انصرمحمودبابر
۔’’میرامشورہ ہے کہ اپنے نونہالوں کو ’’تنظیم ِ وقت‘‘کاایک مضمون بھی بطور ِ لازمی مضمون ضرورپڑھاناچاہئے‘‘۔وہ اردوکے استادتھے تواچھی اردوتوانھیں آنا ہی چاہیے تھی۔میں ان کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا چائے پی رہاتھااورساتھ ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ بھی جاری تھی۔اسی گپ شپ کے دوران میرے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاتھا۔میں نے اپنے طورپران کے ’’تنظیم ِ وقت‘‘ کامطلب ’’ٹائم مینجمنٹ ‘‘نکالاتھا۔عام طورپر’’زیادہ پڑھے لکھے‘‘لوگوںکے حلیے کے بالکل برعکس وہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھے۔سلیقے سے بنے ہوئے بال اورصاف ستھرے پالش کیے گئے جوتوںکے ساتھ وہ خاصے وجیہ لگ رہے تھے ۔سفیدبال اورنفیس چشمہ بھی ان کے رعب میں اضافہ کررہاتھا۔مجموعی طورپروہ ایک شاندارشخصیت کے مالک تھے۔میری ہرلاشعوری حرکت میری بے چینی کی مظہر تھی۔ جبکہ ان کے ہونٹوں پہ کھیلتی ہلکی مسکراہٹ اوران کی ذہین آنکھوں میں ہلکورے لیتا ہوااطمینان ان کومکمل طورپرپرسکون ظاہرکررہاتھا۔میرے سوال کا جواب دے کر چند لمحے وہ میرے وجودپر اس کے رد ِ عمل کا جائزہ لیتے اورچائے کی چسکی کے ساتھ گویااگلے سوال کے لئے تیارہوجاتے۔
’’سرتھوڑی وضاحت کیجئے کہ ٹائم مینجمنٹ کیوں ضروری ہے؟‘‘۔وہ تھوڑے سیدھے ہوکربیٹھ گئے اورمیری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے فرمانے لگے کہ دیکھوبیٹااپنے آپ کو فطرت کے تھوڑاقریب کرو۔جب خودمیں اورفطرت میں فاصلہ کم پائوتواس کی ہراداپہ غورکرو۔تمھیں ہرچیزوقت کے ایک مخصوص دھارے میں بہتی نظرآئے گی۔ مثلاًسورج کا اپنے طے شدہ وقت میں طلوع وغروب اورموسموں کااپنے وقت کے مطابق تغیرپذیرہونا’’تنظیم ِ وقت ‘‘کی عام فہم مثالیں ہیں۔کائنات کی ہرچیزکا حسن دراصل اس کا حسن ِ ترتیب ہے۔کبھی ایسانہیں ہوتاکہ آپ کی نیند ٹوٹنے سے پہلے آپ کی آنکھ کھل گئی ہو۔ہمیشہ پہلے نیند ختم ہوتی ہے اس کے بعد آنکھ کھلتی ہے۔چلتے ہوئے آپ کے قدم کبھی بیک وقت آگے یاپیچھے نہیں ہوتے۔ہمیشہ ایک قدم آگے اوردوسراپیچھے ہوتاہے۔آپ چاہ کربھی اس ترتیب کو خراب نہیں کرسکتے۔آپ کبھی دوسانسیں اکٹھی اندر نہیں کھینچ سکتے ۔پہلے ایک سانس اندرآئے گی توپھرباہرجائے گی۔
وہ چھوٹی چھوٹی مثالوں کے ذریعے میرے شعورکی گتھیاں سلجھارہے تھے۔ ان کے ہلکے سے توقف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اگلاسوال داغ دیا۔’’سر اس ماڈرن سائنس کے دورمیں کہ جب غیرسائنسی لوگوں کی رسائی بھی دیگرسیاروں تک ممکن بنائی جارہی ہے اورزندگی کوان سیاروں پہ تلاش کیاجارہاہے توآپ آج بھی سوسال پیچھے کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
میری بات سن کر ان کی فراخ پیشانی پہ ہلکی سی سلوٹ ایک لمحے کونظرآئی مگردوسرے ہی لمحے ان کی مخصوص بردباری نے ان کی شخصیت کا احاطہ کرلیا۔وہ چونکہ ایک اچھے استادتھے اس لئے سامنے والے کواپنی گفتگوکے حصارمیں لینے کافن بخوبی جانتے تھے۔
’’یہی توالمیہ ہے کہ سوسال پہلے ہم جن بنیادی اصولوںسے ناواقف تھے آج بھی شعوری طورپران سے روگردانی کاجرم کررہے ہیں۔آج کی ماڈرن سائنس کے کسی نامور عالم کی مثال لے لو۔کیااس نے اپنے حصول ِ علم سے لے کرآج تک کی جدیدترین ایجادات تک اپنے میسر وقت کا بہترین استعمال نہیںکیا؟۔کوئی ایساعالم،کوئی مصلح،کوئی ادیب،کوئی تاریخ داںالغرض اپنے علم وفضل سے اقوام ِ عالم میں نام کمانے والے کسی ایک شخص کانام ہی بتادوکہ جس نے اپنے وقت کے مطابق زندگی نہیں گزاری؟۔آج ڈگریاں توعام ہیں،علم نہیں ہے۔اورمادی ترقی کی دوڑمیں روح کی پیاس مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ قدرت ہمیںموقع دیتی ہے کہ ہم وقت کی پابندی کریں۔نمازوں کااپنے اپنے مقررہ وقت پرفرض ہوناپابندی وقت کی اعلیٰ ترین مثالوں میں سے ایک ہے۔اوردیکھوبیٹاوقت کے مطابق زندگی کزارنے کاکیامطلب ہے؟غورسے سنو۔اگرآپ مالی لحاظ سے کمزورہیں تواپنے شب وروزاپنی استطاعت کے مطابق ڈھال لو۔اگرآپ امیرہیں تواپنے سے کمترلوگوں کواپنے ساتھ لے کر چلو۔اپنے پاس کسی خاص وقت میںموجودمال ،صلاحیت،علم اوربرداشت کابہترین استعمال وقت کی پابندی ہے۔ہمیشہ وقت کے مطابق چلناچاہیے ۔اس لیے کہ جس نے بھی وقت کو قید کرناچاہا،وقت بند مٹھی کی ریت کی ماننداس کے ہاتھ سے پھسل گیا اوروہ خالی ہاتھ ملتارہ گیا۔اوروہ جس نے اپنی ناآسودہ خواہشات کی جلد تکمیل کی خاطرکوئی ناپسندیدہ رویہ یاناجائزذریعہ اپنایایااپنانے کی کوشش کی ،اس نے گویاوقت کی ناقدری کی۔یادرکھو۔وقت ایک ایسے اصول کانام ہے کہ جو اس کے مطابق چلتاہے وقت اسے مالا مال کردیتاہے اورجواپنے میسر وقت کی قدرنہیں کرتا،زمانے بھرکی ٹھوکریں اس کامقدرکردی جاتی ہیں‘‘۔
وہ اپنی بات ختم کرچکے تھے اور میں زندگی اوروقت کے اس فلسفے میںاپناکردارکھوجنے میں محوتھا۔میں سوچ رہاتھاکہ ہمارے معاشرے میںکتنے لوگ ہیں جواستاد ِ محترم کی بیان کردہ پابندی وقت کی مثال پرپورااترے ہیں؟۔ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جوٹائم مینجمنٹ کے اس فارمولے کے مطابق زندگی بسرکررہے ہیں؟