جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے

1402

جدھر دیکھتا ہوں اْدھر تْو ہی تْو ہے‘‘ کے مصداق… کوئی تو ہے جو نظام مملکت چلا رہا ہے ۔۔۔۔ وہی ….. اس سے آگے مزید دو چار سطور لکھنے پر پتھر کی مورت بن جانے کا خوف دامن گیر ہے ،لہٰذا مناسب یہی ہے کہ کوئی اور بات کی جائے ۔
میں ہی نہیں مجھ جیسے کئی تاریخ کے طالب علم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر ہمارے ملک پاکستان میں جو کچھ منظر پر دکھائی دیتا ہے وہ اسطرح کیوں نہیں ہوتا جو ہمیں نظر آتا ہے ؟
مشرقی پاکستان کے المیے نے بنگالی بھائیوں پر تو یہ حقیقت منکشف کرہی دی تھی کہ عوام کی حیثیت محض بلیڈی باسٹرڈ کی سی ہے۔ معمولی سا ایک ‘ بٹ مین ‘ بھی سول بلیڈی باسٹرڈ سے کہیں زیادہ معتبر حیثیت کا حامل ہے ۔
قومی منظر نامے پر نہ دکھائی دینے والی قوت نہ دِکھنے کے باوجود پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ وہ کون سی پراسرار قوت تھی جس نے حالیہ قومی انتخابات میں پورے انتخابی عمل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ملکی سطح پر تاریخ کی سب سے بڑی بد دیانتی دکھائی ۔ انتخابی عمل کی نگرانی کے بجائے انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر پاکستان پر ان ناتجربہ کار افراد کو مسلط کیا جن سے کسی بھی ڈھنگ کے کام کی توقع نہیں کی جاسکتی ان قومی انتخابات میں جس طرح دھاندلی کے نئے سے نئے انداز متعارف ہوئے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
انتخابی عمل کے دوران پولنگ اسٹیشنز کے اندر تو شفا فیت کا انداز اپنایا گیا مگر پولنگ کا وقت ختم ہونے کے فوری بعد جس قسم کی دھاندلی کا بازار گرم ہوا اس کو چشم تصور میں لانا بھی نا ممکن ہے ۔
ملک کی تاریخ میں اس طرح کی بے ایمانی صرف فیلڈ مارشل ایوب خان نے دکھائی تھی جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مقابلے پر متحدہ اپوزیشن کی صدارتی امیدوار تھیں ۔
ایوب خان نے تو اپنے گماشتوں کے ذریعے پولنگ اسٹیشنز پر حملے کروا کر ووٹرز کا داخلہ تقریباً ناممکن بنا دیا تھا ۔ اس کے باوجود کراچی ، اور مشرقی پاکستان میں عوام بہت بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کرنے اپنے گھروں سے نکلے اور محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعما ل کیا، مگر اتخابی نتائج سے پہلے ہی پہلے ایوب خان کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا ۔ مشرقی و مغربی پاکستان کے عوام ششدر رہ گئے کہ ابھی تو ووٹوں کی گنتی کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا ہے ایوب خان کس طرح کامیابی کا دعوی کر رہی ہیں مگر بھلا ہو اسٹیبلشمنٹ کا کہ جس نے حق نمک ادا کرتے ہوئے اپنے حصے کا کا م کردیا ۔
جیسا کہ پرانے لوگ جانتے ہیں کہ صدر پاکستان ایوب خان کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں کا بھرپور اتحاد وجود میں آچکا تھا ۔ اس اتحاد کے قائدین نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے درخوا ست کی کہ کہ وہ ایوب خان کے خلاف صدراتی انتخابات میں حصہ لیں جسے محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بیماری اور پیرانہ سالی کے باوجود منظور کرلیا ۔
حکومت کی جانب سے اس وقت ڈمی سیاسی جماعت کھڑی کی گئی جو حکومتی مسلم لیگ تھی ، فا تمہ جناح کی روز افزوں مقبول ہوتی انتخابی مہم کے اخلاف حکومتی مشنری پوری طرح حرکت میں آچکی تھی حکومتی مسلم لیگ اور اس کے رہنماؤں کی جانب سے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایسا گندہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ شرفاء کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوگئے۔ اس منفی پروپیگنڈے نے اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ اخبارات ۔ ریڈیو ٹی وی سب پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف مہم اپنے جوبن پر تھی اور سرکاری اور خریدے ہوئے علما کے ذریعے اس بات کو پھیلایا گیا کہ اسلا م میں عورت کی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔
مولانا مودودی نے جلسوں میں اسلا م کے اس اجتہادی پہلو کو نمایاں کیا کہ ” مجبوری کی حالت میں جب اس کے سوا کوئی راستہ نہ ہو تو بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی خامی کو قبول کرنا ہوگا، اس صورت میں اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا کہ خاتون امیدوار کی حمایت کی جائے اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کر رہی ہے ” ۔
اس مہم کے مقابلے میں ایوب خان ملک بھر میں طوفانی دورے کر رہا تھا اور ہر جلسے میں اپنی حکومت اور اپنے صدارتی عہدے کو عین اسلامی قرار دیتا تھا ۔ جس کی تائید سرکاری ملا اور میڈیا دونوں ملکر کرتے رہے ۔ حد یہ ہو گئی تھی کہ فاطمہ جناح اور جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے موقف کا سر کاری سطح پر مکمل بلیک آوٹ کیا جانے لگا ۔ پروپیگنڈے کے جواب میں وضاحت اور تردیدی بیانات تک کو اخبارات میں چھپنے سے روکا جارہا تھا ۔
اپوزیشن کی بدقسمتی کہیے کہ انتخابی مہم کے دوران ہی سا بق گورنر جنرل وزیر ا عظم خواجہ نا ظم الدین ہارٹ اٹیک کے سبب انتقال کرگئے ۔ خواجہ نا ظم الدین ایوب آمریت کے خلاف ہر محاذ پر سرگرم عمل تھے ۔ واضع رہے کہ ایوب خان یہ دوسرا صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے ، اس سے پہلے من چاہے ریفرنڈم نما انتخاب کی بدولت ان کو صدارت کے عہدے پر بٹھایا گیا تھا ۔
ایوب خان نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور ساتھ ہی ساتھ سپورٹنگ امیدواروں کے طور پر اپنے چہیتے وزراء کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی اپنے کاغذات نامزدگی داخل کریں ، چناچہ تین حکومتی وزراء محمد شعیب ، ذوا لفقار علی بھٹو ، اور صبور خان سمیت دو آزاد امیدواروں نے بھی اپنے کاغذات داخل کروائے ۔ جو بعد میں واپس لے لئے گئے ۔انتخابات سے کچھ دن پہلے 1958 کے الیکشن ایکٹ کے قو اعد کو ختم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا گیا ۔ مطلب تھا کہ اب کھلم کھلا اور اخلاقی حدود سے آزاد ہوکر انتخاب لڑا جائے گا ۔ انتخابی علاقوں ، فہرستوں اور حد بندیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے ازسرنو ترتیب دیا گیا جعلی ووٹرز اور غنڈوں کی فوج ظفر موج تیار کی گئی سرکاری وسائل اور انتظامی مشنری کو ہر ممکن طریقے سے اپنے مفاد کے استعمال کیا گیا ۔
مشرقی پاکستان میں اپوزیشن کی مہم اور فاطمہ جناح کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بیوروکریسی نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ کسی طرح فاطمہ جناح کی مہم کو سپو تاز کیا جائے یا روکا جائے چناچہ ایک اور حربہ اختیار کیا گیا اور انتخابات کو جو کہ مارچ میں ہونا تھے دو ماہ پہلے ہی کرنے کا اعلان کیا گیا اسطرح نئی تاریخ 2 جنوری 1965 کو کروا نے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ۔
وقت سے پہلے انتخابات کے نوٹیفکیشن کا براہ راست اثر محترمہ کی انتخابی مہم پر پڑا اور انہیں مختلف علاقوں میں دورے کرنے کا موقع ہی نہیں مل پایا ۔ ایک اور بدمعاشی یہ ہوئی کہ بڑے پیمانے پر حکومت مخالف امیدواروں کو اغوا کیا جانے لگا ۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان جو اس وقت نوجوانوں کا رہنما تھا ، اپنی بھرپور مہم کے ساتھ محترمہ کے حق میں جذباتی فضا بنا رہا تھا ، جماعت اسلامی اور اپوزیشن جماعتیں تمام تر مشکلات کے باوجود محترمہ کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتے رہے ۔ مگر میڈیا میں ہر اعتبار سے اس جمہوری آواز کو روکا جارہا تھا ۔ مغربی پاکستان میں کراچی کے علاوہ دیگر حصوں میں ایوب خان کا اثر زیادہ دکھائی دیتا تھا ۔ مگر اس بات کے قوی امکان تھے کہ فاطمہ جناح کی مقبولیت کے سامنے ایوبی آمریت کا چراغ گل ہو جائے گا ۔ لیکن پاکستان کی انتخابی تاریخ کی بدترین دھاندلی اور غندہ گردی کے سامنے شرفا کی ایک نہ چل سکی اور انتخابی نتائج کو راتوں رات تبدیل کرتے ہوئے ایوب خان کو کامیاب قرار دے دیا گیا ۔ نتائج کے مطابق ایوب خان کو پچاس ہزار اور فاطمہ جناح کو اٹھائیس ہزار ووٹ ملے ۔ مادر ملت فاطمہ جناح کو زیادہ تر ووٹ مشرقی پاکستان سے ملے جبکہ مغربی پاکستان میں صرف کراچی سے فاطمہ جناح کامیاب ہوئیں ۔ نتائج آجا نے کے بعد کراچی کے بیشمار ممبروں کوحکومت نے روپے پیسے اور زور زبردستی سے خرید کر ان کی حمایت اپنے نام کروالی ۔جبکہ کراچی کے یہ ممبران فاطمہ جناح کے نام پر انتخاب جیتے تھے ۔ صدراتی جھرلو اور جعلی مینڈنٹ کے بعد قومی اسمبلی کا چناؤ تھاجو دو ما ہ بعد مارچ میں ہو ا اس میں بھی پرانی حکمت عملی اپنائی گئی اور سرکاری مسلم لیگ جو کنونشن لیگ تھی ، کو کامیاب کروایا گیا ۔
کراچی میں لسانی فسادات کی ابتداء بھی ایوب خان کے دور میں ہوئی اور پہلا اردو اور پختون جھگڑا بھی اسی دور میں ہوا اور ایوب خان کا لڑکا گوہر ایوب ایک لسانی غنڈے کے روپ میں سامنے آیا ۔ اس مقابلے پر آنے والے ہر شریف آدمی کو جعل سازی کے ذریعے ہر وایا گیا ۔
اب آجائیں موجودہ سیاسی صورتحال کی جانب اور دیکھیں کہ ایوب خان کے دور اقتدار میں کروائے جانے والے انتخابات اور موجودہ دور کے حالیہ انتخابی عمل میں کون سی چیز مختلف ہے ۔
میرا خیال ہے کہ فاطمہ جناح کو جس طریقے سے الیکشن ہروایا گیا اس سے بھی زیادہ بے دردی کے ساتھ نواز شریف اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو الیکشن پروسس سے باہر نکالا گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے جب دوچار پولنگ اسٹیشنز کھولے تاکہ دوبارہ گنتی کروائی جائے مزے کی بات ہے سب ہی کے نتائج اپوزیشن کے حق میں آنے شروع ہوگئے ۔ سابق ’’ڈیم فنڈفیم‘‘ چیف جسٹس نے اپنے خصوصی آرڈر کے ذریعے ری کاونٹنگ پر پابندی لگادی اس ڈر سے کہ چہیتے عمران خان کی جیت ہار میں تبدیل نہ ہو جائے ۔
آج بہ حیثیت قوم ہم جو کچھ بھی ہم کاٹ رہے ہیں وہ درحقیقت ہم نے ہی بویا ہے ۔ تبدیلی کے جعلی نعرے کے چنگل میں پھنس کر سراب کو پانی سمجھ بیٹھے – نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
اب بھی ہوش کے ناخن لیں اور اپنے لیے کوئی ایسے راستے کا انتخاب کریں جو آپ ہی کی نہیں آپ کی نسلوں کی زندگی بھی بچا سکے ۔ ورنہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ لکھنے والے لکھیں گے کہ اب کیا ہوئے … جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!

حصہ