وہ برائیاں جن کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے

1943

افروز عنایت
معروف عالم دین کا ایک لیکچر سن رہی تھی، موضوع بیان کیا تھا کہ چار ایسے گناہ ہیں جن کی سزا آخرت میں تو ہے ہی لیکن دنیا میں بھی ان کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ گناہ ہیں: قطع رحمی، بغاوت (یعنی حد سے تجاوز، یا دوسرے کا حق مارنا)، خیانت اور جھوٹ بولنا…
لیکچر سن کر میں سوچنے لگی کہ یہ چاروں برائیاں تو ہمارے چاروں طرف عام ہیں۔ پھر سوچتے سوچتے میں بہت دور نکل گئی، شاہدہ کی کہانی ذہن کے دریچوں پر دستک دینے لگی… جو میں آپ سے ان سطور کے ذریعے شیئر کروں گی… جس میں یہ چاروں گناہ آپ کو نظر آئیں گے…
اماں: اے شاہنواز اب وہ پلاٹ جس کے کاغذات تمہارے پاس ہیں وہ اقبال کو دے دو… (کچھ رکتے ہوئے) اسے کچھ بھی نہیں ملا۔ (شاہنواز کو ماں کی بات بڑی ناگوار گزری) تم نے تو … میرا مطلب ہے تم سب کو بہت کچھ ملا ہے، اب یہ اسے دے دو، اس کی بیٹی بھی جوان ہورہی ہے، اسے ضرورت ہوگی۔
اقبال اور شاہدہ کو اماں کی بات سن کر بڑی حیرانی ہوئی، کیونکہ آج تک ان کو باپ کے ترکے میں سے ایک دھیلا بھی نہیں ملا تھا۔ آج اماں کو شاہدہ (بہو) اور اقبال (بیٹے) کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا احساس ہورہا تھا۔
شاہنواز نے سب بہن بھائیوں کی موجودگی میں بڑی نخوت اور ناگواری سے کہا ’’دے دوں گا‘‘۔ اس کی بیوی نے اسے غصے سے دیکھا۔
اس بات کو پانچ چھ ماہ گزر گئے۔ ایک آدھ مرتبہ اقبال نے بھائی بہنوں کے سامنے اس بات کا ذکر بھی نکالا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ یوں لگتا تھا کہ تمام بہن بھائیوں کی ملی بھگت تھی۔ اقبال نہایت سادہ اور معصوم مزاج شخصیت کا مالک تھا۔ شاہدہ نے میاں سے ایک آدھ مرتبہ کہا بھی کہ شاہنواز بھائی سے پلاٹ کے کاغذات لے کر آئو، لیکن وہ بیچارہ بیوی کو کیا جواب دیتا! ٹال مٹول کرتا رہا۔
٭…٭
عمر: مما آپ پریشان نہ ہوں، اللہ مالک ہے، انتظام ہوجائے گا۔
شاہدہ: (بیٹے کی بات پر مسکرائی) ہاں بیٹا اللہ مالک ہے، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ہمیشہ میرے رب کی مدد ہمارے ساتھ رہی ہے۔
شاہدہ کے لیے بات تو پریشانی کی تھی۔ وہ بڑی کفایت شعاری اور سلیقے سے گزربسر کررہی تھی، لیکن اس وقت پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ دونوں بیٹوں کو یونیورسٹی میں سمسٹر کی فیس جمع کروانی تھی، بیٹی کے رشتے آرہے تھے لیکن وہ وسائل کی تنگی کی وجہ سے کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر تھی۔ آج سے پہلے تو وہ کبھی سونے کی انگوٹھی، کبھی بالیاں، غرض جو چھوٹا موٹا زیور پاس تھا اسے بیچ کر اس قسم کے خرچ پورے کررہی تھی، لیکن اب تو اس کے پاس کچھ بھی نہ بچا تھا۔
اسی سوچ بچار میں تھی کہ اسے اُس پلاٹ کا خیال آگیا۔ اس نے شوہر سے بات کی، لیکن اس بیچارے کو معلوم تھا کہ اس کا بھائی کبھی بھی پلاٹ کے کاغذات دینے پر راضی نہ ہوگا۔ شاہدہ نے اماں سے بات کرنے کے لیے کہا لیکن اقبال نے فساد یا بات بڑھانے سے روک دیا۔ شاہدہ نے سوچا پلاٹ تو ہماری امانت ہے، اماں نے کہا ہے۔ شاہنواز بھائی انکار نہیں کرسکتے۔ اس نے بڑے بیٹے سے پوچھا کہ کیا کریں؟ بیٹے نے کہا: اماں آج تک ہم نے اپنا حق نہیں مانگا، یہ بات بھی غلط ہے۔ لہٰذا ہمیں چاچا سے ضرور بات کرنی چاہیے، وہ انکار نہیں کریں گے۔
٭…٭
شاہنواز نے بھتیجے کی بات سنی تو رکھائی سے کہنے لگا: وہ… وہ پلاٹ تو میں اپنے بیٹے کے نام کرچکا ہوں۔
بھتیجا: (بڑے ادب سے) لیکن چاچا وہ تو ہمارا…
شاہنواز: (بات کاٹ کر) ہاں… لیکن اس کی آخری قسط میں نے ادا کی تھی۔
بھتیجا: چاچا آپ اپنی لگائی ہوئی رقم کاٹ لیں۔
بھتیجے (شاہدہ کے بیٹے) نے چاچا شاہنواز سے بات کی اور اپنی مجبوری اور اپنے مسائل بھی بتائے، لیکن نہ صرف اس نے دینے سے انکار کیا بلکہ جھوٹ بھی کہا کہ پلاٹ کے کاغذات کھو گئے ہیں۔ اس طرح نہ صرف اس نے خیانت کی، جھوٹ بولا، کسی کا حق مارا بلکہ بھائی سے ملنا جلنا بھی چھوڑ دیا۔
٭…٭
رب العزت اپنے بندوں پر مائوں سے بھی ستّر گنا زیادہ مہربان اور کرم کرنے والا ہے۔ شاہدہ کے ساتھ بھی اللہ نے کرم کیا۔ دونوں بیٹوں کو ان کی نمایاں کارکردگی کی بدولت اسکالرشپ مل گئی۔ جلدہی بچے تعلیم سے فارغ ہوکر برسر روزگار ہوگئے اور شاہدہ کے مالی مسائل کا خاتمہ ہوگیا۔ شاہدہ کے بچوں کو اپنے والدین کی محنت اور تکلیف کا احساس تھا، وہ اپنے والدین کی نہ صرف عزت کرتے ہیں بلکہ ان کی قدر بھی کرتے ہیں۔ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کہانی کا دوسرا اہم کردار شاہنواز ہے، جسے بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بیٹے جن کے مستقبل کے لیے اُس نے سگے بھائی کے ساتھ ناانصافی کی، وہ نہ ہی زیادہ تعلیم حاصل کرسکے، نہ مستقبل سنوار سکے۔ تمام جائداد باپ سے ہتھیا کر وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مصروف ہوگئے اور ماں باپ دونوں ہاتھ مَلتے رہ گئے۔
٭…٭
بے شک اس کائنات کا مالک و خالق ’’اللہ‘‘ ہی ہے، وہ ہی بندوں کو آزمائشوں میں بھی مبتلا کرتا ہے اور پھر نوازتا بھی ہے۔ اس کے بندوں کی جو حق تلفی کرتا ہے اسے سزا بھی ضرور دیتا ہے۔ ان ہی چار گناہوں یعنی خیانت، جھوٹ، قطع رحمی اور بغاوت (تجاوز یا حق تلفی کے بارے میں آپؐ نے فرمایا ہے (مفہوم حدیث): کوئی گناہ ایسا نہیں جس کی سزا پیشگی دنیا میں ملتی ہے اور آخرت کی سزا الگ ہے سوائے قطع رحمی، بغاوت (یعنی حد سے تجاوز کرنے والا معاملات میں، یا کسی کا حق مارنے والا)۔ اسی طرح آپؐ نے جھوٹ اور خیانت کرنے والے کو خالص منافق کہا۔ بخاری اور مسلم کی حدیث ہے کہ آپؐ نے فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں ان میں سے ایک ہو اس میں منافقت کی ایک نشانی ہے۔
1۔ جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔
2۔ جب بات کرے، جھوے بولے۔
3۔ جب وعدہ کرے، توڑ دے۔
4۔ جب جھگڑے تو فحش کلامی اور بدگوئی کرے۔
٭…٭
آج ہمیں اپنے چاروں طرف مذکورہ بالا برائیاں اکثر نظر آتی ہیں، اور حد یہ ہے کہ ان برائیوں (گناہوں) کو کوئی گناہ بھی نہیں سمجھتا، حالانکہ یہ چاروں وہ برائیاں ہیں جو معاشرتی زندگی میں خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ لہٰذا ان تمام برائیوں کو معمولی نہ سمجھیں بلکہ کوشش کریں کہ ان برائیوں سے بچیں۔ رب العزت ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم ان برائیوں کے مرتکب نہ ہوں (آمین)

حصہ