جس طرح’ سرکاری حج ‘ کے مہنگے ترین اخراجات پاکستان کے غریب عوام کو بھگتنے پڑتے ہیں بالکل اسی طرح ‘ سرکار کی جانب سے پھیلائے جانے والے ‘ سرکاری سچ ‘ بھی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہوکر خراج وصول کرتے رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں’ سرکاری سچ و ہی بالآخر سچ تسلیم کرلیا جاتا ہے اس لیے کہ اگر آپ سرکار کی جانب سے پھیلائے گئے سچ کے مقابلے پر اپنی کوئی بات یا حقیقت بیا ن کرنا چاہیں گے تو آپ کے ساتھ وہی ہوگا جو ماضی میں ہوتا چلا آیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں ‘سرکاری سچ ‘ روز اول سے ہی بولے جاتے رہے ہیں۔
پہلا سچ یہ تھا کہ’ سر ظفر اللہ خان ‘پہلا وزیر خارجہ بہت مفید اور ‘ کام ‘ کا آدمی ہے۔ مگر جب حقیقت آشکار ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ وزیر خارجہ کے روپ میں احمدی مبلغ ہے۔ اور پاکستان سے باہر جتنے بھی سفارت خانے کھل رہے تھے وہ حقیقت میں قادیانی مراکز تھے۔ اور آج بھی ان سرکاری سفارت خانوں میں قادیانی اثرات دکھائی دیتے ہیں۔
دوسرا سچ یہ تھا کہ 1965′ میں ہماری افواج اکھنور کے محاذ سے صرف چھ کلو میٹر کی دوری پر ہیں، اور اگلے دن شام تک اکھنور پر پاکستان کا جھنڈا لہراتا دکھائی دے گا ” مگر راتوں رات ہائی کمانڈ تبدیل ہوچکی تھی۔ اور جنرل یحییٰ خان کو نیا کمانڈر بنا کر محاذ جنگ اس کے حوالے کیا گیا۔
اسی طرح کا ا یک اور سچ جس کو خوب پذیرائی ملی اس لیے کہ ہماری تاریخ میں یہی لکھا ہے وہ کچھ یوں تھا ” 16اور 17مئی کو بھارتی فوج نے کارگل سیکٹر میں حملہ کر دیا، اسی روزپاکستانی فوج چھمب میں کئی میل اندر تک داخل ہوگئی’
’’ ہمالیہ‘‘ غلطی ایوب خان نے کی جس نے قوم کا متفقہ طورپر منظور کردہ 1956 کا آئین منسوخ کیا تھا جس کے بعد دونوں صوبوں کیلیے متفقہ دستور بنانے کے امکانات ختم ہوگئے۔دوسری غلطی یحییٰ خان نے کرکے اپنی سیاسی بصیرت کے فقدان کا ثبوت دیا اور یہ ثابت کردیا کہ وہ سیاسی پیچیدگیوں اور آئینی مسائل کا ادراک نہیں رکھتے کیونکہ دونوں صوبوں کے درمیان برابری یا پیرٹی کا اصول طے شدہ تھا جس کا پنڈورو بکس کھولنا ایک فاش غلطی تھی۔آئین کیسا بنے گا اس کا فیصلہ انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی قومی اسمبلی نے کرنا تھا اس لیے بنیادی فیصلے بھی اسی اسمبلی پر چھوڑ دینے چاہئیں تھے۔ اگرچہ ایل ایف او کے مطابق اسمبلی 120دنوں میں آئین بنانے کی پابند تھی لیکن یحییٰ خان کی فوجی نگاہیں یہ نہ دیکھ کر سکیں کہ جب ایک بار اسمبلی منتخب ہوجائے تو غیر سیاسی حکمرانوں کے کنٹرول سے آزاد ہوجاتی ہے اور فوجی بندوق کی تابع نہیں رہتی۔انتخابات کا اعلان ہوا تو یحییٰ خان کو ایجنسیوں نے بتایا کہ مخلوط حکومت بنے گی اور مجیب الرحمن اکثریت حاصل نہیں کرسکے گا۔
یحییٰ خان نے سیاسی مسئلے کو سیاست سے حل کرنے کی بجائے فوجی طریقہ استعمال کیا اور آرمی ایکشن کا حکم دیدیا۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ دراصل مارچ1971 کے آرمی ایکشن نے ہی پاکستان توڑ دیا تھا، باقی ساری رسمی کارروائی تھی۔آرمی ایکشن کے نتیجے کے طورپر مجیب الرحمن گرفتار ہوگیا،عوامی لیگ کی قیادت ہندوستان جاکر پناہ گزین ہوگئی اور ان گنت لوگ مارے گئے اور ساتھ ہی کچھ فوجی چھائونیوں میں بھی بغاوت ہوگئی۔
ممتاز صحافی جلیس سلاسل ا پنی کتاب ‘ کورٹ مارشل ‘ میں ایڈ مرل مظفر حسن کے انٹر ویو میں یحییٰ خان کے بارے لکھتے ہیں کہ ” جنرل یحییٰ خان میں بہت ساری خرابیاں تھیں اسی طرح کچھ خوبیاں بھی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ اپنے ما تحتوں پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرتے تھے۔ سقوط مشرقی پاکستان کا المیہ اسی بھروسے کی وجہ سے رونما ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ 1971 کی جنگ ہی نہ ہوتی اگر ذوا لفقار علی بھٹو اور ائیر مارشل رحیم غلط مشورے یحییٰ خان کو نہ دیتے – اور سبز باغ دکھا کر یحییٰ خان کو جنگ پر آمادہ نہیں کرتے ‘ یحییٰ خان جس نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے ، بھٹو کو اقتدار سونپ کر نظر بندی کی حالت میں9اگست 1980کو انتقال کرگیا۔ستم ظریفی دیکھیں کہ جس نے پاکستان توڑا اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا جبکہ حمود الرحمن کمیشن کی تحقیقات کے نتیجے میں اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلا کر فرد جرم عائد کی جانی چاہیے تھی ، مگر پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا سامان اس طرح کیا گیا کہ اس سیاہ کردار کو پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا کہ ‘ سقوط کے وقت ہندوستانی فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کے معاملات بھی مناسب طریقے سے نہیں طے کئے گئے۔ اور بزدلانہ طریقے سے ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو عافیت میں رکھنے کی کوشش کی۔ اور اس تقریب کو عوامی بنانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اور شرمناک حرکت یہ کی کہ ہندوستانی جنرل اروڑہ سنگھ کو ہوائی اڈے پر جاکر استقبال کیا ‘” گارڈ آف آنرز ” پیش کیا
حمود الرحمن کمیشن نے حتمی طور پر سقوط کے حوالے سے جو ریمارکس دے وہ اسطرح کے ہیں کہ ” تحقیقاتی کمیشن بیانات اور گواہیوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ” جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ البتہ یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہتھیار ڈالے بنا کوئی اور راستہ نہیں ہے ، تو ایسا کرسکتے ہیں اور اگر سمجھتے ہیں کہ جنگ جاری رکھی جاسکتی ہے تو جاری رکھی جائے۔ کمیشن کا خیال ہے کہ جنرل نیازی مزید ایک ہفتے تک بآسانی جنگ جا ری رکھ سکتے تھے ، مگر حالا ت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے 7 دسمبر کو ہی جنگ جاری نہ رکھنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ مگر جنرل ہیڈ کوارٹر بھی اس الزام سے بری الزمہ نہیں ہوسکتا اس لیے کہ جنگ کے منصوبے کی منظوری ہیڈ کوارٹر نے دی تھی۔ ”
اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن نے صرف بیانات کے نتیجے میں تحقیق نہیں کی بلکہ ہتھیار ڈالنے والے کرداروں کے خلاف مقدمہ چلانا بھی تجویز کیا تھا۔ مگر افسوس اس تجویز پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا۔
کمیشن نے واضع طور پر کہا کہ ” جن اداروں کا نام آیا ہے ان پر مقدمہ چلنا چا ہئے، جنرل یحییٰ خان ، جنرل عبدالحمید خان ، جنرل پیرزادہ ، میجر جنرل عمر اور میجر جنرل مٹھا پر اس الزام کے تحت کھلے عام مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی کہ انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے اقتدار چھینا۔اور اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو دھمکیاں اور پیسے کی ترغیب دے کر نتائج پر اثر انداز ہوئے اور ایک ایسی صورتحال پیدا کردی کہ جو سول نافرمانی کی جانب لے کر گئی جس کے نتیجے میں مسلح بغاوت اور ہندوستان کے سامنے ذلت آمیز ہتھیار ڈالنے اور پاکستان کے ٹوٹ جانے کا سانحہ ہوا ”
اس کے بعد بھی ہم نے’ سرکاری سچ ‘جاری رکھے جو آج تک اسی شان سے جاری ہیں۔ اگرچہ کارگل کے محاذ پر ہونے والی لڑائی کو 20 برس بیت گئے ہیں۔ مگر سچ بولنے والوں کو شرم نہیں آئی۔
بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ ‘یہ جنگ مئی سے جولائی 1999 کے درمیان لائن آف کنٹرول کے ساتھ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے کارگل کی برفانی چوٹیوں پر لڑی گئی۔ انڈیا میں اسے ’آپریشن وجے‘ کا نام دیا گیا جبکہ پاکستان میں سے ’آپریشن کوہ پیما‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کے درست اعدادوشمار میسر نہیں تاہم جہاں انڈیا میں 500 سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکت کی بات کی جاتی ہے وہیں پاکستان کی جانب ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ تھیں۔ پاکستان نے اس معرکے میں مرنے والے اپنے دو فوجیوں کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ‘نشان حیدر’ سے بھی نوازا۔کارگل کی لڑائی کے اختتام کے 20 برس بعد بھی اس کے آغاز سے لے کر اس میں ہونے والے نقصان تک بہت سی چیزوں کے بارے میں قیاس آرائیاں اب بھی کی جاتی ہیں۔
اس وقت کے وفاقی وزیرِ اطلاعات مشاہد حسین سید کے مطابق نوازشریف اس بات سے بالکل لاعلم تھے کہ پاکستان کی فوج لائن آف کنٹرول پار کر چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’بطور وزیراعظم میاں صاحب کو کارگل کے بارے میں پہلی بریفنگ 17 مئی 1999 کو ڈی جی ایم او کی جانب سے دی گئی لیکن اس سے پہلے انڈیا سے آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ کچھ ہو رہا ہے۔‘
مشاہد حسین کے مطابق کارگل سے چند ماہ پہلے فروری 1999 میں جب انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے تھے تو اس وقت بھی نوازشریف بے خبر تھے کہ پاکستان کی فوج انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں کسی جنگی کارروائی کا منصوبہ بنا چکی ہے۔
مشاہد حسین نے بتایا کہ اٹل بہاری واجپائی کے دورے کے وقت دونوں ملکوں کے درمیان ماحول بہت اچھا تھا اور انڈین وزیراعظم کو پاکستان کے تینوں فوجی سربراہان نے باقاعدہ سلیوٹ بھی کیا تھا۔
اس سوال پر کہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ جنوری 1999 میں ایک بریفنگ میں نواز شریف کو بتایا گیا تھا کہ کارگل ہونے جارہا ہے، مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’جنوری میں تو ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا تھا۔ میں اس بریفنگ کا حصہ تھا اور وہ سکیورٹی پر ایک عمومی بریفنگ تھی۔‘
سابق وزیرِ اطلاعات کہتے ہیں کہ انھیں پاکستانی فوج کی کارگل میں موجودگی کی اطلاع انٹرنیشنل میڈیا کو بریفنگ سے تھوڑی دیر پہلے دی گئی۔
’جب یہ معاملہ منظرِ عام پر آ گیا تو مجھے کہا گیا کہ آپ بریفنگ دیں کیونکہ میں حکومت کا ترجمان تھا۔ اس وقت مجھے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ یہ ہمارے بندے ہیں۔ ناردرن لائٹ انفنٹری۔ ہمارے ریگولرز۔‘
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ان کی رائے تھی کہ پاکستان کو انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے حقیقت بیان کرنی چاہیے۔
’ہندوستان نے بھی 1984ء میں سیاچن میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی تھی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ حقائق ہیں اور مسئلے حل کریں۔‘
’لیکن کبھی سرکاری سچ کو سچ کرنا پڑتا ہے۔
مشاہد حسین سید کے مطابق جب حکومتی حلقوں کو کارگل سے متعلق حقیقت کا ادراک ہوا تو شدید دھچکا لگا۔ ’ایک طرف ہم انڈین وزیراعظم کا خیر مقدم کر رہے تھے اور دوسری طرف تقریباً جنگ کی طرف جا رہے تھے۔
’نظام کے اندر ایک تقسیم آنا شروع ہو گئی تھی کہ یہ اتنی بڑی چیز کیسے کر لی گئی ہے۔ سیکریٹری دفاع جنرل افتخار علی خان نے کابینہ کو بریفنگ دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ بہت غلط ہوا ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
سابق وزیراطلاعات نے بتایا کہ ’نوازشریف کارگل کے بعد حیرانگی اور مایوسی کی کیفیت میں تھے کیونکہ انڈیا کے وزیراعظم امن کے لیے خود چل کر ہمارے پاس آئے تھے۔
’نوازشریف سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ایسے بحران میں پھنس گیا ہے جس کے نتائج ہم کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘
اسی سرکا ری سچ کی نشاندہی معروف صحافی طارق ابوا لحسن نے کی ، وہ اپنے آرٹیکل میں کارگل کے حوالے سے کچھ اسطرح سے روشنی ڈالتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ’ دشوار گزار سفر کے بعد رات جیسے تیسے گزار کر آگے بڑھے اور دومیل کے مقام پر پہنچے یہ ایک بیس کیمپ تھا جہاں کشمیری مجاہدین کے علاوہ دو تنظیموں کے کیمپ بھی تھے۔۔۔۔یہیں سے ہم نے کارگل ، گلتری اور داود پوسٹ جیسے محاذ جنگ کا دورہ کیا۔۔
دومیل میں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو حزب المجاہدین سے وابستہ تھے ، انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ ہم کراچی سے آئے ہیں تو وہ ہم سے ملنے آئے اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آج شام ہم سے کرکٹ میچ کھیلیں۔۔ لیکن ہمارے لیئے مشکل یہ تھی کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دوڑ کر ایک رن لینے کے بعد دوسرا رن لینے کی ہمت ہی نہیں رہتی تھی۔۔۔
جب ہم اس علاقے میں پہنچے تو پاکستانی فوجیوں کی پہاڑی مورچوں سے واپسی شروع ہوچکی تھی۔۔ہم مختلف محاذوں کا دورہ کرتے اور ،محاذ جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں سے مل کر اْن کے تاثرات معلوم کرتے ، اکثر سپاہی اور افسر کارگل کے محاذ سے واپسی کے حکم پر انتہائی غصے اور صدمے کا اظہار کرتے۔۔۔ اور اس کا ذمہ دار نواز شریف حکومت کو قرار دیتے۔۔اب ہم اصل معاملے کی جانب آتے ہیں ،
1999 کے موسم سرما میں پاکستانی دستوں نے کارگل کے پہاڑوں پر ان مورچوں پر قبضہ کرلیا تھا جو سرما کے سخت موسم میں بھارتی فوج خالی کرکے چلی جاتی تھی۔اور اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ سیاچن لیہ ہائی وے پر کنٹرول حاصل کرلیا جائے اور سیاچن پر موجود بھارتی فوج کی رسد کاٹ دی جائے۔۔
فوجی لحاظ سے یہ ایک جرت مندانہ مہم تھی۔۔۔لیکن بدقسمتی سے اس کی بنیاد ایک ایسے جھوٹ پر رکھی گئی جس کا یقین ہم اپنے دوستوں تک کو نہ دلا سکے۔
کارگل کی مہم کے لیے پاکستان کے پاس کافی اخلاقی جواز موجود تھا۔۔۔ یہ علاقے 1984 سے پہلے پاکستان کے پاس ہی تھے۔۔۔ اور بھارت نے اچانک اقدام کرتے ہوئے سیاچن اور کارگل کے ان علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔۔۔۔ اور دوسرا یہ کے بلند پہاڑی موچوں پر قابض بھارتی فوج نیچے وادی میں آباد آزاد کشمیر کے شہری علاقوں کو اکثر نشانہ بناتی ہے۔۔۔
اپنے مقبوضہ علاقوں کی بازیابی اور شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے خاطر پاکستان کے پاس اپنے اس اقدام کا مکمل اخلاقی اور قانونی جواز موجود تھا۔۔۔ اور اس کا دوست ملکوں کو بھی یقین دلایا جاسکتا تھا۔۔۔۔
لیکن اس کے برخلاف پاکستان کا موقف یہ تھا کہ بھارتی مورچوں پر قبضہ کی یہ کارروائی کشمیری مجاہدین کی ہے۔۔۔ اور پاکستان اسی پر اصرار کرتا رہا۔۔
یہ ایک ایسا جھوٹا موقف تھا جس پر دوست ممالک سمیت کسی کو یقین نہیں آیا۔۔حقیقت یہ تھی کہ کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ پاکستان آرمی کی کارروائی تھی نادرن لائٹ انفینٹری کے جوان اس مہم کا حصہ تھے۔۔۔۔ بعد میں کچھ مجاہدین بھی شامل ہوئے لیکن اصل کارروائی نو گیارہ اور بارہ این ایل آئی کے دستوں نے انجام دی تھی۔۔۔پاکستانی جھوٹ زیادہ نہیں چل سکا۔۔
اس جھوٹ کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان دوست ملکوں کی سفارتی اخلاقی اور فوجی مدد سے محروم ہوگیا۔۔۔کیوں کہ چین اور دوسرے دوست ملک پاکستان کی مدد کیلیے تو آسکتے تھے لیکن مجاہدین کی مدد کرنے کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔
یہ پاکستان کی سفارتی محاذ پر واضح شکست۔۔ اور دنیا بھر میں بھارتی موقف کی جیت تھی۔۔۔۔
امریکا کی جانب سے کارگل کے محاذ کی فراہم کردیا سیٹلائٹ تصاویر نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔۔۔
اب آیئے میدان جنگ کی طرف۔
بھارتی مقبوضہ علاقے میں محاذ جنگ کی جانب جانے والے راستے پختہ اور سامان رسد کی سپلائی تیز رفتار تھی۔۔۔۔
پاکستان کی جانب پہاڑوں میں بنے راستے ناہموار کچے اور انتہائی خطرناک تھے۔۔۔
پاکستانی فوجی میدان جنگ میں صرف چھوٹے اور ہلکے ہتھیار ہی لے جاسکے۔۔۔اونچے پہاڑی مورچوں تک رسد خچر ، یاک جو گائے سے مشابہ مقامی جانور ہے کے ذریعے تھی یاپھر جوان اپنی پیٹوں پر لاد کر لے جاتے تھے۔۔۔بھارت نے جب جوابی حملہ کیا تو شروع میں پاکستانی فوجیوں کا پلا بھاری رہا۔۔۔ بہتر پوزیشن کی بدولت بھارتیوں کا زبردست نقصان ہوا۔۔
لیکن پھر بھارت اپنے بہترین جنگی طیارے میراج 2000 لے آیا جو ایریل ریکی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارت نے ایریل فوٹو گرافی کے ذریعے پاکستانی فوجیوں کی پوزیشنوں کا پتا لگالیا ،جبکہ امریکا نے بھی اپنے مصنوعی سیاروں کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات بڑی فراغ دلی سے بھارت کو فراہم کیں۔۔ ان معلومات کی روشنی میں بھارت نے سویڈن سے حاصل کردہ بوفرز توپوں کا بھر پور استعمال کیا۔
انڈین ایرفورس کو کارگل کے محاذ پر کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔۔۔ بھارتی طیارے آزادنہ طور پر پاکستانی مورچوں پر بم گراتے اور زمین سے بوفرز توپیں پاکستانی مورچوں کو تاک تاک کر نشانہ بناتیں۔۔۔۔
جھوٹے موقف کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس پوری جنگ میں پاکستان ایر فورس لاتعلق رہی۔۔۔ کیوں کہ پاکستان ایرفورس مجاہدین کی مدد کے لیے نہیں آسکتی تھے۔’
ہمارے جھوٹے موقف نے ہمیں ناصرف شکست کا داغ دیا بلکہ دنیا کے سامنے رسوا بھی ہونا پڑا۔۔
جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔۔۔ ہمارے فیصلہ ساز ادارے یہ کب سمجھیں گے۔۔ اور سچ کی طاقت کو کب تسلیم کریں گے۔
اسی طرح آج سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا غدار قرار دے کر اس کو سزا دلوانے کی باتیں ہورہی ہیں چلیں ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ وہ پاکستان کا غدار تھا – اس لیے کہ اس نے مارشل لا لگا کر آئین پاکستان سے روگردانی کی مگر میرے بھولے’ سر کار ‘ اتنا تو بتاتے جائیں کہ پرویز مشرف کا طیارہ تو اس وقت فضاء میں تھا جب کراچی سمیت پاکستان کے تمام ا ئیر پورٹس پر فوج قبضہ کرچکی تھی ، ٹی وی اسٹیشنزمیں چار بجے شام میں ہی فوج داخل ہو چکی تھی –اور وہ کون تھا جو پرویز مشرف کے طیارے کو کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد لے جانے کا مشورہ دے رہا تھا ؟اس راز سے اس لیے پردہ نہیں اٹھا کہ اب تک سرکار نے اس کی بابت کوئی ‘ سرکاری سچ’ جاری ہی نہیں کیا۔