رفیع الدین راز شاعری کے عالمی منظر نامے میں ایک اہم نام ہے‘ سعید الظفر صدیقی

1107

نثار احمد نثار
بزمِ یارانِ سخن کراچی نے رفیع الدین راز کے اعزاز میں محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا۔ صدارت سعیدالظفر صدیقی نے کی۔ حامد اسلام خان اور طارق جمیل مہمانان توقیری تھے۔ حنیف عابد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام ِمجید کی سعادت نظر فاطمی نے حاصل کی نعت رسولؐ واحد حسین رازی نے پیش کی۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے حصے میں شاعر علی شاعر نے رفیع الدین راز کے فن اور شخصیت پر گفتگو کی انہوں نے کہا کہ رفیع الدین راز کی اب تک 26 شعری و نثری تخلیقات منظر عام پر آچکی ہیں۔ انہوں نے حمد و نعت‘ غزل‘ نظم‘ ہائیکو کی علاوہ افسانے بھی لکھے ہیں ان کے اشعار حالتِ سفر میں ہیں۔ ان کے کلام میں لب و لہجے کی توانائی اس گہرے فکری شعور و آگہی کی غماز ہے جو محض کتابی علم پر اکتفا کرنے کے بجائے زندگی کی سختیوں اور سماجی اخلاقیات کی جکڑ بندیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت و حوصلے سے عبارت ہے۔ حقائق سے فرار کے بجائے خود کو منظم و مربوط رکھ کر درد مندی کے بھرپور احساس کے ساتھ حوادث کا سامنا کرنے کا ہنر‘ رفیع الدین راز جانتے ہیں۔ ان کے یہاں ایک انوکھا پن اور ایک قسم کی ندرت ہے جو قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ انہوں نے دیارِ غیر میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے۔ سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ رفیع الدین راز کی غزل ہو یا نظم‘ ہر دور میں ان کا لہجہ منفرد اور تخلیقی توانائی کا محور نظر آتا ہے میرے نزدیک ان کی وجۂ شہرت ان کی غزلیں تاہم ان کی نظمیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں یہ شاعری کے عالمی منظر نامے کا اہم حصہ ہیں۔ یہ جہاں دیدہ اور توانا فکر شاعر ہونے کے علاوہ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں ان کے کلام میں داخلی و خارجی محسوسات اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہیں انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں پر شاعرانہ گفتگو کی ہے ان کے اشعار میں غزل کے جدید اور قدیم رویے نظر آتے ہیں۔ مشاعروں میں انہیں بے پناہ داد و تحسین سے نوازا جاتا ہے‘ ابھی حال ہی میں کینیڈا کی ایک ادبی تنظیم نے ’’جشن رفیع الدین راز‘‘ منایا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بڑے شاعر ہیں۔ اختر سعیدی نے رفیع الدین کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا‘ ان کی نظم کو سامعین نے بہت پسند کیا۔ سلمان صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ بزم یارانِ سخن کے کنونیئر اور بانی نثار احمد نثار بڑے سخت ایڈمنسٹریٹر ہیں‘ یہ اصولوں پر سودا نہیں کرتے۔ انہوں نے دیر سے آنے والے کسی شاعر کو مشاعرہ نہیں پڑھوایا۔ وقت کی پابندی ایک اچھا عمل ہے اسلام نے بھی اس کی ہدایت دی ہے انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تنظیم بزم ِیاران سخن اپنی مدد آپ کے تحت ادبی پروگرام ترتیب دے رہی ہے اس میں ہم کس حد تک کامیاب ہیں اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔ حامد اسلام خان نے کہا کہ وہ سعودی عرب میں اردو کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ اردو ہماری پہچان ہے‘ مقامِ افسوس یہ ہے کہ عدالتی فیصلے کے باوجود بھی سرکاری طور پر اردو نافذ نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں اچھے اشعار سننے کو مل رہے ہیں‘ ہماری نوجوان نسل بھی عمدہ کلام کہہ رہی ہے۔ طارق جمیل نے کہا کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ شعر و سخن کی ترقی کے لیے رات دن کام کر رہے ہیں آج کا مشاعرہ بہت منظم اور اچھے کلام پر مشتمل تھا میں بزمِ یاران سخن کے عہدیداران و اراکین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ میں امریکا میں مقیم ہوں لیکن بنیادی طور پر پاکستانی ہوں۔ میرا تعلق کراچی سے ہے‘ میں جب بھی یہاں آتا ہوں تو میرے اعزاز میں تقریبات ہوتی ہیں یہ میرے احباب کا خلوص ہے ورنہ میں تو ادب کا ایک ادنیٰ کارکن ہوں۔ اس موقع پر سعیدالظفر صدیقی‘ رفیع الدین راز‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ شاعر علی شاعر‘ حنیف عابد‘ حامد علی سید‘ صغیر احمد جعفری‘ سخاوت علی نادر‘ نظر فاطمی‘ ڈاکٹر اقبال ہاشمانی‘ زاہد حسین زاہد‘ واحد حسین رازی‘ صفدر علی انشاء‘ رانا خالد محمود قیصر‘ عارف شیخ عارف‘ یاسر سعید صدیقی‘ شاہدہ عروج‘ ارم زہرہ‘ عاشق شوقی‘ علی کوثر اور دیگر شعرا نے کلام نذر سامعین کیا۔

بزمِ ناطق بدایونی کا بہاریہ مشاعرہ

ناطق بدایونی صاحبِ دیوان شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ قادر الکلام شاعر تھے‘ ان کے ایک صاحبزادے فیروز ناطق خسرو آٹھ دس شعری مجموعوں کے خالق ہیں اور شعر و ادب میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ آپ اپنی رہائش گاہ میں اکثر و بیشتر شعری نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ گزشتہ اتوار آپ نے بزم ناطق بدایونی کے تحت رفیق الدین راز کے اعزاز میں ایک محفل مشاعرہ سجائی جس میں پروفیسر جاذب قریشی صدر تھے اور سعیدالظفر صدیقی مہمان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اشعال محسن اور علشبہ محسن نے تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی۔ اس مشاعرے کے علاوہ میزبانِ مشاعرہ فیروز ناطق خسرو‘ اختر سعیدی‘ صغیر احمد جعفری‘ صبیحہ صبا‘ حجاب عباسی‘ حمیرا راحت‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ سحر تاب رومانی‘ کشور عدیل جعفری‘ شاعر علی شاعر‘ سخاوت علی نادر‘ منور جہاں‘ یاسر سعید صدیقی‘ اسد قریشی‘ خالد میر‘ افروز رضوی‘ گل افشاں‘ واحد حسین رازی‘ عاشق شوقی اور علی کوثر نے اپنا کلام پیش کیا۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ اس محفل میں تمام شعرا کو توجہ سے سنا گیا۔ فیروز خسرو ایک تہذیبی روایت کے پاسدار ہیں اور اپنی محفلوں میں تہذیبی اقدار کا خیال رکھتے ہیں۔ آج کی شعری نشست بڑے بڑے مشاعروں پر بھاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس قسم کی محفلوں کے انعقاد کے حق میں ہیں کیوں کہ مشاعروں سے بھی زبان و ادب کا فروغ مشروط ہے۔ فیروز ناطق خسرو نے کلمات تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ یہ محفل خاص طور پر رفیع الدین راز کے اعزاز میں ترتیب دی گئی ہے جس میں کراچی کے بہت سے اہم شعرا شریک ہیں اس کے علاوہ کچھ علم دوست شخصیات بطور سامعین یہ رونق افروز ہیں میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

نعت نگاری اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کا اہم ذریعہ ہے‘ پروفیسر شاداب احسانی

رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و تعلیمات کو نظم کرنا نعت نگاری ہے۔ نعتِ رسولؐ کا سلسلہ آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شروع ہوگیا تھا اور یہ سلسلہ تاقیامت چلے گا۔ نعتیہ محفلوں میں شرکت باعثِ ثواب ہے اور جو لوگ ان محافل کا اہتمام کرتے ہیں وہ قابل تحسین ہیں کیوں کہ اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے فیضان ایجوکیشن کے زیر اہتمام لانڈھی میں ہونے والے نعتیہ مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ محبت کے اظہار میں غلو شامل ہو جاتا ہے جس کا اظہار ’’بہاریہ شاعری‘‘ میں جا بجا نظر آتا ہے تاہم نعت میں غلط بیانی کی گنجائش نہیں ہے۔ اس مشاعرے میں طاہر سلطانی مہمان خصوصی تھے اور ولید یمنی مہمان اعزازی تھے۔ پرویز ہارون بھی صاحبانِ مسند نشیں میں شامل تھے۔ علی کوثر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ راقم الحروف نثار احمدنے اس سے قبل انہیں کسی بھی محفل میں نظامت کرتے ہوئے نہیں دیکھا یہ اہل زبان نہیں تاہم ان کی اردو بہت عمدہ ہے۔ آج انہوں نے شاعری کے علاوہ نظامت میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس نعتیہ مشاعرے میں جن شعرا نے نعتیں پیش کیں ان میں ڈاکٹر شاداب احسانی‘ طاہر سلطانی‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف‘ یامین وارثی‘ شمع انصاری‘ عبدالمجید محور‘ یوسف چشتی‘ امین الدین امین‘ احمد خیال‘ سخاوت علی نادر‘ ارشد کیانی‘ افضل ہزاروی‘ شارق رشید‘ محسن سلیم‘ علی کوثر‘ تاج علی رانا‘ اشرف طالب‘ عاشق شوقی‘ واحد حسین رازی‘ زاہد عباس‘ نہال احمد‘ زبیر صدیقی‘ محمد خضر‘ ناصر ظفر اور محمد اسجد شامل تھے۔ اس مشاعرے کا آغاز تلاوتِ کلام مجید سے ہوا جس کی سعادت حافظ محمد بلال فیضی نے حاصل کی۔ اس مشاعرے میں سامعین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جس میں پاکستان پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے عہدیداران و اراکین بھی شامل تھے۔ مشاعرے کا پنڈال بہت عمدگی سے سجایا گیا تھا جس کا کریڈٹ محمد سرور کے نام ہے جو کہ اس تقریب کے روحِ رواں تھے جب کہ شعرائے کرام کو دعوت نامے اختر سعیدی نے جاری کیے تھے جو کہ ادبی تقریبات کے انعقاد کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔

بزم شعر و سخن کا مشاعرہ

بزم شعر و سخن ایک ایسی ادبی تنظیم ہے جس نے بہت کم وقت میں ادبی مشاغل میں شہرت حاصل کی ابھی حال ہی میں اس تنظیم کے الیکشن ہوئے ہیں جس کی نئی باڈی نے عبدالخالق اللہ والا ٹائون کورنگی کراچی میں ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں محسن اسرار صدر تھے‘ اختر سعیدی‘ خالد معین اور اقبال خاور مہمانان خصوصی تھے‘ عبید ہاشمی اور عبدالرحمن مومن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ میزبانِ مشاعرہ محمد ذکی قاسمی سرمہ والا نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ طاہر سلطان پرفیوم والا (بزم شعر و سخن کے صدر) نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے ہماری تنظیم قائم ہوئی ہے ہمارے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ قلم کاروں کی پذیرائی کی جائے‘ عوام الناس میں کتب بینی کا شوق بحال کیا جائے اور مشاعروں میں سامعین کو لایا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کراچی میں بیشتر مشاعروں میں سامعین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جب کہ ہماری تنظیم کے مشاعروں میں باذوق سامعین موجود ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ مشاعروں کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ طارق جمیل نے کہا کہ چہروں کے بدلنے سے بزم شعر و سخن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ہم دل و جان سے نئے اراکین و ممبران کے ساتھ ہیں‘ ہمارا نصب العین ایک ہے‘ ہم سب متحد ہیں‘ اردو ادب کی ترویج و اشاعت ہماری ترجیحات میں شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہر علاقے میں مشاعرہ کرانے کا سوچ رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شعرا کو اسٹیج فراہم کیا جائے کیوں کہ بہت سے شعرا مشاعروں میں نہیں بلوائے جاتے‘ ہم نظر انداز شعرا کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔ عبید ہاشمی نے کلماتِ تشکر ادا کیے انہوں نے تمام شرکائے محفِل کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تنظیم کے اغراض و مقاصد پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔ اس موقع پر محسن اسرار‘ اختر سعیدی‘ خالد معین‘ اقبال خاور‘ اجمل سراج‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ نسیم شیخ‘ نورالدین نور‘ محمد علی گوہر‘ عبدالرحمن مومن‘ اسامہ امیر‘ عارف شیخ‘ کامران نفیس‘ تنویر سخن نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ مشاعرے میں سماعتیں جاگ رہی تھیں اور ہر شع کو بھرپور داد مل رہی تھی اس کا ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ ابھی کچھ لوگ موجود ہیں جو مشاعرہ سننا چاہتے ہیں نیز لانڈھی کورنگی میں بھی سخن فہم شخصیات موجود ہیں جب کہ ایک زمانے میں لانڈھی کورنگی اردو ادب کے حوالے سے بہت مشہور تھا اب دھیرے دھیرے یہاں ادبی فضا بن رہی ہے اس مشاعرے میں عبدالرحمن مومن نے اچھی نظامت کی اور مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا مزید یہ کہ وہ بہت تیزی سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں‘ مجھے اس لڑکے میں بہت صلاحیت نظر آرہی ہے۔

O…علمی و ادبی لطیفے…O

انکساری

آغا حشر کاشمیری مرحو م کے شناسائوں میں ایک ایسے مولوی صاحب بھی تھے جن کی فارسی دانی کو ایرانی بھی تسلیم کرتے تھے لیکن یہ اتفاق تھا کہ مولوی صاحب بے کاری کے ہاتھوں سخت پریشان تھے۔ ایک روز آغا حشر کاشمیری کو پتا چلا کہ ایک انگریز افسر کو فارسی سیکھنے کے لیے اتالیق درکار ہے۔ آغا صاحب نے بمبئی کے ایک معروف رئیس کے توسط سے مولوی صاحب کو اس انگریز کے ہاتھ بھجوا دیا۔
صاحب بہادر نے مولوی صاحب سے کہا ’’ویل مولوی صاحب ہم کو پتا چلا کہ آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے؟‘‘
مولوی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا ’’حضور کی بندہ پروری ہے ورنہ میں فارسی سے کہاں واقف ہوں۔‘‘
صاحب بہادر نے یہ سنا تو مولوی صاحب کو تو خوش اخلاقی سے پیش آتے ہوئے رخصت کر دیا لیکن اس رئیس سے یہ شکایت کی انہوں نے سوچے سمجھے بغیر ایک ایسے آدمی کو فارسی پڑھانے کے لیے بھیج دیا جو فارسی کا ایک لفظ تک نہیں جانتا تھا۔

صحیح رائے

سر والڈ ہائنیس پیج ایک مشہور رسالے پنچ کی ایڈیٹر تھے۔ ایک دفعہ ایک نوآموز افسانہ نگار لڑکی نے انہیں ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ ’’جناب عالی! آپ نے گزشتہ دنوں میری ایک کہانی مجھے لوٹا دی ہے‘ میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ آپ نے میری کہانی پڑھے بغیر لوٹا دی ہے کیوں کہ میں نے بطور آزمائش اپنی کہانی کے کئی صفحات کو گوند سے جوڑ دیا تھا یہ سارے صفحے ویسے ہی جڑے کے جڑے واپس آگئے ہیں‘ اب میں اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہوچکی ہوں کہ آپ نئے افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھے بغیر لوٹا دیتے ہیں۔‘‘
سر پیج نے چند سطور میں جواب دیا ’’محترمہ! مجھے ناشتے میں انڈے کھانے کی عادت ہے‘ انڈا توڑتے ہی مجھے پتا چل جاتا ہے کہ وہ ٹھیک ہے یا گندا ہے۔ یقین کیجیے میں نے زندگی بھر کبھی پورا انڈا کھانے کے بعد رائے قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔‘‘

حصہ