سال نو

437

ہادیہ امین
”دادی جان، آپ کو پتا ہے رات کو آسمان پر خوب آتش بازی ہوگی، آج اکتیس دسمبر ہے نا، آج پلیز امی سے کہیے گا مجھے جلدی سونے کو نہ کہیں”
ننھی وریشہ نے دادی جان سے ضد کی، اس کو آتش بازی دیکھنے کا بہت شوق تھا اور یقین بھی تھا کہ دادی اس کی بات ضرور مانیں گی، وہ ہوہیں ہی اتنی اچھی..
اتنی دیر میں میں گھر کے سب ہی بچے دادی جان کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ دادی صرف دادی نہیں تھیں۔ وہ سب بچوں کی ماں، سہیلی، ٹیچر، راز دار اور بہت کچھ تھیں…
”بھئی آتش بازی دیکھنے کا تو مجھے بھی بہت شوق ہے، بات کرنی ہی پڑے گی سب کی امییوں سے”
جب سب بچے خوش ہو گئے تو تھوڑا رک کر بولیں، ”ویسے یہ آتش بازی کیوں کرتے ہیں،کیا خیال ہے؟”
”دادی جان خوشی ہوتی ہے نا، نیا سال آنے کی اور پرانا جانے کی”
سفیان نے ”پرانہ” اتنا برا منہ بنا کر کہا جیسے پرانہ سال کوئی کڑوی دوائی ہو۔
”ہو! اچھا ہے! لیکن صرف خوشی منانے سے کیا ہوگا، تم لوگ کیا کرو گے آنے والے سال؟”
دادی جان نے بھولی سی صورت بنا کر پوچھا۔ سب سوچ میں پڑ گئے۔ پھر تھوڑا رک کر بولیں۔
”اچھا کون کون یہ سال ضائع کرے گا؟”
”ہیں! کوئی بھی نہیں، ضائع کیوں کریں گے؟؟”
سب نے حیران ہو کر ایک ساتھ جواب دیا…
”پتا ہے! کوئی بھی نہیں کہتا کہ ہم سال ضائع کریں گے، کوئی بھی نہیں چاہتا کہ سال ضائع ہو، مگر پھر بھی بہت ساروں کا ضائع ہو جاتا ہے، پورا کا پورا”
دادی جان نے دوستانہ انداز میں کہا، وہ سب بچوں کی سہیلی ہی تو تھیں…
”ہاں، جو بیچارے غریب ہیں، پڑھ نہیں سکتے، یا بیمار ہیں ان کا تو ضائع ہی ہو جاتا ہوگا ”
عمر نے جواب دیا…
”نہیں بالکل نہیں، پتا ہے کس کا سال ضائع ہوتا ہے، جن کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس سال کرنا کیا ہے مجھے، اس سال مجھے کیا حاصل کرنا ہے، اس سال کا مقصد کیا ہے، اور پھر یونہی دن گزرتے رہتے ہیں، صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، اور پورا ایک سال گزر جاتا ہے، وقت نکل جاتا ہے، اور وہ کچھ سیکھ ہی نہیں پاتے، بھلا یہ کوئی آتش بازی کرنے کی بات ہے”
دادی جان نے پھر بھولی صورت بنا کر سوال کیا۔ سب کے سر ”نہیں” یعنی نفی میں ہلنے لگے…
”اور جب میں نے اپنے بچوں سے پوچھا اس سال کیا کروگے، تو جواب ہی نہیں تھا کسی کے پاس”
پھر وہی پیاری سی دادی جان، پھر وہی بھولی صورت…
”دادی جان! ہم اگلی کلاس میں جائیں گے، محنت کریں گے، اسی طرح سال گزاریں گے”
وریشہ نے پھر جواب دیا۔ وہ شکل میں دادی سے بہت ملتی تھی۔ دادی اس کی بات سن کر مسکرانے لگیں، اب وہ سہیلی سے ایک دم ماں جیسی لگنے لگیں…
”میری پیاری گڑیا، وہ تو آپ لوگ کریں گے ہی، کچھ ایسا جو تمہیں تمہاری زندگی کے مقصد سے قریب کردے، جو تمہاری منزل آسان کردے، جو تمہیں جنت تک پہنچنے میں مدد دے، ہر وہ انسان جو کامیاب ہوا، اس کی زندگی میں مقصد تھا، اس نے برے حالات سے بہی کچھ سیکھا اور اچھے حالات سے بھی، مستقل کوشش نے اسے کامیاب بنا دیا، جو زندگی میں مقصد نہیں بناتا، اس کا سال ضائع ہو جاتا ہے”
”تو ہم کیا کریں پھر؟” عمر نے سوال کیا…
”چلو، یہ بھی میں بتا دیتی ہوں، تم لوگ اسکول جاتے ہو مگر کتنے بچے اسکول نہیں جاتے، کیا تم میں سے کوئی تھوڑا وقت نکال کے کسی بچے کو نہیں پڑھا سکتا، سال کے آخر تک وہ اس قابل ہو جائے کہ کوئی کتاب خود سے پڑھ سکے”
”مجھے ٹیچر بننا ہے، میں یہ کام کرنے میں خوش ہوںگی”
مریم دادی کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی بول پڑی…
”شاباش! ایسے ہی کام جو کسی کی زندگی میں آسانی پیدا کریں، تمہیں آگے بڑہائیں، تمہیں خوشی دیں تاکہ تم اکتیس دسمبر کو خوشی مناتے اچھے لگو، ٹھیک ہے بھئی؟؟ آج سے ٹھیک ایک سال بعد سب مجھے بتائیں گے کہ انہوں نے سال نو کو کیسے استعمال کیا”
پھر بالکل ہلکی آواز میں کہنے لگیں” بھول جائوں تو یاد دلا دینا”
اور سب بچے دل میں نئی سوچیں لے کر خوشی خوشی اپنی دادی جان اور پیاری سہیلی کو دیکھنے لگے…

حصہ