افشاں نوید
کل دوپہر ایک بجے کے بعد میں جس سڑک سے گزر رہی تھی اس کے دونوں جانب اسکول تھے۔
ہمارے تو بیشتر اسکول بنگلوں میں قائم ہیں۔ وہی بلڈنگ شام کو کوچنگ سینٹر کا لبادہ اوڑھے کھڑی ہوتی ہے۔ اسکول کی چھٹی کے بعد کیا رونق ہوتی ہے، ماشاء اللہ چمکتے دمکتے ذہین چہرے اور روشن پیشانیاں جو ہمارا مستقبل ہیں… یہی نیا پاکستان ہیں۔
جگہ جگہ بچے جمع تھے، کہیں سائیکلوں پر بنے آئس کریم پارلر سے آئسکریم خرید رہے تھے،کہیں ٹھیلوں سے چھولے اور پکوڑے لے رہے تھے، کہیں بڑے بڑے شاپروں سے پاپڑ خرید رہے تھے۔ ایک ٹھیلے پر شربت بک رہا تھا۔ بوتلوں میں جو رنگ برنگے شربت تھے وہ حفظانِ صحت کے اصولوں پر کتنا پورا اترتے ہیں…؟
آج کل کراچی میں ماحولیاتی آلودگی عروج پر ہے۔ بچے ویسے بھی بہت حساس ہوتے ہیں۔ اسکولوں کے باہر فوڈ اتھارٹی کی جانب سے چھاپے مارکر ان بیچی جانے والی اشیاء کا کبھی معیار چیک نہیں کیا گیا۔ مائیں چھوٹے بچوں کو عموماً پیسے نہیں دیتیں، لیکن سیکنڈری اسکول کے بچوں کے پاس لازماً پیسے ہوتے ہیں۔ ان کو روکا نہیں جا سکتا۔ اسکولوں میں اگرچہ کینٹین موجود ہوتی ہے لیکن چھٹی کے وقت اسکولوں کے باہر کھانے پینے کی اشیاء کا معیار لازماً چیک ہونا چاہیے۔ کبھی کسی اسکول انتظامیہ کو بھی فکر نہ ہوئی کہ جس نسل کو ہم بنا رہے ہیں اس کی جسمانی صحت کی فکر کرنا بھی اسکول کے احاطے میں ان کی ذمہ داری ہے۔ ہم بھی ہاف ٹائم میں اسکول کی کھڑکی سے چھولے، کٹے ہوئے پھل، شربت، آئسکریم سمیت جانے کیا کیا لیتے تھے۔ اُس وقت بھی نہ استاد کو پروا تھی، نہ اسکول انتظامیہ کو کہ کھڑکی سے باہر کھڑے ٹھیلوں پر کیا الا بلا بکتی ہے۔ خیر وہ تو گورنمنٹ اسکول تھا۔ آج کے والدین ایک بچے پر جتنا خرچ کررہے ہیں اُس وقت چار نسلوں پر بھی اتنا خرچ نہ ہوتا تھا۔
پاکستان میں فوڈ اتھارٹی نے کہیں چھاپے مارے تو پتا یہی چلا کہ انتہائی ناقص معیار تھا۔
یہ نوجوان نسل ہی نیا پاکستان ہے جس سے ہم غافل ہیں۔ چند پیسوں کے لیے کس طرح ان کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔
مانا کہ خوانچوں پر بکنے والی اکثر چیزوں کا معیار یہاں تھرڈ کلاس ہی ہے۔ بیچنے والے مجبور تو نہیں کررہے۔ خریدنے والوں کو خود احساس ہونا چاہیے۔ اکثر ٹھیلے نالوں کے ساتھ کھڑے دیکھے جاسکتے ہیں۔کھلی ہوئی چیزیں جن پر بیٹھی مکھیاں ایک ڈنڈے پر بندھے گندے سے رومال سے اڑائی جارہی ہوتی ہیں۔ جن دکانوں میں مٹھائی بنتی ہے اگر آپ اُس جگہ کا وزٹ کریں تو مٹھائی کھانے سے توبہ کرلیں۔
یہاں معاملہ بچوں کا ہے جو والدین کی نظر سے دور ہیں۔ ماں کو نہیں پتا کہ معصوم بچے نے اسکول کے باہر ٹھیلے سے کیا کھایا۔
اس وقت بیماریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اسپتالوں میں بچوں کے وارڈ بھرے ہوئے ہیں۔ ایک تو ماحولیاتی آلودگی، دوسرے بڑھتی ہوئی سماجی تبدیلیاں… اب بچے جنک فوڈز کے دیوانے ہیں۔ ایک وقت تھا جب بچے ماں سے فرمائش کرتے تھے۔ اب بچے کال پر آرڈر کرنا پسند کرتے ہیں۔
ایک تو اسراف، دوسرے صحت کی بربادی۔ رہے اسپتال، تو وہ منڈیاں ہیں جہاں دام لگتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی الگ داستانیں ہیں۔ ہم تیسری دنیا کے لوگ اور بے بسی کی دنیا!!!!
…٭…
سردیوں کے کپڑوں کا صندوق کیا کھولا کہ یادوں کے صندوق کھلتے چلے گئے۔ کچھ یادیں یونہی موسموں سے جڑی ہوتی ہیں۔
یوں کروٹ لی وقت نے کہ سب ہی کچھ بدل گیا۔
بچپن کی سردی تو امی کی مصروفیت کا نام ہوتی تھی… تام چینی کے بڑے بڑے مرتبان، ان میں ایک سے سائز کی گاجریں کاٹ کر پھر کٹی سرخ مرچ، رائی اور نمک وغیرہ ڈال کر مرتبان کے منہ پر ململ کا کپڑا لپیٹ کر چھت پر دھوپ میں رکھنا، رات کو نیچے لانا کہ اوس خراب نہ کردے۔ ایسے ہی شلجم، مولی وغیرہ کا اچار جو پڑوس میں بھی بھیجا جاتا، کبھی آنے جانے والوں کے ساتھ تحفتاً کردیا جاتا۔
باجرے کی روٹی امی کے ساتھ ہی ہماری زندگیوں سے رخصت ہوگئی۔ سرما میں یہ روٹی کبھی ساگ کے ساتھ اور کبھی روٹی کے ملیدے میں کٹے ہوئے گڑ اور دیسی گھی کے ساتھ چولھے پر چڑھا دی جاتی۔ چند سیکنڈ میں گھی پگھلا اور ملیدہ تیار۔ اس ملیدے کا ذائقہ اب بھی کہیں یادوں کے ساتھ زبان پر بھی محفوظ ہے۔ ہاں یہ ملیدہ بھی طشتریوں میں آس پڑوس کے گھروں میں لازمی بھیجا جاتا۔
ایک بات جو سمجھ میں نہیں آتی کہ اُس وقت چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں پڑوسیوں کو شامل کیا جاتا تھا، اب لوگ بڑے ہوگئے شاید! بڑے لوگ چھوٹی خوشیاں تقسیم نہیں کرتے!!!
آج یاد آرہا ہے کہ اون کی سلائیوں کے بھی نمبر ہوتے تھے۔ امی بھائی سے کہتیں: تم سولہ نمبر کی سلائیاں لے آئے، میں نے بیس نمبر کی منگوائی تھیں۔ ساری سردیاں امی ہم آٹھ بہن بھائیوں کے سوئیٹر بناتے گزارتیں۔ پرانے سوئیٹر ادھیڑنا، پھر رنگ والا دیگچا چولھے پر چڑھا کر انھیں رنگنا (ہماری امی کا رنگ کا دیگچا الگ تھا۔ زیادہ تر کپڑے گھر میں رنگتیں)۔ اُس وقت ایک، رنگ بیچنے والا لوہے کا چھوٹا صندوق کندھے پر رکھے گلیوں میں آواز لگاتا تھا اور بیشتر دروازوں کی اوٹ سے وہ رنگ کی پڑیاں خریدی جاتی تھیں۔
امی ادھیڑے ہوئے سوئیٹروں کے اون کو لچھوں کی شکل میں رنگ کر سُکھا کر پھر ان کے گولے بناتیں۔ پھر سوئیٹر کی بُنائی کا مرحلہ۔ بچپن میں جب ہم بستروں میں لحافوں میں دبکے ہوتے، امی کے ہاتھ تیز تیز سوئیٹر بنانے میں مصروف ہوتے۔ جب رات کو آنکھ کھلتی امی اور سوئیٹر کی بُنائی۔ اُس وقت ذہن میں آتا کہ شاید امیاں راتوں کو سوتی نہیں ہیں!!!
تب سرکاری نلوں میں پانی ہمارے گھر رات کو تین یا چار بجے آتا، آنکھ کھلتی، امی کو کپڑے دھوتے دیکھ کر کبھی خیال بھی نہ آتا کہ کپڑے بھی کوئی آخر رات کو دھلنے کی چیز ہیں…؟
ہمارے گھر کی راتیں بھی عجب راتیں تھیں۔ ہم نے کبھی رات کو اندھیرا نہیں دیکھا اپنے گھر میں، کیونکہ اباجی رات بھر تلاوت میں مصروف ہوتے، ساتھ چائے کے دور۔ کبھی خود بناتے، کبھی امی کی خدمات۔ اس لیے شاید امی کو بھی رات کی نیند سے خاص دلچسپی نہ تھی۔ امی کے رت جگے ہمارے جسموں کے نئے سوئیٹرز کی صورت میں امر ہوجاتے۔ آٹھ بچوں کے سوئیٹر، کسی کی پوری آستین، کوئی بن آستین، کسی کے یونیفارم کے مطابق۔ کوئی آسان تھا بھلا…؟
پھر لحاف کے ٹانکے کھول کر ادھیڑنے اور دھونے کے بعد دوبارہ روئی دھنوانا اور رضائی، لحافوں میں گھنٹوں ڈورے ڈالنا… اکثر بنارسی اور بروکیٹ کے استعمال شدہ پرانے کپڑوں سے امی اس ہنرمندی اور نفاست سے رضائی بناتیں کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھتے۔
وہ امی جو والدین کی لاڈلی، زمیندار گھرانے میں پلی بڑھیں، جن کی شادی اس شرط پر ہوئی تھی کہ نازوں میں پلی ہیں گھر کے کام نہیں کریں گی۔ پانچ برس کی عمر میں چلنا سیکھا تھا۔ بچپن سے کمزور تھیں۔
یہ اُس دور کی قناعت پسندی تھی کہ عورتیں خود کو ہر ماحول و حالات میں ڈھال کر اولاد کی خاطر اپنی ذات کی نفی کردیتی تھیں… ہم نے کبھی بازار کے سوئیٹر پہنے نہ درزی کے سلے کپڑے۔ امی کی سلائی مشین بھی بغیر موٹر والی ہاتھ کی تھی، جس کی مرمت بھی وہ بڑے پیشہ ورانہ انداز میں خود کرتیں۔
حکیم برکاتی کے خاص مربے سردیوں میں اباجی منگواتے، جن میں امی کے سوا کوئی دلچسپی نہ لیتا۔ امی چونکہ ٹی بی کی موذی بیماری سے زندگی کی جنگ ہارتے ہارتے بچی تھیں اس لیے اباجی ان کی صحت کا خاص خیال رکھتے۔ خالص شہد گاؤں سے منگواتے۔
سردیوں کی صبح درجن بھر انڈے اباجی اذانِ فجر کے ساتھ ہی ابال لیتے۔ جی چاہے نہ چاہے، سب بچوں کو کھانا ہوتے۔ پھر دارچینی اور لونگ و ادرک کی چائے۔ اباجی روز اس کے فوائد گنواتے، مگر ہم بچوں کے حلق سے نیچے نہ اترتی۔
انگیٹھی دہکانا ہمیں کبھی نہ آیا۔ ہر کمرے میں انگیٹھی… کچھ سائز میں چھوٹی،کچھ بڑی۔ اباجی سلگا کر کبھی صحن میں رکھتے، کبھی کمروں میں۔ اس کی راکھ سے کتنی یادیں جڑی ہیں۔ اس راکھ کو احتیاط سے محفوظ رکھا جاتا جو دیگچیاں مانجھنے کے کام آتی۔ اسی راکھ میں ہم چمٹے کی مدد سے کبھی آلو،کبھی شکرقندی اور کبھی بھٹے دبا دیتے۔ پھر ان انتظار کی گھڑیوں کی بے چینی نہ پوچھیں۔ گھنٹہ بھر میں وہ کوئی شے تیار ہوتی تو جس کے مالکانہ حقوق ہوتے وہ جاگیرداری دکھاتا اور باقی خوشامدی ٹھیرتے۔
اُس وقت کراچی میں سردی بہت پڑتی تھی، مگر امی کہتیں: یہ تو پنڈی کی سردی کے مقابلے میں کچھ نہیں، وہاں تو نلوں میں پانی اور سل پر بٹہ جم جاتا ہے۔
رُت اب بھی بدل رہی ہے، مگر رُت کے ساتھ سبھی کچھ بدل چکا۔
اب کے مائیکرو ویو والے بچے کیا جانیں انگیٹھی میں شکر قندی رکھنا… نہ ہم رنگ والے کو آواز دے کر دروازے کی اوٹ سے رنگ خریدتے ہیں، نہ کبھی اون رنگا، نہ سوئیٹر بُنا، نہ کسی گھر میں اون کی سلائیاں… نہ اچار، مربے، ملیدے اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ اڑوس پڑوس سب سانجھا ہے، سب اپنا ہے۔ تب ذائقے بھی سانجھے تھے اور دکھ درد بھی۔
زمانے کو آگے ہی بڑھنا چاہیے۔ ہر زمانے کے تقاضے بھی جدا… مگر کبھی کبھی… یادوں کے صندوق کھلنے میں حرج بھی کیا ہے!!!!
ہوا کا لہجہ بدل رہا ہے…
ہوا کا لہجہ بدل رہا ہے
خزاں کے پتوں نے طے کیا ہے
کچلتے پیروں کو اپنے ہونے کا درد دیں گے
زمیں کے سینے پہ چلنے والو
گزرتے موسم کے زرد رستوں پہ
اب سے تھوڑا سنبھل کے چلنا
فضا کی تلخی تمہارے کانوں میں کہہ رہی ہے
خزاں تمہارے قریب بھی ہے
اجل تمہارا نصیب بھی ہے
زمین کے سینے پہ چلنے والو
افق کا سورج پگھل رہا ہے
ہوا کا لہجہ بدل رہا ہے