سیدہ عنبرین عالم
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
(اقبالؔ)
صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ ہر دور میں ایک ’’قطب‘‘ ہوتا ہے، یعنی آخری پیغمبر کے بعد بھی میرے اللہ نے نسلِ انسانی کو بے راہ نہیں چھوڑا۔ جب تک کرۂ ارض پر ایک بھی انسان باقی ہے، اسے ہدایت پہنچانا میرے رب کی ذمہ داری ہے تاکہ حجت باقی نہ رہے۔ اس لیے ہر دور میں ایک گروہ ایسا رہا جو حق کو حق اور باطل کو باطل کہتا رہا۔ اس گروہ یعنی راہِ ہدایت دکھانے والے چراغ کو ’’قطب‘‘ کہا گیا، تاکہ کسی دور کا انسان یہ نہ کہہ سکے کہ آخری پیغمبر تو ہم سے 1400 سال پہلے آئے تھے اور ہم تک جو ہدایت پہنچی وہ دراصل علما کی آپس کی تلخیوں کا خلاصہ تھی، اصل دین نہ پہنچ پایا۔
آج کے دور میں بھی ہمیں کئی صاحبِ نظر لوگ نظر آتے ہیں جن کے دم قدم سے دین کی اصل کچھ نہ کچھ باقی ہے، مگر صحیح معنوں میں اگر بیسیویں صدی کا قطب کسی کو کہا جاسکتا ہے تو وہ اقبالؔ کی شخصیت ہے۔ تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہوگا کہ ایک شاعر دنیا کا جغرافیہ بدل دے، اور یہ شاعر ’’عشق‘‘ کو راہ نما بناکر چلتا ہے۔ عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ عشق محض ایک شاعرانہ اصطلاح ہے، اور عملی زندگی میں اس کا نفاذ ممکن نہیں، اور اگر ہے بھی تو احمقانہ اقدامات کا مجموعہ ہے۔ درج بالا شعر ملاحظہ ہو۔
عقل کو بھی اگر عشق ہدایت دے تو عقل صحیح کام کرے گی، ورنہ وہ عقل بھی ایٹم بم بنا بیٹھے گی، جو انسانی امتحان میں سراسر تباہی اور شکست کا پیش خیمہ ہے۔ آج آپ دیکھتے ہیں کہ دین کے نام پر کئی مسلک، مسجدیں اور ادارے آباد ہیں، مگر ایک بھی لیڈر پیدا نہیں ہورہا۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ عشق نہیں ہے تو دین بھی بہت کدہ ہے، جہاں ہم نے اپنے ہاتھ کے بنے ہوئے تصورات کی پوجا شروع کردی ہے۔ ایک بار پھر درج بالا شعر کو پڑھیے۔ آج آپ کا دین کیا ہے؟ میلاد النبی، محرم میں ماتم، شب برأت میں پٹاخے اور حلوے… یہ سب تصورات ہیں، بے عشق تصورات… جنہیں ہم نے دین سمجھ لیا ہے۔ یہ بت ہیں جن کی ہم پوجا کررہے ہیں۔ اگر ہمیں اپنے رب سے عشق ہوتا تو ہم کو فکر ہوتی کہ اللہ ہم سے کیا کہہ رہا ہے۔ بغیر عشق کے پاروں پر پارے ختم ہورہے ہیں کہ ثواب مل جائے، جنت میں چلے جائیں۔ اپنے رب کا تو خیال بھی دل کے قریب نہیں پھٹکتا، عشق کا کیا سوال ہے! رسولؐ کے اسوہ سے لاتعلق، رسولؐ کے مدینے میں مرنے کی تمنا، مگر رسولؐ کے نظام سے سرکشی۔ یہ ہے دینِ بے عشق۔ جب اللہ سے Connected نہیں ہیں تو چارجنگ ہی نہیں ہورہی، پھر تو موبائل فون بگڑے گا ہی۔
بچپن سے قرآن میں پڑھتے ہیں کہ جنتی جب چلیں گے تو اُن کے چاروں طرف اُن کا نور بھی چلے گا، اور جہنمی اُن سے اُن کا نور مانگیں گے۔ پھر ایک مغربی لکھاری کی کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا، اس نے AURA کا ذکر کیا، یعنی نیک انسان کے اطراف نور کا ایک ہالہ ہوگا۔ جوبھی بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے اطراف نور کا ہالہ ہوتا ہے، پھر جیسے میں نے ایک جھوٹ بولا تو اس ہالے میں ایک سوراخ ہوگیا، دوسرا بولا مزید ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی، یہاں تک کہ جو سخت گناہ گار ہوتے ہیں اُن کا ہالہ ختم ہوجاتا ہے اور اس سے Negative Radiation خارج ہونے لگتی ہے، یعنی آپ ایک صلح جُو عبارت بیان کرتے ہیں تو وہ آپ کے سارے ماحول پر اثرانداز ہوگی، آپ کی روح کی توانائی کا باعث ہوگی اور آپ کے اطراف موجود انسانوں کو بھی آپ کے لیے سازگار بنائے گی۔ اور آپ غلط لہجے میں غلط بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو ہی نقصان ہوگا، آپ کا AURA ٹوٹے گا، منفیت تمام ماحول میں پھیلے گی، آپ کے اطراف موجود انسان بھی آپ سے بدظن ہوں گے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی کسی کی بات برداشت کرنے کو تیار نہیں، ہر ایک دلوں میں نفرتیں لیے بیٹھا ہوا ہے۔ حسد، حرص اور عداوت کے جذبے روحوں کو جھلسائے دے رہے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ پوری دنیا میں Negative Radiation پھیل گئی ہیں، ہم نے اپنے اعمال سے اپنے نور کے ہالے برباد کردیے ہیں، اور یہ منفی توانائیاں براہِ راست ہماری روحوں پر حملہ کررہی ہیں۔ وجہ پھر وہی عشق کی کمی۔ اگر ہم کو اپنے رب کے سوا کسی چیز کی پروا ہی نہ ہو، تو ہم کبھی نہیں سوچیں گے کہ فلاں نے ہمیں کیا کہہ دیا اور ہمیں اس کا کیسا منہ توڑ جواب دینا ہے۔ ہمیں تو ہر وقت یہ فکر ہوگی کہ ہمارے ہاتھ اور زبان سے کوئی زیادتی نہ ہوجائے کہ ہمارا رب ہم سے ناراض ہوجائے۔ یوں ہمارا نور کا ہالہ نہیں ٹوٹے گا، ماحول میں منفیت نہیں پھیلے گی اور ہماری روح بھی محفوظ رہے گی۔ یہی چیز ہم انبیا و رسل میں دیکھتے ہیں کہ وہ بڑی سے بڑی زیادتی معاف کردیتے ہیں۔ اب آپ سوچیں گے کہ اس طرح تو شیطانی قوتیں ماحول پر حاوی ہوجائیں گی۔
’’اور بہت سی بستیاں ہیں کہ میں ان کو مہلت دیتا رہا، اور وہ نافرمان تھیں، پھر میں نے ان کو پکڑ لیا، اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ (سورۃ الحج، آیت 48)
اللہ کے رسولوں، ولیوں اور نیک بندوں کی تکالیف کا ازالہ اللہ بہ ذاتِ خود کرتا ہے، ہم کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم صرف اپنے رب کے کام میں لگے رہیں، ہماری راہ سے مشکلات دور کرنا اللہ کا کام ہے، یہ ہے عشق۔
آپ دیکھتے ہیں کہ پاک نبیؐ طائف میں کسی پتھر مارنے والے کو پتھر اٹھا کر نہیں مارتے، مگر انہی طائف والوں کی اولادیں پاک نبیؐ کے دین کو پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ہے سسٹم، اور سسٹم سے منسلک رہنے کا فائدہ۔ اللہ کے انبیا کے مخالفین پر خود انبیا نے کبھی حملہ تو کجا کسی منفی لفظ کا بھی استعمال نہیں کیا، مگر اللہ کی طرف سے قلع قمع کا انتظام ہوا اور بد عناصر پر عذاب نازل ہوئے، یہاں تک کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آتے آتے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسا کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی بد عناصر پر اللہ کا عذاب بن کر ٹوٹنے کا عندیہ حاصل کرلیا۔ حضورؐ کی رسالت یہود کے خلاف تھی، یہود تباہ کردیے گئے، اور انہیں سنبھلنے میں کئی صدیاں لگیں، اس کے برعکس عربوں پر میرے نبیؐ رحمت ہی رہے، کیوں کہ یہی مرکز تھا۔ خود آپ کچھ نہیں کریں گے، اس کے لیے مرکز سے بہترین اور مضبوط رابطہ چاہیے یعنی……؟ جی جناب! عشق! اور میرے پاک رب کی قسم، یہ عشق ایک وقت میں ایسا طاقت ور ہوتا ہے کہ مرکز کی کنٹرولنگ ہاتھ میں آجاتی ہے، پھر ایک اشارے پر چاند بھی دو ٹکڑے ہوتا ہے اور نیل بھی پھٹ جاتا ہے، ابراہیم کی آگ گلزار ہوتی ہے، وقت کے نمرود و فرعون ذلیل ہوکر رہ جاتے ہیں، آپ مرکز بن جاتے ہو، آپ نائب بن جاتے ہو۔
میرے رب کی کائنات میں کچھ بھی اتفاق سے نہیں ہوتا، ہر چیز Calculated ہوتی ہے، ہر چیز منصوبہ بندی کے تحت ہوتی ہے، کوئی واقعہ بھی الل ٹپ نہیں ہے، کوئی حادثہ نہیں ہے، کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر آپ انتہائی خوش حال ہیں تو یہ اللہ کی طرف سے عنایت ہے، اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں۔ اور اگر کوئی انتہائی مشکلات کا شکار ہے تو یہ اللہ رب العزت کی طرف سے اس کے لیے تعین کردہ امتحان ہے، اس کی وجہ اُس کی بداعمالی نہیں ہے، اُس کے لیے یہی لکھا گیا تھا۔ مدعا یہ ہے کہ اگر آپ اقبال کے مردِ مومن اور اپنے رب کے سچے عاشق بننا چاہتے ہیں تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو کچھ بھی ہے سب اللہ رب العزت کی طرف سے ہے۔ اس کی لکھی ہوئی تقدیر پر راضی ہونا پڑے گا۔ جب تک آپ اللہ سے راضی نہیں ہوں گے، اللہ کو راضی نہیں کرسکتے۔ یہی عشق کی پہلی سیڑھی ہے، اپنے رب کے ہر فیصلے کو دل سے قبول کرلیں، رب سے شکایت نہ کریں۔
دوسرا مرحلہ آتا ہے ’’ربک فکبر‘‘۔ شیطان کے مقابلے میں اپنے رب کی بڑائی قائم کرو، جو جنگ میرے رب اور شیطان کے درمیان چل رہی ہے، اس میں اللہ کی فوج بن جائو، اللہ کا ساتھ دو، جو بھی آپ کے دائرۂ اختیار میں رہ کر ممکن ہے وہ کر گزرو، اگر آپ کے اختیار میں صرف پودے لگانا ہے تو کرو، آپ کے اختیار میں صرف گھر کے باہر ٹھنڈے پانی کا کولر رکھنا ہے تو کرو۔ پھر رفتہ رفتہ آگے بڑھو، کلمۂ حق بلند کرو قلم کے ذریعے، انٹرنیٹ کے ذریعے یا جس طرح ممکن ہے۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو، اللہ کے کلام کو اللہ کے بندوں کے دلوں تک پہنچائو۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے زیادہ کوئی چیز عشق کی نشوونما میں کارگر نہیں۔ آخرکار آپ جہاد کرو گے، ایسا جہاد کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ ہوجائے اور شیطان کی برتری ختم ہوجائے۔
ذرا غور کیجیے، جیسے اور مذاہب ہیں ویسے ہی آپ کا ایک مذہب ہے۔ وہ اپنے دین کی کرامتیں بتاتے ہیں، آپ اپنے دین کی کرامتیں بتاتے ہیں۔ فرق کہاں ہیں؟ جانیں تو دین کی راہ میں صلیبیوں نے بھی دی تھیں، ہندوئوں کی بھی پوری جنگی تربیت ہوتی ہے آپ کہاں ان سے بہتر ہیں؟ وہ اپنے بت سے بات نہیں کرسکتے، آپ بھی اپنے رب سے رابطہ نہیں کرسکتے۔ وہ پنڈت کے محتاج، آپ عالمِِ دین کے… فرق اُس وقت پیدا ہوگا جب کہ آپ کا دین دوسرے ادیان کی طرح رسومات کی پاسداری میں نہیں رہے گا بلکہ ’’عشق‘‘ ہوگا، جب ہمارا ہمارے رب سے رابطہ ہوگا، ہمارے رب بتوں کی طرح خاموش نہیں ہوگا، بلکہ ہم سے باتیں کرے گا۔ وہ عمرؓ جب کہتا ہے کہ ہم مدینے کے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے، شہر میں مقید نہیں ہوں گے، تب رب نے وحی اتاری رسولؐ پر کہ عمرؓ ٹھیک کہتا ہے۔
وہ عمرؓ جب زلزلے سے لرزتی زمین دیکھتا ہے تو کوڑا رسید کرکے کہتا ہے کہ تُو کیوں کانپتی ہے، کیا عمرؓ تیری پیٹھ پر انصاف نہیں کرتا؟ زمین رک جاتی ہے۔ خدا کہتا ہے کہ عمرؓ ٹھیک کہتا ہے۔ وہ جو دریائے نیل ہر سال کنواری دوشیزہ کی قربانی مانگتا تھا ورنہ سوکھ پڑتا تھا، قحط بن کر ٹوٹ پڑتا تھا، عمرؓ ایک خط لکھتا ہے کہ اگر اللہ کے حکم پر چلتا ہے تو جاری رہ اور توازن میں رہ۔ عمرؓ کا حکم دریا پر نافذ ہوجاتا ہے، خدا کہتا ہے عمر ٹھیک کہتا ہے۔ عمرؓ کے دل میں خدا بولتا ہے۔ یہ ہے عشق جو کائنات کو سرنگوں کر دیتا ہے، جو فرق بتادیتا ہے۔ پھر ہوتی ہے خدا کی خدائی قائم۔ بغیر عشق کے آپ بھی سجدے میں سر پٹختے رہو، وہ بھی پٹختا رہے، کوئی فرق نہیں۔ حکمرانی شیطان کی قائم رہے گی، کیوں کہ وہ شیطان سے رابطے میں ہے اور آپ اللہ سے صرف جنت مانگتے ہو، آپ کو اپنا گھر بنانے کی فکر ہے، مقدمہ جیتنے کی فکر ہے، آمدنی میں اضافہ چاہتے ہو، اور بھی لاتعداد خواہشیں… بس فکر نہیں ہے تو اپنے رب کی فتح کی، حالانکہ دنیا میں تو آپ دو گے، وہ آپ کو استعمال کرے گا۔ آخرت ہے کہ آپ لو گے، وہ دے گا۔
انسان کا امتحان جاری ہے، اور یہ نوعِ انسانی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ یہ امتحان ہر مرحلے میں جدید سے جدید تر ہوتا جارہا ہے۔ ابراہیمؑ کے دور میں صرف خدا کو پہچاننا تھا، کہ بت عبادت کے لائق نہیں بلکہ اللہ کا وجود ہے اور وہ عبادت کے لائق ہے۔ موسیٰؑ کے دور میں پہچان ہوچکی تھی، اب مرحلہ تھا اللہ کے اوپر ایمان لانے کا، اس کے نام پر قوم بنانے کا۔ جب مرحلہ آیا میرے محمدؐ کا، تو پہچان، ایمان کے بعد اللہ کا نظام زمین پر نافذ کرکے دکھایا گیا۔ اب امتحان کا اختتام ہے، اب شیطان پر اللہ کی فتح کو ممکن بنا کر دکھانا، اور بتانا ہے کہ اگر اللہ نے انسان کو نائب چنا ہے تو صحیح چنا ہے۔ یہ مرحلہ ’’عشق‘‘ کے ذریعے سر ہوگا، یعنی پہچان، ایمان، نظام اور عشق۔
افسوس کہ نوعِ انسانی ابتر سے ابتر ہوکر مکمل اطاعت شیطان کی اختیار کرچکی ہے، شیطان کی حکومت ہے اور وہ اپنے دعووں میں درست معلوم ہوتا ہے۔ انسانوں میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا ہوتا ہے جو میرے رب کا کارکن ہوتا ہے، الحمدللہ مجھے جماعت ایسا ہی گروہ معلوم ہوتی ہے، اس گروہ کا عشق پر مستحکم ہونا بہت ضروری ہے تاکہ یہ گروہ دیگر انسانی گروہوں کو دیکھے کہ کہاں پہچان کی ضرورت ہے، کس کو ایمان کی طرف راغب کرنا ہے اور کس مرحلے پر نظام نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اس دور کا امتحان عشق ہے۔ قیامت سے پہلے تمام دنیا پر اللہ کا دین نافذ ہونا ہے، تمام دنیا کی رہنمائی وہ لوگ ہی کرسکتے ہیں جو عشق کی انتہائوں پر ہیں، جن کی نگاہ سے تقدیریں بدلتی ہیں، اور جو اللہ کے نور سے بصیرت حاصل کرسکتے ہیں، ٹیکنالوجی جن کی ٹھوکر پر ہے، جو روح کی سائنس جانتے ہیں۔