کوئی اور سوچو۔‘‘
یہ سوچ بچار مزید طویل ہوتی کہ آپا کے بچوں نے بھوک لگنے کا شور مچا دیا تو محفل برخواست کرتے ہی بنی۔ مگر آج کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس سلسلے کا پہلا قدم اٹھ گیا تھا۔
…٭…
اور پھر وہی ہوا۔ روایتی قسم کی تلاش شروع ہوگئی۔ کسی کا قد نہ بھاتا، تو کسی کا رنگ۔ کسی کا خاندان عجیب سا لگتا، تو کسی کا رکھ رکھائو پسند نہ آتا۔ وہ خود ہی مل کر آتیں اور خود ہی مختلف اعتراض لگا کر مسترد کردیتیں۔ خاندان کی دیگر خواتین سے ’’تلاشِ رشتہ‘‘ کی یہ مہم چھپی تو نہ رہ سکتی تھی۔ وہ جب آپس میں ملتیں تو کہتیں ’’اتنی پڑھی لکھی لڑکیاں خاندان میں ہیں مگر بیٹے کا رشتہ ساری دنیا میں چراغ لے کر ڈھونڈا جارہا ہے۔‘‘
بہرحال خالدہ کو اس کام میں بہت دیر نہ لگی۔ قدرت نے خود ہی انتظام کردیا۔ ایک دن راحیلہ آنٹی اپنی ایک رشتے دار لڑکی کے ساتھ آئیں۔ وہ خالدہ کی رشتے کی بہن تھیں۔ زاہد بھائی نے لندن سے کچھ سامان اُن کے ہاتھ بھیجا تھا۔ حماد آفس سے آیا۔ اسے لائونج سے گزر کر ہی کمرے میں جانا تھا اور مہمان یہیں بیٹھے تھے۔ اس نے ایک نظر مہمانوں پر ڈالی، راحیلہ آنٹی سے سلام دعا کی اور اپنے کمرے کی راہ لی۔
اس دن سارہ بھی آئی ہوئی تھی۔ چائے کے دوران باتوں باتوں میں کومل کا تعارف حاصل کرلیا۔ ان کے جانے کے بعد ماں بیٹی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیں۔ حماد سے رائے لینے کے بعد جلد ہی وہ اس کے گھر پہنچ گئیں۔ راحیلہ آنٹی کے توسط سے دونوں خاندانوں میں رشتے پر اتفاق ہوگیا۔ یوں حماد کی لڑکی کے اجنبی ہونے کی شرط خوب صورتی کے ساتھ پوری ہوگئی۔
حماد کا رشتہ طے پانے کی خبر خاندان کی کچھ لڑکیوں اور خواتین کے لیے اتنی خوش کن نہ تھی۔ بس مٹھائی وصول کرکے کھوکھلی سی مبارک باد دے دی گئی۔
…٭…
ادھر حماد کے دوستوں کے مشورے حماد پر زندگی کے کچھ نئے زاویے کھول رہے تھے۔ انہوں نے اسے بتایا کہ اس ابتدا کو خوش گوار انجام تک پہنچانا ہے تو شادی ہونے تک اجنبیت کی دیوار قائم رکھنا۔ مزاج شناسی شادی ہونے کے بعد ہو تو یہ تجسس اشتیاق میں ڈھل کر زندگی کو پُرلطف بنادیتا ہے۔ لہٰذا اس نے لمبی کالز، ہوٹلنگ، لانگ ڈرائیو کے سلسلوں کا اپنی زندگی میں گزر نہ رکھا اور کومل نے بھی فطری شرم و حیا کا دامن تھامے رکھا۔
…٭…
یہ گھر کی آخری شادی تھی، لہٰذا جوش و خروش سے تیاریاں جاری تھیں۔ ان سب کا مہندی، ڈھولکی، نکاح اور ولیمے کی تقریبات میں اپنے تمام ارمان پورے کرنے کا ارادہ تھا۔ سارہ کی ساس نے سارہ کو بڑی خوش دلی سے شادی سے ایک ہفتہ پہلے ہی میکے بھیج دیا تھا تاکہ امی کا ہاتھ بٹا سکے۔ صبیحہ بھی صبح سے شام تک کے لیے آجاتیں۔ زاہد بھائی بھی لندن سے فیملی سمیت آگئے تھے۔ مہمانوں کا آنا جانا بھی لگا رہتا۔ ایسے میں ایک دن خالدہ کی سہیلی زبیدہ آگئیں۔ مبارک باد دینے کے علاوہ ان کی آمد کا ایک مقصد شادی میں شرکت سے معذرت پیش کرنا بھی تھا جس کا موقع خالدہ نے یہ کہہ کر خود ہی فراہم کردیا کہ ’’شادی میں تو آئو گی ناں؟‘‘
اور زبیدہ نی اس کا جواب وضاحت سے دیا ’’تم تو جانتی ہو میں اور میری بیٹیاں محض حجاب نہیں بلکہ پردہ کرتی ہیں۔ ہم نے پوری طرح اسٹڈی کرکے اسلامی احکامات کو قبول کیا ہے۔ اب شادی کی تقریبات میں بہت کھلا ماحول ہوتا ہے، اس لیے شادی میں تو ہم نہیں آسکیں گے۔‘‘
یہ سن کر خالدہ کے چہرے کے تاثرات ہی بدل گئے ’’لو جی! یہ کیا بات ہوئی۔ تمہارا رجحان مذہب کی طرف ہوگیا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم دوسروں کی خوشی میں بھی شریک نہ ہو اور اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلو۔ اچھا تو وقاص اور شاہد کو ہی بھیج دینا۔‘‘
اس پر زبیدہ نے کہا ’’وہ اصل میں خالدہ! میں پہلے تقریبات میں اپنی نمائندگی کے لیے بیٹوں کو ہی بھیج دیتی تھی، مگر اب وہ کہتے ہیں کہ امی آپ لوگوں نے خود تو پردہ کرلیا ہے اور ہمیں ایسی جگہوں پر بھیج دیتی ہیں جہاں ہر طرف بنی سنوری خواتین نظر آتی ہیں، کیا ہمیں نظر بچا رکھنے کا حکم نہیں ہے؟ تو بس میں لاجواب ہوگئی۔‘‘
خالدہ نے اپنی سہیلی سے بے زاری سے کہا ’’بڑی سختی آگئی ہے تمہارے اندر، ایسا ہی رہا تو اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیسے کرسکو گی؟‘‘
’’ارے سب ہوجائیں گی ان شاء اللہ، کیا نصیب کے ڈر سے انہیں خدا کے احکامات سے دور کردوں؟ جس نے احکامات دیے ہیں اس نے نصیب بنائے ہیں۔ اللہ نے ان کا نصیب بھی کہیں بہترین شکل میں رکھا ہوگا۔ مجھے تو پورا بھروسا ہے۔‘‘ زبیدہ نے کہا۔
’’بھئی میری سمجھ میں تمہاری باتیں نہیں آتیں، زمانہ کہاں جارہا ہے اور تم…‘‘ خالدہ نے بڑے افسوس سے کہا۔
سارہ چائے کے لوازمات لیے اندر داخل ہورہی تھی کہ اس کے کانوں نے سنا، زبیدہ آنٹی کہہ رہی تھیں ’’تم اپنی دلہن لے آئو خیر سے، پھر آئوں گی منہ دکھائی دینے۔‘‘
اور اس کی امی غصے سے کہہ رہی تھیں ’’رہنے دو، جب میری خوشی میں شریک نہیں ہوتیں تو منہ دکھائی دینے بھی مت آنا۔‘‘
ماں کا روکھا انداز سارہ کو اچھا نہ لگا۔ زبیدہ کو پلیٹ پکڑاتے ہوئے کہنے لگی ’’چلیں آنٹی! کوئی بات نہیں، جیسا آپ بہتر سمجھیں ضرور کیجیے۔ ابھی تو یہ لیجیے۔‘‘
زبیدہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے سوچا، اس راہ میں یہ مقام تو آتے ہی ہیں۔ کچھ دیر بعد جب وہ واپسی کے لیے کھڑی ہوئیں تو بھی خالدہ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ہنوز موجود تھے۔
…٭…
کومل دلہن بن کر گھر میں آگئی۔ مسرتوں کے رنگ در و دیوار سے پھوٹے پڑتے تھے۔ ڈھائی سال کیسے گزرے پتا ہی نہ چلا۔ اب فہد کی شکل میں اس گھرانے کو جیتا جاگتا کھلونا بھی مل گیا تھا۔ زندگی کا سفر کبھی دھوپ کبھی چھائوں ہے۔ آسمانوں پر لکھے قسمتوں کے فیصلے لمحہ لمحہ وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ایک گہرا گھائو اس خاندان کی خوشیوں کے تعاقب میں تھا۔
…٭…
کومل کو سردی کا موسم بہت پسند تھا۔ آرٹسٹک اور رومانٹک سا۔ حماد کو علم تھا کہ اگر اس موسم میں کومل کو آئس کریم کا ایک بڑا ٹب بھی بھر کے دے دیا جائے تو غائب ہوجائے گا۔ ایسی ہی ایک یخ بستہ شام جب تاریکی کے سائے گہرے ہونے لگے، کومل نے آئس کریم کی فرمائش کردی، وہ بھی کہیں باہر جاکر… جاتے وقت خالدہ نے پوتے کو یہ کہہ کر رکھ لیا کہ موسم کی پہلی سردی ہے، اس لیے اسے نہ لے جائو۔ اور انہیں بھی ہدایت کردی کہ تم لوگ بھی زیادہ دیر باہر نہ رہنا۔
بس وہ آئس کریم بہانہ بن گئی۔ کومل پر ٹھنڈ اثر انداز ہوگئی۔ بخار سے شروع ہونے والا سینے کا انفیکشن خطرناک نمونیا کی شکل اختیار کر گیا۔ اسپتال تمام جدید سہولیات سے آراستہ تھا، معالج بھی بڑے قابل، مگر حکمِ ربی کے آگے سب بے بس ہوگئے۔ خوشیوں بھرا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ دس ماہ کا فہد، جس کی چمکتی آنکھیں ماں پر جمی رہتی تھیں، اب ماں کی پرچھائیں سے بھی محروم ہوگیا۔
خالہ، پھوپھیاں بچے کو اپنے گھر لے جانے کا کہتیں، مگر حماد اور خالدہ کومل کی نشانی کو کسی طور جدا کرنے کا حوصلہ نہ پاتے۔ حماد کی بہنیں آجاتیں۔ اب تو سارہ کے بھی دو بچے تھے اور اُسے بچے کو سنبھالنے کی عادت بھی تھی۔ پہلے فہد کو سینے سے لگاکر پھوٹ پھوٹ کر روتی، پھر اس کی ضروریات پوری کرنے میں خالدہ کی مدد کرتی۔
حماد آفس سے آکر بیٹے کو چومتا، سینے سے لگاتا، پھر دادی کے حوالے کردیتا اور ریموٹ لے کر بیٹھ جاتا۔ بار بار چینل کا بدلنا اس کے خالی دل کی ترجمانی خوب خوب کردیتا تھا۔ کچھ دنوں سے حماد گھر آتا تو اس کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی۔ اس حادثے نے اس کی توجہ کو زندگی کی حقیقتوں کو جاننے اور ان کا سامنا کرنے کی تیاری پر مرکوز کردیا تھا۔
ایک دن خالدہ سے کہنے لگا ’’امی جان! مجھے ایک مشورہ دیجیے۔‘‘ خالدہ ہمہ تن گوش ہوگئیں۔ ’’میں چاہتا ہوں کومل کے لیے کسی صدقۂ جاریہ کا بندوبست کروں۔ میرے ذہن میں کسی یتیم بچے کی پرورش اور تعلیمی اخراجات اٹھانے کا منصوبہ ہے۔ آپ کی نظر میں کوئی ایسا ہے تو بتایئے، بلکہ ہمارے خاندان میں دور و نزدیک کوئی ہو تو بہتر ہے کہ اجر بھی زیادہ ملے گا۔‘‘
کچھ سوچ بچار کے بعد سلطان صاحب ذہن میں آئے جن کے انتقال کو چھ ماہ ہورہے تھے، ان کا بڑا بیٹا آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ حماد اور خالدہ نے ان کی بیوہ سے ملاقات کرکے انہیں اس پیشکش پر راضی کرلیا۔ اخراجات کی ادائیگی کے اس سلسلے کو چلتے ہوئے ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے کہ دفتر میں غیر متوقع طور پر حماد کا گریڈ بڑھا دیا گیا جس سے تنخواہ اور مراعات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگیا۔ اب حماد نے بیگم سلطان کے بقیہ دو بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی اپنے ذمے لے لیے۔ اس کام کو کرکے حماد کو دلی سکون حاصل ہوا۔
(جاری ہے)

حصہ