عامر اللہ
رشتے بہت نازک ہوتے ہیں، جنہیں احساس کی ڈور سے باندھا جاتا ہے اور ذرا سی تلخی سے ان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ ان کا ایک دوسرے پر حق ضرور ہے مگر اختیار نہیں۔ حق ادا ہوتا ہے جب کہ اختیار میں لوگ خدا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ معبود کی طرح خود کی پوجا کروانا اور کسی صحیفے کی طرح قانون لاگو کرنا فطرت بن جاتی ہے۔ اگر آپ اسی طرح ان پر اپنے قوانین لاگو کرتے رہے تو ایک مقام آجاتا ہے جب محبت و احترام کے سب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر نہ ہی رشتہ عزت کا باقی رہتا ہے اور نہ ہی محبت کا۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب دلوں میں کدورت اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر آپ اختیار رکھتے ہوئے بھی بے اختیار ہو جاتے ہیں اور بہت قیمتی لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنی قدر و وقعت بھی کھو دیتے ہیں۔
اس لیے اپنا اختیار، رعب اور اپنے قوانین لاگو کرنے کے بجائے اپنے چاہنے والوں کو آزاد چھوڑ دیں کیوں کہ جو رشتے مضبوط ہوتے ہیں وہ کبھی آپ کو جھکنے نہیں دیں گے۔ آپ کے بنائے ہوئے اصولوں پہ دلی خوشی کے ساتھ چلیں گے۔ اپنے بنائے ہوئے اصول ان پر مسلط نہ کریں اور یہی خود کو ان کے ساتھ اور ان کو اپنے ساتھ جوڑنے کا بہترین فیصلہ اور طریقہ ہے۔یہ ہمارا عمومی رویہ ہے کہ ہم اپنی قریبی رشتوں کو اپنی پسند کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ انہیں جیسے وہ ہیں ان کی انفرادیت کے ساتھ قبول کرنے کے بجائے ہم اپنی پسند ناپسند ان پر مسلط کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس رشتے میں بندھ کر ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ ہم کبھی خود کو کسی کی پسند ناپسند کے مطابق نہیں ڈھالتے بلکہ ہمیشہ سامنے والے سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے خود کو بدل لے گویا محبت کے نام پر حبس بے جا میں رکھا گیا ہو۔
کیا شعور ہونے کے باوجود معاملات خدا کے حوالے کرنا یا کسی کو خدا کے ہی آگے جواب دہ سمجھنا اور پھر مطمئن ہوجانا اتنا مشکل ہے کہ آپ ہم یہ کر ہی نہیں پاتے؟ رشتوں کو اللہ کے سامنے جواب دہی کا ہی پابند رہنے دیں، خود خدا بن کر ان پر مسلط ہونے کا سب بڑا نقصان یہ ہے کہ چور راستے معمول بن جاتے ہیں اور پھر نہ ختم ہونے والا بگاڑ شروع ہو جاتا ہے۔ رشتہ چاہے کوئی بھی ہو اس میں دوستی کا عنصر ضرور شامل کریں۔ دوستی رشتوں میں آنے والی کرواہٹ کو دور کرتی ہے اور غلط فہمی پیدا نہیں ہونے دیتی۔
رشتوں کا حق بیڑیاں باندھنا نہیں بلکہ انہیں ان کی اچھائی اور برائی کے ساتھ قبول کرنے میں ہے۔ اگر خود کو خدا بنا کر ان پر مسلط ہوتے رہے تو ایک ایسا بگاڑ جنم لے گا جو آپ کو آپ کی اوقات آپ کا رتبہ سب کچھ یاد دلا دے گا۔ آپ پھر منتیں کرتے رہیں گے، معافیاں بھی مانگیں گے، ان کے سامنے گڑ گڑاتے رہیں گے لیکن سب کچھ بے سودکیوں کہ جب دل بھر جائے تو معافیاں منتیں اور گڑگڑانا سب بیکار ہے۔ پھر ایسے وقت میں افسوس اور پچھتاوے سے کچھ نہیں ہونے والا کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ غلط فہمیوں کی نظر ہو چکا ہوگا۔ رشتوں کو سانس لینے دیجیے جس طرح وہ پھلتے پھولتے ہیں ان پر اختیار کا بوجھ مسلط کرکے دم مت گھٹائیں کہ وہ زندگی سے بیزار ہوجائیں۔