پڑوسی ملک کے بزرگ کی دیئے ہوئے رنگین پانی کے چھینٹوں اور پانی کے ساتھ ملاکر دینے والے قطروں نے ایسا جادوئی اثر دکھایا کہ ملکہ عالیہ ٹھیک تیسرے دن اپنے پاؤں پر اس طرح کھڑی ہو گئیں جیسے کبھی بیمار ہی نہیں رہی ہوں۔ ان کے اس طرح تندرست ہوجانے پر پورے ملک میں زبردست جشن منایا گیا۔
اِدھر ملکہ عالیہ صحتیاب ہوئیں اْدھر نیک دل بادشاہ کی پری شہزادی شادی کی عمر پر پہنچی۔ بادشاہ جانتا تھا کہ شہزادی کے بڑے ہوتے ہی وہی حسین و جمیل طبیب حسب وعدہ اس کے دربار میں ضرور حاضر ہوگا۔ نیک دل بادشاہ نے سوچا کہ اگر وہ حقیقی طبیب ہوا تو کیا ہی اچھی بات ہے لیکن اگر وہ نوسرباز ہوا اور بقول دوست ملک کے بادشاہ، وہ سامری جادو گر ہوا تو اچھا ہے کہ اس کا راز کھل ہی جائے لیکن اگر وہ جادو گر ہوا اور بزرگ کے بیان کئے ہوئے خدشے کے مطابق اگر سامری جادوگر نے کوئی نقصان پہنچایا تو وہ کس نوعیت کا ہوگا اور اس کا توڑ کیا ہوگا۔
ابھی نیک دل بادشاہ دربار میں اسی سوچ میں گم تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ وہی نوجوان طبیب دربار میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کر رہا ہے لیکن۔۔۔۔۔ لیکن کہہ کر درباری خاموش ہو گیا۔ نیک دل بادشاہ نے کہا لیکن کیا؟۔ درباری نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو خود ہی اس “لیکن” کا مطلب سمجھ لیں۔ بادشاہ درباری کی بات سن کر استعجاب کا شکار ہوا لیکن درباری سے پوچھے بغیر ہی طبیب کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔ جب طبیب نیک دل بادشاہ کے سامنے آیا تو بادشاہ کو درباری کے “لیکن” کا مطلب خوب اچھی طرح سمجھ میں آگیا۔ وہی طبیب جو اس سے پندرہ سولہ سال پہلے ملا تھا اس کی شکل و صورت اور حسن و جمال میں رتی برابر بھی کوئی فرق نہیں تھا۔ وہ اسی طرح نو عمر، حسین اور خوش شکل دکھائی دے رہا تھا جیسا سولہ سال قبل تھا۔ باد شاہ نے جب اسی طبیب کو اسی عمر اور شکل و صورت میں دیکھا تو اسے حیرت سے زیادہ اس بات کا یقین ہو چلا کہ اس تک پہنچی ہوئیں اطلاعات درست ہی ہیں اور یہ طبیب حقیقی طبیب نہیں بلکہ کوئی بہت ہی بڑا بہروپیا ہے لیکن نیک دل بادشاہ نے اپنے کسی بھی انداز اور رویے سے اپنے شک کا اظہار نہیں ہونے دیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ بہروپیا اپنے کہنے کے مطابق اس سے فرمائش کیا کرتا ہے۔ نیک دل بادشاہ نے اسی طرح اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سدا بہار جوانی کا راز پوچھا تو اس نے کہا کہ میرے پاس ایسے ایسے نسخے ہیں جو بوڑھے کو جوان اور جوان کو بچہ بنا سکتے ہیں۔ باد شاہ نے بظاہر اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ بھرا دربار طبیب کو دیکھ کر حیرت زدہ تھا کیونکہ جو درباری اس وقت کڑیل جوان تھے وہ بڑھاپے میں داخل ہو چکے تھے اور جو عمر والے تھے وہ بہت ہی معمر نظر آنے لگے تھے لیکن طبیب تو آج سے سولہ برس پہلے جیسا تھا آج بھی وہ ان سب کو ویسا ہی دکھائی دے رہا تھا۔
نیک دل باد شاہ نے وہ سارے کلمات بہت اچھی طرح ذہن نشین کر لئے تھے جو دوست ملک کے باد شاہ نے اپنے بزرگ سے لکھواکر بھیجے تھے تاکہ وہ موقع کی مناسبت سے ان کو پڑھ کر سامری جادو گر پر پھونک کر اس کی اصلیت کو بھانڈا پھوڑ سکے۔
بادشاہ نے بظاہر خوش ہوتے ہوئے سامری جادو گر سے کہا کہ اب کہو تم ہم سے کیا طلب کرنا چاہتے ہو۔ بادشاہ نے کہا کہ اپنی جان کے علاوہ جو مانگو گے ہم تمہیں عنایت کریں گے لیکن ہم تمہیں یہ نہیں بتائیں گے کہ ہماری جان کس میں ہے۔ سامری جادو گر یہ سن کر بہت زور سے چونکا اس لئے کہ یاتو جنوں اور بھوتوں کی جان ان کے جسم کی بجائے کسی اور شے میں رکھی جاسکتی ہے یا پھر جادوگروں کی جان کسی اور چیز میں منتقل کی جاسکتی ہے، جیسے کہ خود اس کی جان طوطے کے انڈے میں ہے جو ایک نہایت خطرناک پہاڑی کے غار میں ایک سونے کے بکس میں رکھا ہے، تو کیا میرے سامنے جو بادشاہ ہے وہ کوئی جن بھوت یا جادو گر ہے۔ سامری جادو گر نے اپنے سر کو جھٹکا دیکر ہر خیال کو دل سے نکال پھینکا اور کہا کہ حضور مجھے آپ سے کچھ بھی نہیں چاہیے بس میں آپ کی صاحب زادی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ یقین مانیں اگر آپ نے مجھے قبول کر لیا تو پوری زندگی آپ کا غلام بن کر رہونگا، آپ، ملکہ عالیہ اور آپ کی بیٹی کو ہمیشہ ہمیشہ جوان بنا کر رکھوں گا۔
نیک دل بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ وہی بہروپیا سامری جادو گر ہے جس کی اطلاع اسے پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اس کو پہلے ہی دے دی تھی۔ نیک دل بادشاہ نے سامری جادوگر سے جھوٹ بھی نہیں بولا تھا کہ وہ سب کچھ اسے عطا کر سکتا ہے لیکن اپنی جان اس کے حوالے نہیں کر سکتا اور اس کی پری شہزادی دراصل اس کی جان سے بڑھ کر تھی اور اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ اپنے جگر گوشے کو اْس کے حوالے کرے گا جو اس کی بیٹی یعنی خود اس کی جان کا اصل امین ہوگا۔ بادشاہ اس بہروپیئے سامری جادو گر کی فرمائش سن کر سخت طیش میں آگیا لیکن اس نے اپنے چہرے پر ساری خوشیوں کو ایسا سجایا جیسے اس نے سامری جادو گر کو واقعی قبول کر لیا ہو۔ وہ سارے کلمات اس نے دل ہی دل میں دہرائے جو بزرگ کی جانب سے بادشاہ نے بھجوائے تھے۔ سامری جادوگر کو نہایت پیار سے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ سامری جادو گر خوشی سے سرشار ہوکر بادشاہ کے قریب پہنچا تو بادشاہ نے اسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ تھام کر زور سے اس کے چہرے پر پھونک ماری تو اچانک سامری جادو گر کا سارا حسن ملیا میٹ ہو گیا اور اس کی کتے جیسے شکل نکل کر سامنے آگئی اور ایک کربناک چیخ کے ساتھ وہ نظروں کے سامنے سے غائب ہو گیا۔ دربار میں جیسے بجلی سی کوند کر رہ گئی اور ساری فضا ساکت سی ہو گئی۔ چیخ کے ساتھ ہی سامری جادوگر کی نہایت بھیاک آواز بھی گونجی کہ اے بادشاہ میں تجھ سے ایسا انتقام لونگا کہ نہ تو تو جی سکے گا اور نہ ہی مر سکے گا۔
ماحول سازگار ہونے میں کافی وقت لگا۔ درباری بہت دیر کے بعد اپنے ہوش و حواس میں آئے۔ بادشاہ بھی زناٹے میں آگیا اور سوچنے لگا کہ دیکھو اب ہوتا کیا ہے لیکن اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کی جان (شہزادی) سامری جادو گر کے کے چنگل میں آنے سے بچ گئی۔ نہ ہی پڑوس ملک کا بادشاہ اسے حقیقت سے آگاہ کرتا اور نہ اس کے ملک کے بزرگ کوئی عمل اسے سکھاتے تو آج وہ اپنی بیٹی اس دھوکے باز کے حوالے کر ہی دیتا۔
ہلکی سردیوں کا زمانہ تھا۔ واقعے کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے۔ ابھی تک تو سامری جادو گر کی جانب سے جوابی وار سامنے نہیں آیا تھا لیکن بادشاہ جانتا تھا کہ اپنی اتنی بڑی شکست کے بعد سامری جادو گر کوئی نہ کوئی اوچھا وار ضرور کرے گا۔ نیک دل بادشاہ، ملکہ عالیہ اور اس کی حوروں سے بھی حسین بیٹی شاہی محل کے بڑے سارے لان میں بیٹھے تھے۔ بیٹی تتلیوں سے کھیلتے کھیلتے نیک دل بادشاہ اور ملکہ عالیہ کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ابھی وہ دونوں اس کو پیار بھری نگاہوں سے دیکھ کر خوش ہی ہو رہے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ تین رنگین لکیریں ہوا میں تتلیوں کی طرح پرواز کرتی ہوئی شہزادی کے قریب آئیں اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ سکیں، وہ تینوں رنگین لکیریں شہزادی کی ناک میں داخل ہو کر غائب ہو گئیں۔ اب اللہ جانے یہ ان لکیروں کا شاخسانہ تھا یا کچھ اور شہزادی کی آنکھیں آہستہ آہستہ بوجھل ہوتی چلی گئیں اور وہ ان کی گود میں لیٹ کر گہری نیند میں چلی گئی۔ کل شب وہ اپنی ہم جولیوں کے ساتھ رات گئے کھیلتی رہی تھی اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی بیدار ہو گئی تھی اس لئے بادشاہ اور ملکہ یہی سمجھے کہ شہزادی کو نیند آ گئی ہے۔ کنیزوں کی مدد سے شہزادی کو اس کی اپنی خوبگاہ میں پہنچا کر وہ دونوں خود بھی شہزادی کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ وہ کسی حد تک غیر مطمئن بھی تھے اس لئے کہ آخر وہ کیسی تین رنگین لکیریں تھیں جو شہزادی کے ناک میں داخل ہو گئی تھیں جس کے فوراً بعد ہی شہزادی گہری نیند میں چلی گئی تھی۔
شہزادی کی نیند تھی کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ نہ تو وہ بولتی تھی اور نہ ہی خود سے کروٹ بدلتی تھی البتہ جو کچھ بھی اسے کھلایا پلایا جاتا تھا وہ ایک نارمل انسان کی طرح کھا پی لیا کرتی تھی مگر اس دوران بھی شہزادی کی آنکھیں بند ہی رہتی تھیں۔ ملک بھر کے سارے حکیموں اور طبیبوں سے علاج کرالیا گیا تھا لیکن نیند تھی کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ بادشاہ سمجھ گیا تھا کہ یہ بیماری نہیں بلکہ جادوئی اثر ہے۔ اسے اس دھوکے باز سامری جادو گر کے الفاظ اچھی طرح یاد تھے کہ میں تمہاری وہ حالت کردونگا کہ نہ تو تم جی سکو گے اور نہ ہی مرسکو گے۔ یہی حالت اس وقت بادشاہ کی تھی۔
آہستہ آہستہ یہ خبر پڑوسی دوست ملک کے بادشاہ تک بھی پہنچی۔ وہ سمجھ گیا کہ ہونہ ہو یہ میری سلطنت کے سامری جادو گر کی ہی حرکت ہو سکتی ہے۔ جس ماہر حکیم کی شہرت کا ذکر نیک دل بادشاہ نے اس سے کیا تھا یہ وہی خبیث سامری جادو گر ہی رہا ہوگا جو اپنا بھیس بدل کر اور ایک حسین ترین نوجوان کے شکل میں نیک دل بادشاہ کے دربار میں گیا ہوگا اور اب راز کھل جانے کی وجہ سے بادشاہ سے انتقام پر اتر آیا ہو گا۔ نیک دل بادشاہ کے حالات جان کر اسے بہت دکھ تھا اور اسی دکھ کے عالم میں وہ اپنے محل کے بہت عالی شان باغ میں بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا کہ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا اس کے پاس آیا اور کہنےلگا (جاری ہے)